سپین: ہڑتالی کان کنوں کا میڈرڈ میں شاندار استقبال

[تحریر:جارج مارٹن، تلخیص و ترجمہ : عمران کامیانہ]
10جولائی کی رات کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کا استقبال کرنے کے لئے میڈرڈ کی سڑکوں پر ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ امڈ آئے۔ یہ کان کن اٹھارہ دنوں میں 400کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر کے سپین کے دارلحکومت میں پہنچے تھے۔عوام کا ایک جمِ غفیر ( CCOOیونین کے سیکرٹری کے مطابق لوگوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی)ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے انقلابی ترانے گا کر کان کنوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہا تھا۔
ریلی کا آغاز رات 10بجے ہونا تھا لیکن کان کن رات 2بجے ہی سول میں داخل ہو پائے۔ میڈرڈ میںآگ بجھانے والے محکمے کے محنت کش، جو کہ کٹوتیوں اور بے دخلیوں کے خلاف اس جنگ میں دوسرے محنت کشوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں،ہڑتالی کان کنوں کے لئے رش میں سے راستہ بناتے رہے۔ہزاروں لوگ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے انٹرنیشنل اور کان کنوں کا نغمہ ’سانتا باربرا‘ گا رہے تھے۔ بے شمار کان کنوں کی آنکھوں سے محنت کشوں کی یکجہتی دیکھ کر آنسو جاری تھے۔مظاہرین کے موڈ میں غصے اور شادمانی کے ملے جلے عناصر شامل تھے۔ہجوم کو رفتہ رفتہ اپنی طاقت کا احساس ہونے لگا اور ’’ہاں، ہم کر سکتے ہیں‘‘، ’’محنت کشوں کی جدوجہد زندہ باد‘‘ جیسے نعرے پورے مجمع میں گونجنے لگے۔

مئی کے اواخر سے 8000سے زائد کان کن ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہڑتال کی اصل وجہ وہ حکومتی اعلان ہے جس کے مطابق کان کنی کی صنعت کو دی جانے والی سبسڈی میں 63 فیصد کٹوتی کی جائے گی جس کے باعث کان کنوں کے ساتھ ساتھ 30000مزید نوکریاں خطرے میں ہیں۔زر خرید میڈیا نے ان محنت کشوں کو پہلے تو نظر انداز کیا اور بعد میں شدت پسند، دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا کہا۔یہ سب اگرچہ سفید جھوٹ تھا لیکن اس سے محنت کشوں کے مورال میں کچھ کمی ضرور آئی۔ لیکن 10جولائی کی رات سب کچھ الٹ ہوتا ہوا نظر آیا۔لاکھوں لوگوں کو اپنے ارد گرد پا کر بہت سے کان کن کہہ رہے تھے کہ ’’لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘
اس ریلی سے دس دن پہلے سپین نے یورو کپ جیتا تو حکمران طبقے نے اس موقع کو قوم پرستی کے جذبات ابھارنے اور طبقاتی کشمکش کو قومی پرچم کے سائے میں ماند کرنے کے لئے ہر ممکن حد تک استعمال کیا۔لیکن دس دن بعد محنت کشوں کا استقبال کرنے والے ہزاروں لوگ سرخ پرچم لہراتے ہوئے چلا رہے تھے کہ ’’یہ (کان کن) ہماری قومی ٹیم ہیں۔‘‘
جیسے ہی جلوس’’ Puerta del Sol‘‘میں داخل ہوا تو سیاستدانوں، ججوں اور بینکروں کے خلاف لگنے والا ’’ وہ ہماری نمائندگی نہیں کرتے ‘‘ کا نعرہ کان کنوں کے حق میں ’’ یہ ہمارے اصل نمائندے ہیں‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔
کان کنوں کی جدوجہد ہسپانوی محنت کشوں اور نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کان کن ہر صورت میں اس جنگ کو آخر تک لڑنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔یہ سب کچھ CCOOاور UGTکی ٹریڈ یونین افسر شاہی کی مصالحانہ ’’حکمت عملی ‘‘ کے عین متضاد ہے۔محنت کش اور نوجوان لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ ہر جمعہ کو حکومت نئی کٹوتیوں کا اعلان کرتی ہے۔ بینکوں کو بیل آؤٹ دئے جار ہے ہیں جبکہ تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر لاد کر انہیں گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور مزید ’’قربانیاں‘‘ مانگی جا رہی ہیں۔اس رات جس غم و غصے کا اظہار ہوا وہ پچھلے ایک سال سے پک رہا تھا مگر اسے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔
کان کنوں کی اس شاندار اور ہمت و حوصلے سے بھرپور جدو جہد کے باوجود ٹریڈ یونین لیڈروں نے اظہارِ یکجہتی کے لئے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھائے۔اس وقت ضرورت ہے کہ سپین میں قومی سطح پر جلسے جلوس، میٹنگز اور ریلیا ں منعقد کی جائیں جن میں کان کنوں کے نمائندوں کو مدعو کر کے ان کا موقف عام لوگوں تک پہنچایا جائے تاکہ حکمران طبقے اور میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈا کا جواب دیا جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ ہر محکمے اور فیکٹری میں کان کنوں کی مالی امداد اور ہڑتال کو جاری رکھنے کے لئے فنڈ بنایا جائے۔ان سب اقدامات سے محنت کش طبقہ مجموعی طور پر مزید انقلابی اقدامات کے لئے سیاسی طور پر تیار ہو گا۔’’ہم کر سکتے ہیں‘‘(Yes! We can) کے نعرے کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش اور نوجوان لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ ضرورت صرف درست تناظر پر مبنی سنجیدہ کمپیئن کی ہے جو محنت کشوں کو یکجا کرتے ہوئے حکومتی کٹوتیوں کی پالیسی کو شکست دے سکے۔
جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں (11جولائی 2012ء)کان کن ایک اور بہت بڑے جلوس کے ہمراہ وزارتِ صنعت کی طرف بڑھ رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف پارلیمینٹ کا صد ر راجوئے یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والی نئی شرائط بیان کر رہا ہے جن کے ذریعے سے بنکوں کو بیل آؤٹ کیا جائے گا اور بجٹ خسارہ کم کیا جائے گا۔دوسرے الفاظ میں بجٹ خسارے کو 3 فیصدپر لانے کے لئے 65ارب یورو کی مزید کٹوتیاں کی جائیں گی۔ریلوے، ائر پورٹس اور بندر گاہوں کی نجکاری کی جائے گی۔ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ بے روزگاری الاؤنس ختم کئے جائیں گے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جائے گا۔حکومتی ملازمین کے کرسمس بونس 2015ء تک ختم کئے جائیں گے۔سرمایہ دارانہ بحران سے نکلنے کے لئے ایک بار پھر محنت کشوں کا خون نچوڑا جائے گا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ راجوئے نے اپنی تقریر کا آغاز یونائٹڈ فرنٹ بنانے پر سوشلسٹ پارٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کیا۔دوسری طرف پارلیمنٹ کے بائیں بازو کے اتحاد سے تعلق رکھنے والے اراکین نے کان کنوں سے اظہار یکجہتی والی ٹی شرٹیں پہن رکھی تھیں۔تازہ ترین رائے عامہ کے سروے کے مطابق برسرِ اقتدار دائیں بازو کی ’پاپولر پارٹی‘ کی مقبولیت 44فیصدسے کم ہو کر 37فیصدپر، جبکہ اپنی مصالحانہ پالیسیوں کی وجہ سے سوشلسٹ پارٹی کی مقبولیت بھی 28.7فیصد سے کم ہو کر 23.1فیصدپر آ گئی ہے۔مقبولیت میں سب سے زیادہ اضافہ بائیں بازو کے اتحاد (United Left)کو ہوا ہے جس کی مقبولیت 6.9فیصدسے 13.2فیصدتک پہنچ گئی ہے۔
آگے کیا ہونے والا ہے؟معاشی نقطہ نظر سے کان کنوں کی جدوجہد کو زائل کرنے کے لئے ان کے مطالبات ماننے کی قیمت کچھ زیادہ نہیں ہے۔ لیکن اس موقع پر کان کنوں کے مطالبات ماننے سے کٹوتیوں کا شکار محنت کشوں اور نوجوانوں کی دوسری پرتوں کو جو پیغام ملے گا وہ حکمران طبقات کے لئے بہت خطرناک ہے۔لہٰذا ریاست کان کنوں کے مطالبات ماننے سے حتی الامکان گریز کرے گی۔سرمایہ دارانہ ریاستی پالیسیوں کے خلاف لڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عام ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے سڑکوں پر مورچہ بندی کی جائے اور میڈرڈ کی طرف مارچ کیا جائے۔
دوسری طرف ٹریڈ یونین قیادت نے اب تک ایسا کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا جس کے ذریعے سے اس جدوجہد کو محنت کش طبقے کی دوسری پرتوں میں پھیلایا جا سکے۔اگرچہ 18جون کو کان کنی والے علاقوں میں عام ہڑتا ل کی گئی لیکن اس کے بعد سے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔کم از کم ’’Austurias‘‘میں عام ہڑتال کا اعلان کیا جائے اور قومی سطح پر کان کنوں کے ساتھ یک جہتی کا دن منایا جائے۔
میڈرڈ میں شاندار استقبال کے بعد سے کان کن پر امید اور پر جوش ہیں۔انہیں شکست دینا اب اتنا آسان نہیں رہا اور وہ خالی ہاتھ واپس کام پر نہیں جانے والے، خاص طور پر یہ جاننے کے بعد کہ اگر وہ یہ جنگ ہار جاتے ہیں تو اس سال کے آخر تک ان کی نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔
آنے والے دنوں میں ٹریڈ یونین قیادت کو اس تحریک کی سرپرستی کرتے ہوئے اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے درست سمت میں گامزن کرنا ہو گا، یا پھر نیچے پکنے والا لاوا پھٹ کر انہیں اڑا دے گا!