| رپورٹ: PTUDC کراچی |
جنرل ٹائرز میں کام کرنے والوں کی کل تعداد 3000 ہے جس میں سے صرف 500 مزدور اس ادارے کے مستقل ملازم ہیں جبکہ باقی 2500 ملازمین یا تو کنٹریکٹ پر ہیں یا پھر انہیں ٹھیکیداری نظام کی بدولت اپنی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ ٹھیکیدار کی جھولی میں ڈالنا پڑتا ہے۔ ان کو نہ تو بونس ملتا ہے نہ ہی اولڈ ایج بینیفٹ اور نہ ہی کوئی میڈیکل کی سہولت میسرہے۔ کئی ملازمین نے اپنی زندگی کا وہ تمام حصہ جس میں ان میں کام کرنے کی اہلیت تھی اس ادارے کو دیا مگر جب وہ ریٹائر ہوئے توان محنت کشوں کو خالی ہاتھ غربت، بھوک اورمہنگائی سے لڑنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ جنرل ٹائرز کا شمار پاکستان میں ٹائر اور ربڑ بنانے والی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے اور کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 23 لاکھ ٹائر ہر سال بنانے کی صلاحیت موجود ہے جو کہ ملکی ضروریات کا تقریباً ایک تہائی بنتے ہیں۔
اس سال مزدوروں کی CBA نے مستقل ملازمین کی مراعات کے ساتھ ساتھ اپنے مطالبات میں سرِ فہرست غیر مستقل ملازمین کے مطالبات رکھے ان کے لیے بھی مستقل ملازمین کے برابر سہولیات کا مطالبہ کر دیا جس کو اس ادارے کی انتظامیہ نے رد کر دیا اور نتیجے کے طور پر مزدوروں نے ہڑتال کر دی۔ یہ ہڑتال 9 دن تک جاری رہی اور چند دنوں تک محنت کشوں کے اتفاق اور اتحادنے ہی فیکٹری انتظامیہ کی کمر توڑ دی اور انہیں جھکنا پڑا۔ انتظامیہ نے فیکٹری کے اندر ان ملازمین کو بھی مستقل ملازمین کے برابر سہولیات دینے کا مطالبہ منظور کرتے ہوئے ان غیر مستقل ملازمین کو بھی تمام سرکاری چھٹیوں پر تنخواہ دینے اوردورانِ کام صابن، تولیہ اور کھانا وغیرہ دینے کا وعدہ کیا اور اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔
اب CBA (جس کے بنیادی عہدیدار ان میں صفدر جبار، اسرار احمد، ظہور احمد، محمد نعیم اور محمد بوٹا ہیں) نے سب سے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ CBA کے فنڈ میں 20 روپے ان ملازمین سے بھی وصول کریں گے جومستقل نہیں ہیں اور لیبر ڈپارٹمنٹ میں ان ملازمین کا نام بھی شامل کرایا جائے گاتاکہ ان ملازمین کے ادارے میں کام کرنے کا ثبوت دیا جا سکے۔ انتظامیہ پہلے ہی جوابی وار کرنے کی تیاری میں تھی کہ انہیں یہ چندہ وصولی نظر آگئی جس کا مطلب تھا کہ انہیں تمام ملازمین کو مستقل کرنا پڑے گا۔ انہوں نے انتقام کے طور پر ظہور احمد سمیت چند کنٹریکٹ ملازمین کو اس وقت نکال دیا جب ادارے نے پہلے ہی اضافی پروڈکشن جمع کر لی تھی۔ اس جبری برطرفی کے خلاف مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ جس دن ہڑتال کی گئی اس دن کا کھانا بھی غائب کر دیا گیا اور محنت کش اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی انتقامی کاروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے اس دوسرے جبر کا جواب اس کام چھوڑ ہڑتال کو 30 دن تک بڑھا کر دیا۔ مگر کچھ لوگ بک گئے اور ہڑتال 34 لوگوں کی ملازمت کے نقصان پر ختم ہو گئی جن میں صفدر جبار، اسرار احمد، محمد نعیم اور محمد بوٹا سمیت 30 کنٹریکٹ ملازمین شامل تھے۔
اس جبری برطرفی نے وقتی طور پر تو محنت کشوں کو پسپا تو کیا ہے لیکن جو کچھ محنت کشوں نے جیتا وہ آج تک انتظامیہ ان سے واپس لینے کی جرات نہیں کر سکی۔ علاوہ ازیں برطرف ہونے والے ملازمین بھی فیکٹری سے باہر رہ کر اپنے ساتھیوں کی مستقلی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) جنرل ٹائرز کے محنت کشوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ انتظامیہ تمام برطرف ملازمین کو بحال کرتے ہوئے ان کے تمام واجبات فی الفور ادا کرے۔ تمام کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے اور محنت کشوں کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے۔
انتظامیہ کے مزدور دشمن رویے کے خلاف مذمتی بیانات ان پتوں اور فون نمبروں پر بھیجے جا سکتے ہیں۔