| تحریر: لال خان |
مسئلہ کشمیر ایک ایسا زخم بن چکا ہے جس کا علاج تو درکنار، برصغیر کے حکمران اسے بار بار کرید کر پورے خطے کو اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس کا مقصد یہاں کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے بنیادی معاشی و سماجی مسائل کو قومی شاونزم اور مذہبی بنیاد پرستی تلے دبانا ہے۔ مسرت عالم کی گرفتاری، رہائی اور پھر گرفتاری کے گرد ابھرنے والی شورش کے ذریعے کشمیر میں سطح کے نیچے پنپنے والی بغاوت اور غم و غصہ پھر سے پھٹا ہے۔ کشمیر پر دو طرفہ سامراجی تسلط کے ذریعے وہاں کے عوام کو نہ صرف قومی استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ریاستی دہشت گردی کے ساتھ معاشی جارحیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔
مغربی دانش ور اور ان کے مقامی حواری عمومی طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ برصغیر، خصوصاً پاکستان میں مذہبی منافرت اور بنیاد پرستی کو 1947ء کے خونی بٹوارے سے فروغ ملا ہے۔ مذہبی جنون کو پروان چڑھانے میں غربت، بیروزگاری، کالے دھن جیسے بنیادی عناصر اور سب سے بڑھ کر سامراج کی اپنی مداخلت اور پراکسی جنگوں پر بڑی عیاری سے پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر کوئی مذہبی جنونی ہے۔ یہ مفروضہ نہ صرف غلط ہے بلکہ پاکستان میں بسنے والے محنت کش عوام کی جدوجہد، قربانیوں اور 1968-69ء جیسی انقلابی تحریکوں کی تضحیک ہے۔ یہ درست ہے کہ اس ملک میں مذہبی دہشت گردی گزشتہ کچھ عرصے سے شدت اختیار کر گئی ہے اور سماجی اقدار پرکسی حد تک مذہبی یا فرقہ وارانہ تعصبات حاوی ہیں۔ لیکن یہ ایک عارضی کیفیت ہے جو اس سماج کی روایات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ صورتحال ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی۔ بنیاد پرستی اور مذہبی جنون کی تباہ کاریاں تہذیب اور معاشرت کو مٹا سکتی ہیں لیکن اس ملک کے محنت کش ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ ان کی میراث اس حقیقت کی گواہ ہے اور ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوا کرتا۔ یہ جدلیات کا اصول اور تاریخ کا قانون ہے۔
یہاں مذہبی رجعت کو پروان چڑھانے میں 1947ء کے بٹوارے کا کوئی کردار ہے تو ہندوستان (جسے ہندو انتہا پسند ’’بھارت‘‘ کہنا پسند کرتے ہیں) بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ بھارتی ریاست کو ’’سیکولر‘‘ قرار دینے کا پراپیگنڈا حقائق کے برعکس ہے۔ ہندوستان کے معاشی ارتقا کے ساتھ وہاں کی سرمایہ داری کا تعفن بڑھتا ہی گیا ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں دنیا کی سب سے زیادہ بھوک پلتی ہے۔ پاکستان کی ہی طرح کرپشن، بدعنوانی اور کالے دھن نے ہندوستان کی ریاستی مشینری کو بھی کھوکھلا کر دیا ہے۔ 2014ء کے الیکشن میں انتہائی دائیں بازو کے ہندو بنیاد پرست نریندرا مودی کی انتخابی مہم میں امریکی انتخابات سے بھی زیادہ دولت لٹائی گئی تھی۔ غربت کے اس بحر میں امارت کے جزائر بھی ہیں۔ مکیش امبانی، لکشمی متل اور کمار برلا جیسے ہندوستانیوں کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران میں شرح منافع کو برقراررکھنے کے لئے محنت کش عوام پر معاشی حملے اس نظام کی ضرورت بن چکے ہیں۔ ہندوستان کے ان سرمایہ داروں نے اسی مقصد کے تحت مودی جیسے جنونی شخص کو اقتدار دیا ہے جس کی فسطائیت ان آقاؤں کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
مودی کی سماجی بنیادیں معاشرے کی پسماندہ پرتوں اور معاشی گراوٹ کے تحت سکڑتی ہوئی مڈل کلاس میں ہیں۔ اسے ایک طرف ہندوستان کے نام نہاد ’’سیکولرازم‘‘ کی پاسداری کا ناٹک کرنا پڑرہا ہے تو دوسری طرف بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ جیسی فاشسٹ تنظیموں کے دباؤ کا سامنا ہے جن کے ذریعے بنیاد پرستی کا زہر عوام کی نفسیات میں انڈیل کر اس نے ووٹ لیے ہیں۔ مودی حکومت کی پالیسیاں تضاد کا شکار ہیں اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘کی نعرہ بازی بھی کی جارہی ہے۔
مودی حکومت کے تحت بھارتی ریاست کی بڑھتی ہوئی وحشت صرف کشمیر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پورے ہندوستان میں قومیتی بنیادوں پر جبراور طبقاتی استحصال میں شدت آرہی ہے۔ لیکن کشمیر کا مسئلہ اس لئے بھی زیادہ اجاگر ہوجاتا ہے کہ اس سے پاکستانی ریاست کے مخصوص مفادات بھی وابستہ ہیں۔ مودی نے پہلے ’’ترقی‘‘ (وکاس) اور ’’یکجہتی‘‘ والی اپنی روایتی واردات کشمیر میں بھی کرنے کی کوشش کی۔ کشمیر کے عوام کی مایوسی کو استعمال کرتے ہوئے انہیں سبز باغ دکھا کر، ریاستی الیکشن جیت کر وہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کی تعمیر میں اہم سنگ میل کے طور پر اپنا نام تاریخ میں لکھوانا چاہتا تھا۔ لیکن کشمیر میں وہ صرف مذہبی تفریق اور منافرت کو ہی ابھار پایا جس کے ذریعے جموں اور لداخ میں بی جے پی نے 25 نشستیں حاصل کیں، جو ان کی توقعات سے کم تھیں۔ بی جے پی کو مجبوراًمحبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانا پڑی۔ اس مخلوط حکومت نے کشمیر کے حکمران طبقے کا حقیقی چہرہ وہاں کے عوام کے سامنے پھر سے بے نقاب کیا ہے۔ لیکن یہ مخلوط حکومت جتنی منافقانہ ہے، اتنی ہی غیر مستحکم بھی ہے جو معمولی سی ٹھوکر سے بھی ٹوٹ جائے گی۔
پچھلی سات دہائیوں سے غاصب ریاستوں نے کشمیر کے عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہیں۔ برداشت، مزاحمت اور جدوجہد کی طویل تاریخ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوان نے رقم کی ہے۔ لیکن اس جدوجہدِ آزادی کاالمیہ تحریک کے لائحہ عمل، نوعیت اور مقصد و منزل سے متعلق ابہام اور قیادت کا فقدان رہا ہے۔ کشمیری قوم پرستی سے لے کر پاکستان کے ساتھ الحاق کے پروگرام اور اسلامی بنیاد پرستی تک، اس نظام کے اندر ’’آزادی‘‘ حاصل کرنے کے ہر نظرئیے نے کشمیر کے مظلوم باسیوں کو بار بار ناکام و نامراد ہی کیا ہے۔ مسلح جنگ اور انفرادی دہشت گردی ہو یا پھر سامراجی قوتوں اورتنازعے میں ملوث ریاستوں کی مداخلت سے ہونے والے ’’مذاکرات‘‘، مسئلہ گھمبیر ہی ہوتا چلا گیا ہے۔ پسپائی کی اسی یاس کو اب ایک تضحیک آمیز طریقے سے استعمال کیا جارہاہے۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کو اگر پاکستان سے ملا دیا جائے تو کیا کشمیری عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ہندوستان اور پاکستان کی ریاستیں اپنے باسیوں کو کیا انتہائی بنیادی ضروریات زندگی بھی فراہم کر پائی ہیں؟حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران بہت عرصہ قبل ہی کشمیر سے متعلق اپنے کلاسیکی موقف سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے اِس طرف کے کشمیر میں کون سی خوشحالی اور ترقی آگئی ہے؟ یہاں کے کشمیر ی محنت کشوں کی زندگی کیا کم تلخ ہے؟کشمیر کے نوجوان کیا پورے ملک اور پوری دنیا میں روزگار کی تلاش میں خاک نہیں چھان رہے ہیں؟خلیجی ممالک میں غلام داری کے حالات میں مشقت نہیں کر رہے ہیں؟ان حالات میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے پاکستان سے الحاق میں کیا کشش یا امید ہوسکتی ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف ایک ہی معاشی و سیاسی نظام کی حاکمیت ہے۔ دونوں طرف سرمائے کا جبر ہے، سرمایہ داری کی ذلت ہے۔ حکمران اس نظام کو نہیں چلاتے بلکہ اس نظام کے تقاضے حکمرانوں کو چلاتے ہیں۔ استحصال اور جبر میں مسلسل اضافہ آج سرمایہ داری کے وجود کا بنیادی تقاضہ ہے۔ سرمائے کی اس کالی دیوی کو ہر وقت غریبوں کے لہوکی بَلی چاہئے۔ سرمائے سے آزادی کے بغیر ہر ’’آزادی‘‘ دھوکہ، جھوٹ اور فریب ہے۔ مسائل اگر لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں سنگین ہوتے جارہے ہیں تو صورتحال ریڈ کلف لائن کے دونوں طرف بھی مختلف نہیں ہے!
متعلقہ:
کشمیر: آزادی چاہیے، مگر ووٹ دیں گے!
کشمیر کے انتخابات میں امید کی کرن