’’تین کروڑ لوگوں کی طاقت سے آنے والی تبدیلی ’’کُو‘‘ نہیں انقلاب ہوتی ہے‘‘
[تحریر: لال خان]
صحرائے سنائی میں، جہاں سے دنیا کی اہم ترین نہر سویز بھی گزرتی ہے، راکٹ حملوں میں 24 مصری فوجیوں کی ہلاکت نے مصر میں صورتحال کی بڑھتی ہوئی سنگینی کو اجاگر کر دیا ہے۔ 14اگست کو مصری فوج نے الفتح مسجد کے گردو نواح میں اخوان المسلمون کے حامیوں کے دھرنے کو توڑنے کے لئے ریاستی جبر کا استعمال کیا۔ مظاہرین کو ہٹانے کے لئے گن شپ ہیلی کاپٹر اور بلڈوزراستعمال کئے گئے اور اس تصادم میں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ تین ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ریاستی جبر کا یہ سلسلہ تاوقت تحریر جاری ہے۔
مصر میں 1952ء کے 59 سال بعد جنوری 2011ء میں بہت بڑی عوامی تحریک ابھری تھی جس نے اقتدار پر 30 سالوں سے براجمان حسنی مبارک کا تختہ صرف 18 دنوں میں الٹ دیا تھا۔ حسنی مبارک غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف عوام میں پائے جانے والے غصے کا حدف اور نفرت کی علامت بن گیا تھا۔ مورسی کی طرح اسے بھی فوجی جرنیلوں نے ہی تحریک کا دباؤ توڑنے اور حالات کو ’’معمول‘‘ پر لانے کے لئے معزول کیا تھا۔ سامراجی ذرائع ابلاغ نے سلگتے ہوئے سماجی و معاشی مسائل سے چھٹکارے کے لئے برپا کی گئی مصری عوام کی انقلابی تحریک کو’’جمہوریت کی جدوجہد‘‘ کے طور پر پیش کیا اور اس انقلاب کے محرکات اور مطالبات کو مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ ٹھوس لائحہ عمل اور پروگرام رکھنے والی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں مصر کا حکمران طبقہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا ناٹک رچا کر معاشی و سماجی نظام کو بچانے میں کامیاب ہوگیا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاستی ڈھانچے کے تحت مئی اور جون 2012ء میں انتخابات ہوئے۔ مصر کے حکمران طبقات، فوجی اشرافیہ اور عالمی سامراج نے اپنے اپنے نمائندے میدان میں اتارے اور پس پردہ جوڑ توڑاور سودے بازی کا بازار گرم ہوا۔ 2011ء کی عوامی تحریک سے قبل ہی امریکہ اور اخوان امسلمون کے درمیان خفیہ مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسلامی بنیاد پرستی اور امریکی سامراج ایک نئے ناطے میں جڑ گئے، مورسی کو صدر بنوایا گیا اور اخوان المسلون کی ’’جمہوری‘‘ حکومت برسر اقتدار آگئی۔ لیکن اس حکومت کے ایک سال کے دوران مہنگائی اور بیروزگاری اضافہ ہوا، لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی اور عوام کی معاشی ذلالت کا سفر جاری و ساری رہا۔ مصرکی دس فیصد عیسائی آبادی کو حراساں اور گرجا گھروں پر حملے کرنے والے غنڈوں کو مورسی حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ آئی ایم ایف کی شرائط سمیت سامراجی مفادات اس حکومت کی ترجیح رہے۔ آزاد منڈی کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں نے مصر کے معاشی بحران کو شدید کر دیا۔ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام مورسی حکومت کی جانب سے جمہوری حقوق پر حملوں، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینے والی رجعتی پالیسیوں اورتمام تر اختیارات کو صدر کے ہاتھ میں مجتمع کرنے والی آمرانہ قانون سازی نے عوام کے غم و غصے میں اضافہ کیا۔ عوام کی بغاوت نے 30 جون 2013 کے دن مصر کی سڑکوں پر بہتے ہوئے انقلابی لاوے کی شکل اختیار کر لی جو مورسی حکومت کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ یہ دوسرا انقلاب 2011ء سے کئی گنا بڑا تھا۔ آٹھ کروڑ کی کل آبادی رکھنے والے مصر میں ساڑھے تین کروڑ لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ سامراجی میڈیا انہیں تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے کہنے پر مجبور ہوگیا۔ مصر کے حکمرانوں کے ریاستی ایوان لرزنے لگے۔ حسنی مبارک کی طرح مورسی کو معزول کر کے عوامی سیلاب کو روکنے اور ریاست کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ غالب ذرائع ابلاغ نے انتہائی ڈھٹائی سے اسے فوجی کُو قرار دیا۔ تین کروڑ لوگوں کی طاقت سے آنے والی تبدیلی ’’کُو‘‘ نہیں انقلاب ہوتی ہے!اگر جرنیل مورسی کو معزول نہ کرتے تو بپھرے ہوئے عوام مورسی کے ساتھ ساتھ انہیں بھی اڑا دیتے۔ دو سال کے قلیل عرصے میں انقلابی تحریکوں کے ذریعے یک بعد دیگرے جابرانہ آمریت اور ’’جمہوری‘‘ حکومت کا خاتمہ ثابت کرتا ہے عوام سیاسی نظام اور چہروں کی تبدیلی کی بجائے استحصالی معاشی و سماجی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وقتی طور پر تحریک کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اخوان کے حامیوں نے دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا، لیکن موجودہ گھمبیر صورتحال میں اہم عنصر بیرونی مداخلت کا ہے۔
مشرقی وسطیٰ میں پچھلی کئی دہائیوں سے سعودی شاہی خاندان کا سیاسی اور سفارتی غلبہ جاری تھا۔ تاہم پچھلے چند سالوں کے دوران قطر کے شاہی خاندان نے اپنی بڑھتی ہوئی دولت کے زور پر اس خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے فلسطین، ترکی، شام اور دوسرے کئی ممالک میں اسلامی بنیاد پرستوں کو بڑے پیمانے پر مالی امداد دے کر اپنا مطیع بنایا ہے۔ سعودی حکمرانوں کے لئے اپنے مقابلے میں ابھرتاہوا قطری سامراج قابل قبول نہیں ہے اور دونوں رجعتی بادشاہتوں کے درمیان بالواسطہ تصادم مصر اور شام کی موجودہ صورتحال میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ شام میں بشارالاسد سے برسر پیکار بنیاد پرست قوتوں میں دھڑے بندی شدت اختیار کر چکی ہے اور یہ دھڑے ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ مصر میں فوج کے جبر کو سعودی آشیر آباد حاصل ہے۔ سعودی عرب نے فوجی جرنیلوں کو آٹھ ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔ دوسری طرف قطری حکمران بھاری مالی امداد کے ذریعے اخوان المسلمون کو منظم اور مسلح کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے حکمران اس خطے میں امریکہ کے روایتی حلیف رہے ہیں لیکن اس وقت مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی کمانڈکا ہیڈ کوارٹر قطر میں ہے۔ درحقیقت مصر اس وقت سعودی اور قطری بادہتوں کی پراکسی جنگ کا میدان بن چکا ہے اور اس سامراجی تصادم میں استحصال زدہ عوام پس رہے ہیں۔ میڈیا کی جانب سے سیکولر اور مذہبی عناصر کی خانہ جنگی کا شور بالکل بے بنیاد ہے۔ مصر کی موجودہ عبوری حکومت کا بڑا حصہ اخوان المسلون سے کہیں زیادہ شدت پسند اسلامی بنیاد پرست سلفیوں کی النور پارٹی پر مشتمل ہے جنہیں سعودی حمایت حاصل ہے۔ یوں اسلامی بنیاد پرستوں کے دو گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ مصر میں سماجی و سیاسی انتشار پورے خطے میں عدم استحکام کی نئی لہر کو جنم دے سکتا ہے۔ اس صورتحال میں امریکی سامراج تذبذب اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ سعودی عرب اور قطر، دونوں ریاستیں امریکہ کی پروردہ ہیں جبکہ مصری فوج کی امداد بند کرنا خطے میں امریکہ کے سٹریٹجک مفادات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ امریکی سفارتکار اخوان اور عبوری حکومت میں سمجھوتہ کروانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایسی کسی مصالحت سے مصر کے سماجی تضادات، معاشی بحران اور عوامی مسائل تو حل نہیں ہوں گے۔ اصل مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کا بحران سیاسی، سماجی اور سفارتی خلفشار کو جنم دے رہا ہے۔ یہ نظام سماجی ارتقا کو آگے بڑھانے سے قاصر ہے اور انقلابی طریقہ کار سے اسکا خاتمہ کئے بغیر استحکام، امن اور خوشحالی ممکن نہیں ہے۔ مصر کی اصل تقسیم طبقات کی تقسیم اور کشمکش ہے۔ مصر محنت کشوں کی انقلابی فتح ہی مصر اور پورے خطے کے عوام کا واحد ذریعہ نجات ہوگا!