| تحریر: قمرالزماں خاں |
متحدہ قومی موومنٹ لندن نے عامر خاں، خواجہ اظہارالحسن، فیصل سبزواری اور کشورزہرا کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قبل ازیں لندن والی ایم کیو ایم کے کنوینرندیم نصرت نے پاکستان والی ایم کیوایم کے کنوینر فاروق ستار کی بنیادی رکنیت ختم کرتے ہوئے انکو ’غداری‘ کا مرتکب قراردیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان والی متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ایک اجلاس کے بعد بانی ایم کیوایم الطاف حسین کو پارٹی سے الگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستانی ایم کیو ایم نے الطاف بھائی پر22 اگست کو پاکستان مخالف تقریر کرنے والے وہی الزامات عائد کئے تھے جو 23 اور 24 اگست تک خود ایم کیوایم پاکستان کہلوانے والی قیادت پر بھی لگ رہے تھے اور ایک رات کی ’صفائی ستھرائی‘کے بعد ان الزامات کا رخ لندن قیادت تک ہی محدود کردیا گیا تھا۔ 12 اکتوبر کو لندن کے اجلاس سے پاکستان میں ایم کیو ایم کے حامیوں کو مخاطب کرتے کہا گیاہے کہ وہ تنظیمی نظم وضبط کی سختی سے پابندی کریں اور ان (پاکستانی ایم کیو ایم کی قیادت) افراد سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں۔ اعلامیہ کے مطابق قائد وبانی ایم کیوایم نے اجلاس کے فیصلے کی مبینہ طور پر توثیق کی ہے۔
اس سال کے اوائل میں ایم کیو ایم کے سابق میئر کراچی مصطفی کمال کی سربراہی میں ایک اور بھی ایم کیو ایم بنائی گئی تھی جس کا بعد ازاں نام ’پاک سرزمین پارٹی‘ رکھا گیا تھا۔ اگرچہ اس وقت لندن اور پاکستانی ایم کیوایم واقعی ’متحدہ‘ تھیں لہٰذا ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے چھوٹی موٹی نقب زنی کی گئی اور بندے توڑے گئے۔ اس وقت کی ’متحدہ‘ کو بھارتی ایجنٹ قراردیا گیا اور دہشت گردی، بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائم و دیگر جرائم کے وہ چارجز لگائے گئے جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، بعض ریاستی اہلکاروں اور سیاسی مخالفین کی طرف سے دہائیوں سے لگائے جارہے تھے۔ الزامات کے مطابق ان مبینہ جرائم کا ارتکاب ان سالوں میں کیا جاتا رہا ہے جن سالوں میں ’پی ایس پی‘ کے سارے سرکردہ رہنما ؤں نے نادیدہ قوتوں کی گنگا سے ہاتھ نہیں دھوئے تھے، اسی طرح ’صاف ستھری ‘پاکستانی متحدہ اور توپوں کے رخ پر لندن والی’ متحدہ‘ بقول شخصے ایک ہی پیج پر تھیں، ایک ہی قیادت کے ماتحت تھیں اور ایک ہی تنظیمی ڈسپلن کو مانتی اور احکامات پر عمل کرتی تھیں۔
تمام تر میڈیائی کمک اور ’سرپرستوں‘ کی شفقت خاص کے باوجود ’پی ایس پی‘ دوکروڑ کی آبادی میں کوئی بڑی ہلچل نہ پیدا کرسکی۔ عام لوگ مروجہ سیاست سے بیزار اور نام نہاد سیاسی سرگرمیوں سے لاتعلقی کی حالت میں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں کے شکارکراچی کی ناگفتہ بہ حالت اور مسائل کے انبارکو کچھ کم کرنے کی بجائے’حکمت عملی‘ تیار کرنے والی طاقتوں کی ساری توجہ توڑ پھوڑ اور سازشوں کے تانے بانے تیار کرنے پر ہے، مقصد بوتل سے نکلنے والے جن کی تباہ کاریوں پر قابو پانا اور اپنے کنٹرول کو دوبارہ سے مکمل طور پر بحال کرنا ہے۔ یہ سلسلہ ایم کیو ایم حقیقی کا دھڑا تیار کرنے کے عمل سے جاری ہے۔ تب اسلحے کی فراہم اور تربیت کے بعد ایک باقاعدہ جنگ کا سا سماں پیداکیا گیا تھا۔ بیت الحمزا، نائن زیرو طرز کا مضبوط مرکز تھا۔ ایسا ہی جدید اسلحہ جو ان دنوں الطاف حسین کی رہائش گاہ کے قریب ایک بند گھر کے واٹر ٹنک سے برآمد کیا گیاان دنوں حقیقی اور متحدہ کی جنگ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ پچھلے سالوں میں اسلحے سے بھرے ہزاروں’’ناٹوکنٹینرز‘‘ کی لوٹ ماربھی تو آخر کسی آشیر باد اور ’کور‘ کے بغیر ممکن نہیں تھی، لاکھوں جدید ترین ہتھیاروں میں سے چند سو کی برآمدگی نہ جانے کن مقاصد کے تحت عمل میں لائی گئی ہے!
کراچی میں جاری کشمکش میں بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی مداخلت کوئی مخفی عامل نہیں ہے۔ ملک بھر کے تضادات اور پھر پاکستانی ریاست کی خارجہ پالیسی کے ردعمل کی بڑی ’تجربہ گاہ‘ کراچی بنتی جارہی ہے۔ برادراسلامی مملکتوں کے جھگڑوں کے لئے بھی میدان جنگ کراچی ہی رہا ہے اور اسی طرح مسلکی اور فرقہ ورانہ جنگ وجدل کا خون بھی زیادہ یہیں بہا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین اور خیبر پختوان خواہ سمیت دوسرے صوبوں کے لوگوں نے اپنے روزگار اور بقا کی جدوجہد میں بھی ہر طرح کا حربہ اختیار کیا ہے۔ دیگر کئی قومیتوں کی طرح بلوچوں کی بہت بڑی تعداد کراچی میں رہتی ہے، بلوچستان میں فوجی آپریشن کئی سالوں سے جاری ہے اور کراچی بلوچستان سے ملحق ہے۔ ایک ہی شہر میں اتنی بڑی آبادی اور اس میں مسلسل اضافے کے تناسب سے نہ تو انفراسٹرکچر تعمیر ہوسکا اور نہ ہی درکار سہولیات کے لئے منصوبہ بندی کی جاسکی۔
متحدہ قومی موومنٹ پارلیمانی سیاست کے آغاز سے ہی شریک اقتدار ہوتی چلی آئی ہے۔ متحدہ نے جن محرومیوں کو ’مہاجروں‘ کے ساتھ منسوب کرکے قوم پرستی یا نسل پرستی کی انتہاپسندانہ تحریک کا آغاز کیا تھا، اقتدار میں رہ کر ان میں سے ایک مسئلہ بھی حل نہ کرسکی۔ تیس سالوں میں ہر طرح کی جمہوری، غیر جمہوری حکومتوں اور پارٹیوں کی حلیف بن کر اقتدار کی گنگا میں ہاتھ دھونے سے صرف پارٹی کی بالائی سطح پر موجود متوسط طبقے کے ’ذمہ داران‘ کو کروڑ اور ارب پتی بنا یا جاسکامگر عام آدمی پہلے سے بھی زیادہ مسائل کے گرداب میں پھنستاگیا۔ متحدہ نے بھی ہمیشہ وہ وزارتیں لیں جس سے مال بنایا جاسکے اور خوب بنایا گیا۔ ماردھاڑ، تشدد، بوری بند لاشوں اور ڈرل مشینوں سے مخالفین کے جسموں میں سوراخ جیسی اذیتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ وسائل کے لئے جرائم، بھتہ خوری، قبضہ گیریت، ڈکیتی اور راہزنی تک کا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ ان سب عوامل کا نشانہ بننے والے کوئی اور نہیں بلکہ کراچی کے عوام تھے جن میں غالب اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی۔ کچھ نہ بدلا بلکہ بدتر ہوتا گیا تو متحدہ کو ووٹ لینے کے لئے بھی تشدد اور زور زبردستی کا سہارا لینا پڑا۔ سالہا سال بلکہ دھائیوں کے حبس زدہ ماحول سے لوگ اکتا ہٹ کا شکار ہوگئے۔ اب مہاجر کارڈ فرسودگی کا شکار ہوچکا ہے۔
کراچی کے لوگوں کے ساتھ نظریاتی، سیاسی، لسانی، قومی، نفسیاتی کھلواڑ کئے گئے حتیٰ کہ ان کو جسمانی اور معاشی اذیتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف متحدہ کے نیم مردہ جسم میں زندگی پھونکنے کی ضرورت تھی تو دوسری طرف جرائم اور مافیا طرز کی سیاست نے بہت سے تضادکھول کر رکھ دیے۔ ریاست کے مقتدر حلقے بھی ماضی کی وحدت کے حامل نہیں رہے تھے۔ کراچی اگر سونے کی چڑیا ہے تو اس چڑیا کو قابو کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے، اس چومکھی لڑائی میں ہر کسی کو مختلف قسم کی طاقتوں کی ضرورت درکار ہے۔ ابھی تو تین یا چار ایم کیو ایم بنی ہیں آنے والے وقت میں انکی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور ضرورت کے تحت کچھ گروپوں کا ادغام بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ اداروں کی زبردست یلغاراور لندن والوں کو دیوار سے لگادینے کی زبردست کوششوں کے باوجود، دو ہفتے قبل جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے ’انکل الطاف حسین‘ کو غداری کے الزام سے نجات دلائی تو اس کے ساتھ انکو کراچی کی حقیقت بھی قراردیا تھا۔ بلاول نے یہ بیان لازمی طور پر الطاف حسین کی ممکنہ’ نشاط ثانیہ‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا تھا۔ بلاول کے ایک اور انکل ’رحمان ملک‘ برطانوی خفیہ اداروں سے مبینہ قربت کے باعث پاکستانی ریاست سے قبل ہی سکاٹ لینڈ یارڈکے ارادوں کو جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جنہوں نے 13 اکتوبرکو ابتدائی طور پر الطاف بھائی کو منی لانڈرنگ کیس سے بری کردیا ہے۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ بلاول کے ایک انکل نے دوسرے انکل کی گلوخلاصی کی خبردیکراگلی سیاسی چال کے لئے راہ ہموار کرائی ہو۔
اس وقت ایم کیو ایم کے چاروں گروپوں کے پاس کراچی کی نجات کا کوئی پروگرام نہیں ہے، وہ ماضی کے جن تعصبات، نفرت اور شاونزم کا سہارا لینا چاہتے ہیں انکی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ ایم کیو ایم کے تمام گروپوں کی قیادت پر ایک جیسے ہی الزامات ہیں، یہاں کوئی بھی صاف دامن کے ساتھ نہیں ہے۔ بے وقعت دعووں اور بے وزن لفظوں کی تکرار کے سہارے اور کتنا عرصہ سیاست کی جاسکتی ہے۔ پہلے صرف الطاف حسین کی تقریر کو مزاحیہ پروگرام کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اب مصطفی کمال اور فاروق ستارکے پتلی تماشے بھی محض تفنن طبع کا باعث بن رہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کا بحران اوراس بحران کو نئی نئی شکلیں دینے والوں کا اپنا بحران، سرمایہ داری کے بحرانوں کی طرح نت نئی شکلیں اختیار کرتا جارہا ہے مگر کسی حل کی طرف پہنچنے کو قاصر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ماتحت جماعتوں کی زوال پذیری ایک عالمگیر مسئلہ بن چکی ہے۔ مگر ایم کیو ایم کا تو وجود ہی کراچی کے محنت کش طبقے کے راستے کو کھوٹا کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کراچی کے محنت کشوں سے تین دھائیوں کا قیمتی وقت چھین چکی ہے، ہزاروں لوگوں سے جینے کا حق چھین لیاگیا۔ ایک طرف دو فیصد اور اٹھانوے فیصد کے نعرے لگائے گئے تودوسری طرف ساری دولت دوفیصد مراعت یافتہ طبقے کی طرف دھکیلنے والے سرمایہ داری نظام کو بطور نظام بھی تسلیم کرکے اور اس کا حصہ بن کر طبقاتی استحصال اور لوٹ کھسوٹ کی وحشت کو کراچی کا مقدر بنادیا گیا۔ کراچی کی آبادی کا اکثریتی حصہ ایم کیو ایم کے کھلواڑ اور دھوکہ دہی کی وجہ سے صدمے اور سکتے کے عالم میں ہے۔ حکمران طبقے نے بہت چالاکی سے کراچی پر حکمرانی کرنے والے ظالموں کے پہلے گروہوں کی جگہ پردیگر ظالم گروہوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ سردست عوام نے ان تمام کاوشوں کا استقبال سردمہری اور لاتعلقی کے ساتھ کیا ہے۔ اس ردعمل کی وجہ سے حکمران طبقہ بوکھلاہٹ میں اور زیادہ ناکام تجربے کرنے کی کوشش کرے گا، مگر کراچی کا محنت کش جب جاگ گیا تو پھر تما م سازشیں اور عیاریاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کے پیٹروگراڈ کا مزدورہمیشہ ہی اس سارے عمل سے لاتعلق رہے گا۔ وہ اپنے انقلابی کردار کو پھر دہرائے گا اور کراچی کے ساتھ پورے پاکستان کا مقدر بدلنے کے لئے ہراول دستہ بنے گا۔