[تحریر: لال خان]
قتل کے ایک حالیہ مقدمے میں مقتول کے لواحقین کے ساتھ طے پانے والی ایک ڈیل کے نتیجے میں جاگیردارانہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سزائے موت کے مجرموں کی رہائی نے پاکستان کے عدالتی نظام اور قوانین کی حیثیت پر بحث کو پھر سے گرما دیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے چھیاسٹھ برس بعد بھی انگریزوں کے دیے ہوئے قانونی ضابطوں کے ساتھ ساتھ شرعی عدالتیں، قبائلی جرگے اور دیہی پنچائتیں سماج کی مختلف سطحوں پر کام کر رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی سرکاری طور پرکوئی قانونی نظام موجود نہیں لیکن آبادی کی وسیع اکثریت ’سرکاری انصاف‘ کے حصول کے لیے درکار مالی وسائل سے محروم ہے۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ یہاں انصاف انتہائی پیچیدہ، سست رفتار اور مہنگا ہے اور صحت، تعلیم، علاج سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی طرح صرف امیروں اور طاقتورں کی مکمل دسترس میں ہے۔ ان حالات میں ایتھنز کے معروف شاعر، قانون ساز اور سیاست دان سولون کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ’’قانون مکڑی کے جالے کی طرح ہے، جس میں چھوٹی چیزیں پھنس جاتی ہیں اور بڑی اسے پھاڑ کر نکل جاتی ہیں۔‘‘ تمام طبقاتی سماجوں کے لیے یہ بات درست ہے لیکن سرمایہ داری کے بحران کے اس عہد میں پاکستان جیسے ملک میں انصاف کا حصول ایک نفسیاتی اور مالی عذاب بن چکا ہے۔ وکیلوں کی فیسوں اور عدالتو ں کے اخرجات کی وجہ سے نچلی عدالتوں سے انصاف لینا بھی غریب طبقات کے لیے قریباً نا ممکن ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر ملک کے پانچ فیصد سے زیادہ لوگ ’’اعلیٰ سطح‘‘ کا یہ انصاف خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
نشاۃ الثانیہ کے بعد یورپ میں ابھرنے والے بورژوا انقلابات نے ابھرتی ہوئی سرمایہ دانہ معیشتوں سے مطابقت رکھنے والی جدید قومی ریاستیں تشکیل دی تھیں۔ عدلیہ ان نئی ریاستوں کا اہم ستون تھی۔ حکمران طبقات اور ان کے سنجیدہ ماہرین نے یقینی بنایا کہ عدلیہ کو سماج کی تمام تر برائیوں اور خرابیوں سے دور ایک ’’مقدس ادارے‘‘کے طور پر پیش کیا جائے۔ عدلیہ کے احترام اور خوف کو قائم رکھنے کے لیے کئی کہانیاں گھڑکر سماج میں پھیلائی گئیں۔ یورپ کے حکمران طبقات اس ریاستی ادارے کو سیاست سے دور رکھتے ہوئے اس کے ’’بے جا استعمال‘‘ سے گریز کرتے تھے تا کہ غیر معمولی انقلابی ادوار میں اسے محکوم طبقات کی بغاوتوں کو روکنے کے لئے یا پھر حکمرانوں اور عوام کے درمیان ثالث کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔
برطانوی نو آباد کاروں نے برِ صغیر میں ماضی کے عدالتی طریقوں کو سماج پر سے کھرچ کر یہی مغربی عدالتی نظام مسلط کیا اور 1947ء کی ’’آزادی‘‘ کے بعد سے ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان اور دیگر سابقہ برطانوی نو آبادی ممالک میں یہ نظام اب تک چل رہا ہے۔ برطانوی راج کے دوران کئی مقدمات میں عدلیہ کو سامراجی حکمرانی مسلط کرنے کے ریاستی اوزار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان مقدمات میں سے اہم ترین بھگت سنگھ اور ہندوستان سوشلسٹ ریپبلیکن ایسوسی ایشن کے دوسرے انقلابیوں کے خلاف چلنے والا مقدمہ تھا۔ ان انقلابی جانبازوں نے عدالتی نظام کو چیلینج کرنے کا منصوبہ بنایا اور مقدمے کی کاروائی کو انقلابی پراپیگنڈا کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ عدالت میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے بیانات اور تقاریر وائسرائے لاڑد اِروِن کے لئے اتنی پریشان کن تھیں کہ اس نے ملزمان کے قانونی حقوق کو سلب کرکے عدالتی کاروائی کو تیز کرنے کے لیے ایک خصوصی آرڈیننس جاری کیا۔ آخر کار برطانوی راج اور اس کے ’’مقدس نظام‘‘ کو چیلنج کرنے کے ’’جرم‘‘ میں 23 مارچ 1931ء کی صبح راج گرو، سکھ دیو اور بھگت سنگھ کو پھانسی دے دی گئی۔ تاہم اس مقدمے نے عدلیہ کے کردار اور سامراجی ریاستوں کے ’مقدس قوانین‘ کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا۔ سرمایہ دارانہ ریاست کا حتمی مقصد سرمائے کی حکمرانی قائم رکھتے ہوئے حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ ریاست کے تمام تر اداروں کی تشکیل اسی مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ جب بھی حکمرانوں کے نظام کو استحصال زدہ عوام کی طرف سے خطرہ درپیش ہو تو یہ ریاستی ادارے ’’غیر جانبداری‘‘ اور تقدس کے تمام تر لبادے اتار کر بدترین جبر کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حالات میں عدلیہ عام طور پر حکمران طبقے کا آخری سہارا ہوا کرتی ہے۔
پاکستان میں عدلیہ کے استعمال کا سب سے متنازعہ واقعہ اپریل 1979ء میں چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہے۔ یہ مقدمہ ریاستی اداروں کے جبرکی طرفداری کو ظاہر کرتا ہے۔ مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ فل بینچ کے سات میں سے دو ججوں پر جابر حکمران ضیا الحق کے احکامات کی تعمیل کرنے پر شکوک و شبہات تھے چنانچہ انہیں ’’ریٹائر‘‘ کر دیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلے کے حق میں تین اور مخالفت میں دو جج تھے۔ اس کیس کو دوبارہ کھولنے کی باتیں کئی بار کی جاچکی ہیں لیکن قانونی پیچیدگیوں اورسیاسی رکاوٹوں کی وجہ سے ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
جب کوئی ریاست اور نظام عوام کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو جائیں تو بڑھتی ہوئی عدم مساوات، استحصال، سماجی بے چینی، بدامنی اور کرپشن کے پیش نظر سیاست اور ریاستی معاملات میں عدالتوں کی مداخلت (جوڈیشل ایکٹو ازم) کا مظہر سامنے آتا ہے۔ تاہم اعلیٰ عدالتیں بڑی احتیاط سے ’’از خود نوٹس‘‘ لیتی ہیں اور اس معاملے میں انتہائی اہم اور بنیادی مسائل کو نظر انداز کر کے اور غیر اہم معاملوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 3میں واضح طور پر درج ہے کہ ’’ریاست استحصال کی تمام اقسام کے خاتمے اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔ ‘‘اس آرٹیکل کے بارے میں کتنی بار ’’سو موٹو ایکشن‘‘ لیا گیا ہے؟ کیا پاکستان سے استحصال کا خاتمہ ہوچکا ہے؟
لیکن عدالتوں کی ضرورت سے زیادہ سرگرمی نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کی غمازی کرتی ہے جو ریاستی اداروں کے اندر سرایت کر کے انہیں کر کے انہیں کھوکھلا کرنا شروع کر دیتا ہے اور ان کے باہمی ٹکراؤ کا سبب بنتا ہے۔ آج پاکستانی ریاست اسی صورتحال سے دوچار ہے۔
پچھلے پانچ چھ سالوں کے دوران لئے گئے ازخود نوٹسوں سے کیا تبدیل ہوا ہے؟ کرپشن اور بدعنوانی بڑھتی جارہی ہے۔ سرکاری معیشت کے مقابلے میں کالے دھن کی معیشت تین گنا ہوچکی ہے۔ یہ غیر سرکاری یا کالی معیشت بذاتِ خود ملک میں جاری جرائم اور کرپشن کی شدت کا اظہار ہے۔ اس کالے دھن کا ریاست اور سماج میں مخصوص کردار ہے اور اس کی سرمایہ کاری بنیادی طور پر غیر پیداواری شعبوں میں ہوتی ہے جہاں مختصر وقت میں کئی گنامنافع حاصل کیا جاتا ہے۔ معیشت کی موجودہ صورتحال، پاکستانی سرمایہ داری کی سماج کو ترقی دینے اور عوام کی حالت کو بہتر بنانے میں ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ غربت، محرومی، بیماری، بیروزگاری، دہشت گردی، تشدد، بھتہ خوری اور ذلت۔ ۔ ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے پاس دینے کو صرف یہی کچھ ہے۔ یقینی طور پر اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے حالات میں بہتری نہیں آئے گی، سرمایہ دارانہ نظام کے سنجیدہ ماہرین کا بھی یہی تناظر ہے۔ جو نظام ملک کی اسی فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے سے قاصر ہو وہاں انصاف کی فراہمی اور ’’قانون کی بالادستی‘‘ کی باتیں محض فریب ہیں!
متعلقہ: بکاؤ انصاف