[تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: انعم]
24 اکتوبر 2013ء کوسپین کے 70 سے زائد شہروں اور قصبوں میں لاکھوں طلبہ، اساتذہ اور والدین تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی کٹوتیوں اور عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے خلاف شعبہ تعلیم میں ا یک روزہ ہڑتال کا حصہ بننے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹیچرز یونین، تعلیمی کٹوتیوں کے خلاف منظم کی گئی تحریک (Marea Verde)، طلبہ تنظیموں اور والدین کی ایسوسی ایشنز نے مل کر ہڑتال کی کال دی تھی۔ تحریک کا مقصد دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے ریاست کی طرف سے فراہم کردہ تعلیمی سہولیات پر مستقل حملہ کرنے کے اور قابلِ نفرت ایجوکیشن منسٹرورٹ کے تخلیق کردہ نام نہاد ’’تعلیم کے معیار کو بڑھانے کا قانون‘‘ (LOMCE) کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
LOMCE کو حکومت نے اس سال مئی میں طلبہ، اساتذہ اور والدین کے بڑے احتجاجی مظاہروں کے باوجود بھی پاس کر دیا تھا جس پر آجکل پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی ہے۔ کانگریس سے پاس ہونے کے بعد اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ سینیٹ بھی اسے پاس کردے گی کیونکہ دونوں ایوانوں میں ایک ہی حکمران جماعت پاپولر پارٹی کی اکثریت موجود ہے۔
مختلف وجوہات کی وجہ سے اس قانون کی مخالفت کی جارہی ہے۔ کئی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ قانون کا مقصد ایک ایسا تعلیمی نظام بنانا ہے جس کے ذریعے:
*تعلیم کو کاروبار بنا دیا جائے گا۔
*نظامِ تعلیم میں نجکاری کرنے کے چور دروازے کھولے جائیں گے۔
*طبقاتی خطوط پر تفریق کرتے ہوئے محنت کش خاندانوں کے طلبہ کو غیر معیاری تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کرتے ہوئے انہیں یونیورسٹیوں سے الگ کردیا جائے گا۔
* والدین، طلبہ اور اساتذہ کی کونسلز سے اختیارات لے کرفردِ واحد یعنی سکول پرنسپل کے ہاتھوں میں دے دئیے جائیں جسے اساتذہ کو رکھنے اور نکالنے کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔
*غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے خلاف تعصب برتتے ہوئے سٹوڈنٹس گرانٹس کی مقدار اور پیسے میں کمی کی جائے گی۔
*جنسی بنیادوں پر تفریق پیدا ہوگی کیونکہ اس قانون کے ذریعے ریاستی فنڈز پرائیویٹ اسکولوں کو دینے کی اجازت ہوگی جو کہ جنسی بنیادوں پر الگ الگ ہیں۔
*دیگر زبانوں کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے ہسپانوی شاونزم کو مزید بڑھاوا دیا جائے گا۔
مزید برآں یہ قانون گزشتہ سالوں میں تعلیمی بجٹ میں کی گئی 6.4 بلین یورو کی بے رحمانہ کٹوتیوں، ستر ہزار سے زائد اساتذہ کی برطرفیوں جیسے اقدامات کو بھی جواز فراہم کرتا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کی تنظیموں نے اسے فرانکو آمریت کے قوانین سے تشبیہ دی ہے۔
24 اکتوبر کی ہڑتال نے پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تمام تعلیمی نظام کو متاثر کیا۔ یہ ہڑتال دراصل 22 اور 23 اکتوبر کو ہونے والی ہڑتال کا تسلسل تھی جس کی کال سٹوڈنٹس کی یونین SE نے دی تھی اور جس میں لاکھوں طلبہ نے اہم شہروں میں بڑے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔
ہمیشہ کی طرح 24 اکتوبر کی ہڑتال کے اثرات اور شدت کا تعین کرنے کے لیے اعداد شمار کی جنگ جاری ہے۔ خاص کر ایجوکیشن منسٹری تو اس کے اثرات کو بالکل جھٹلا رہی ہے جبکہ اساتذہ اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے کہیں 50 فیصد، کہیں 80 اور کہیں 100 فیصد شرکت کی اطلاعات دی جا رہی ہیں۔ تاہم دوپہر اور شام کے وقت ہر جگہ کئے گئے عوامی مظاہرے نہ صرف تعلیمی کٹوتیوں بلکہ حکومت کی ہر طرح کی کٹوتیوں کی پالیسی کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار تھے۔
دن کے وقت بارسلونا میں ایک لاکھ ستر ہزار لوگ سڑکوں پر تھے۔ یہاں بڑے مظاہرے نہ صرف LOMCE کے خلاف تھے بلکہ واضح طور پر (PSC-ICV-ERC) کے اتحاد پر مشتمل بائیں بازو کی سابقہ کیٹلان حکومت کے متعارف کردہ ’’کیٹلان کے تعلیمی قانون‘‘کے کچھ پہلوؤں اور موجودہ CIU دائیں بازو کی قوم پرست کیٹلان حکومت کی متعارف کردہ تعلیمی کٹوتیوں کے خلاف بھی تھے۔ گروناشہرمیںآٹھ ہزار، ٹراگونا میں پانچ ہزار اور لیڈا میں ایک ہزار مزید لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔
تمام صوبائی دارالحکومتوں میں بہت بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ سیویلا اور ملاگا میں بیس بیس ہزار لوگوں نے مارچ کیا، جیریز‘ گرینڈا‘کاڈیز‘ جان‘ المیریا اور دیگر شہروں میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے۔ ویلنشیامیں لاکھوں، الاکانٹ اورکاٹیلو میں تیس تیس ہزار افراد نے احتجاج کیا۔ اوویڈو میں چالیس ہزار اورسینٹانڈر میں اپنی نوکریوں کے دفاع میں SNIACE کیمیکل پلانٹ کے مزدوروں سمیت پندرہ ہزار لوگوں نے احتجاج میں حصہ لیا۔
شام کے وقت اراگان کے دارالحکومت زراگوزا میں ہونے والے مظاہرے میں پچاس ہزار لوگ شریک تھے جہاں صبح کے وقت لاکھوں طلبہ نے احتجاج کیا۔ طلبہ پر پولیس نے بے رحمانہ تشدد کیا اور اس کا اختتام کیمونسٹ یوتھ کے دو ممبران کی گرفتاری پر ہوا۔ اس کے علاوہ علاقے کے دیگر شہروں اور قصبوں میں ہزاروں لوگ احتجاج کا حصہ بنے۔
بارش کے باوجود بھی گلیشیا کے احتجاجی مظاہرے بڑے تھے، جس کے ساتھ ویگوے کورونا اور سینٹیاگو اوروغیرہ میں لاکھوں افراد نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ خاص کر فیرول میں آٹھ ہزار لوگوں نے شدید بارش کے باوجود بڑا مظاہرہ کیا اور بازان شپ یارڈ کے مزدور بھی اپنے اوزارچھوڑ کراحتجاج میں شامل ہو گئے۔
تمام تر مظاہروں کی لسٹ فراہم کرنا تو نا ممکن ہے لیکن باسک کے علاقے میں ہزاروں اساتذہ اور طلبہ نے مارچ کیا۔ یہاں قوم پرست طلباء اور اساتذہ تنظیمیں LOMCE اور تعلیمی کٹوتیوں کے خلاف ہونے والے احتجاج کا حصہ نہیں بنیں۔
سب سے بڑا احتجاج میڈرڈ میں ہوا جہاں بارش کے باوجود بھی تین لاکھ طلبہ، اساتذہ اور والدین نے متحد ہو کر تعلیمی کٹوتیوں کے خلاف سڑکوں پر مارچ کیا۔
یہ تمام مظاہرے عوامی غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ مظاہروں میں کیمونسٹ جھنڈوں کی موجودگی دیدنی تھی۔ واضح طور پریہ تحریک صرف کٹوتیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ عموماً دائیں بازو کی حکومت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک احتجاج تھی۔ ایجوکیشن منسٹر ورٹ کے استعفیٰ کا مطالبہ تحریک کا بنیادی مطالبہ تھا۔ کئی شہروں میں منظم فاشسٹ گروہوں نے ’’طلبہ مزاحمت‘‘ کے بینرز کی آڑ میں کٹوتیوں کے خلاف مظاہروں میں شریک ہونے کی کوشش کی لیکن عوام کے جمِ غفیر نے فوراََ ہی ان کی شناخت کر کے باہر نکال دیا۔
تحریک کے سامنے اب یہ واضح سوال ہے کہ’ ’آگے کیا کرنا ہے؟‘‘ اس سے پہلے ستمبر میں بیلیرک جزیرے کی علاقائی حکو مت نے ایسی ہی تعلیمی کٹوتیوں اورعوام دشمن پالیسیاں اپنانے کی کوشش کی جس کے خلاف طلبہ اور اساتذہ تنظیموں نے مکمل ہڑتال کی تھی۔ ہڑتال تین ہفتوں تک جاری رہی جسے عوام میں بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی، جس کے عروج کا اظہار پالما میں ایک لاکھ مظاہرین نے احتجاج میں حصہ لے کر کیا۔ ہڑتال نے طبقاتی جدوجہد کے ان روایتی طریقوں کودوبارہ زندہ کر دیا، مثلاًسکولوں میں عوامی اسمبلیاں قائم تھیں اور تمام فیصلے ہڑتالی کمیٹی کررہی تھیں جو کہ تمام کام کرنے والی جگہوں کی اسمبلیوں سے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل تھیں۔ ہڑتال کے لئے فنڈ قائم کیا گیا تھا جو کہ آدھے ملین یورو تک پہنچ گیا تھا۔
پالما کے بڑے احتجاج کے بعد بد قسمتی سے تحریک کو علم ہی نہیں تھا کہ اب آگے کونسا قدم اٹھانا ہے؟ اس کے بعد پورے علاقے میں ایک بھرپور عام ہڑتال کی ضرورت تھی جس میں تمام شعبوں کے مزدور حصہ لیتے۔ بیلیرک اساتذہ کا ساتھ دینے کے لیے پورے سپین میں کم از کم ایک دن کی تعلیمی ہڑتال کی جانی چاہیے تھی لیکن یہ نہیں ہوا۔ تین ہفتے بعد ہڑتال ختم کر دی گئی لیکن اب بھی وہاں کے اساتذہ اور طلبہ متحرک ہیں۔
اس سب کے بعد سے اب تک ایک لامحدود عرصے تک کی جانے والی ہڑتال کی تجویزکو ہر جگہ بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ یقیناًیہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے آسانی سے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سچ ہے کہ بہت سارے طلبہ اور اساتذہ میں اور عام طور پر مزدوروں میں بھی اس حقیقت کا ادراک ہو رہا ہے کہ ’’محض ایک دن کی ہڑتال سے اب کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا اوراب تک جو ہڑتالیں کی جا چکی ہیں ان سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ‘‘ٹریڈ یونین قیادت اس چوبیس گھنٹے ہڑتال کرنے کے طریقے کو مزدورں کو ٹھنڈا کرنا کے لیے استعمال کر تی رہی ہے اوراسے ایک منظم طبقاتی جدوجہد کے اوزار کی طور پر استعمال کرنے کی بجائے علیحدہ علیحدہ ہڑتال کی کالیں دی جاتی رہی ہیں۔ ملک میں کئی جگہوں پر مزدور اپنے طور پر مکمل اور منظم ہڑتال کرنے کے فیصلے پر مجبور ہوئے ہیں جو تیز ہوتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کا اظہارہے۔ مثلاََخوراک پیدا کرنے والے پیزیکو ادارے میں ایک پلانٹ کے مزدوروں نے یونین کی رائے کے بر خلاف، پلانٹ انتظامیہ کے1900 مزدوروں کی برطرفی( جو کہ کل ورک فورس کا 40 فیصد ہے) اورباقی رہ جانے والے مزدوروں کی تنخواہوں میں 30 فیصدکٹوتیاں کرنے کے منصوبوں کے خلاف لا محدود مدت کی ہڑتال کی۔
بیلیرک جزیرے کی اساتذہ اسمبلی نے تمام ملک سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی کم و بیش انہی خطوط پر عمل کرتے ہوئے تحریک کو جمہوری انداز میں منظم کرتے ہوئے ہڑتالی اسمبلیاں تشکیل دیں۔ ماریا اور ورڈے کے علاقوں میں ’’سبزلہر‘‘تحریک کا ابھا ر اساتذہ یونینز کے بیوروکریٹک انداز میں کام کرنے کے طرز عمل کے خلاف ردعمل کا اظہار ہے۔ ماریا کے علاقے میں اس تحریک میں شامل زیادہ تر لوگ اساتذہ یونینز کے ممبران اور کارکنان ہیں جو کہ یونینز کے ڈھانچوں میں رہتے ہوئے انہیں اپنے طریقے سے جدوجہد کے لیے استعمال کر پانے کو ناممکن سمجھتے ہیں۔
وقتی اقدامات سے حکومت ذرابھی رعایتیں نہیں دے گی۔ آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی اور تحریک کو ایک واضح اور ٹھوس شکل دینا ہوگی کہ لڑائی جیتی جا سکتی ہے اور یہ کرنے کے لیے ایک انقلابی حکمت عملی بھی ضروری ہے۔ طبقاتی جدوجہد میں کچھ وقفے کے بعد تعلیمی شعبے کی ہڑتال ایک گرماگرم خزاں کے آغاز کا موجب بن سکتی ہے۔
متعلقہ:
سپین انقلاب کی دہلیز پر
سپین: ہڑتالی کان کنوں کا میڈرڈ میں شاندار استقبال
پہلی یورپ گیر عام ہڑتال