[تحریر :لال خان]
طوفانی واقعات جنہوں نے یونان کی سیاست کو اتھل پتھل کردیاہےاب ان کے اثرات جزیرہ نما آئبیریا کوبھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر چکے ہیں،خاص طور پر سپین کو۔جو اب خود کو یورپی یونین کے بحران کی طوفانی موجوں میں گھرا ہوا پارہاہے اور ہاتھ پاؤں مار رہاہے۔اس طوفان میں یونان،آئر لینڈاور پرتگال بری طرح پھنس چکے ہوئے ہیں،یہ ممالک یورپی یونین کے مضافاتی یعنی چھوٹے ملک ہیں لیکن سپین ان تینوں کے مجموعی حجم سے بھی بڑا ملک ہے۔ایک طرف کٹوتیوں کی سفاکانہ پالیسیوں کے خلاف عوام کی شدید مزاحمت اور دوسری طرف معیار زندگی پر حکمرانوں کے بڑھتے ہوئے حملے، یہ دونوں مل کر دھماکہ خیز صورتحال کو جنم دے رہے ہیں۔سپین ایک انتہائی گہرے معاشی بحران میں دھنس چکا ہے اور وہاں براجمان دائیں بازو کی حکومت عضو معطل بن کے رہ گئی ہے۔تکنیکی اعتبار سے سپین دوہرے بحران کی زد میں آچکاہے لیکن در حقیقت یہ2008ء کے مالیاتی انہدام کے بعد سے اب تک ذرا بھی سنبھل نہیں سکا۔یہاں بیروزگاری پچھلے چار سالوں کے دوران ایک ملین سے بڑھ کر5.8ملین تک جا چکی ہے۔جبکہ اٹھارہ سے چوبیس سالوں تک کے نوجوانوں کے مابین یہ شرح52ٰٖفیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔1.7ملین خاندان ایسے ہیں کہ جن کا ایک بھی فرد روزگار پر نہیں۔لاکھوں خاندان ایسے بھی ہیں کہ جن کے پہلے اپنے گھر ہواکرتے تھے لیکن اب ان گھروں کو بینکوں نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔اگرچہ وہاں پچھلے اٹھارہ مہینوں سے انڈیگناڈوس(Indignados)کی تحریک بھی جاری وساری ہے جو کہ سپین کی سیاسی اشرافیہ کے خلاف سرگرم ہے۔اب یہ تحریک ٹریڈ یونینوں تک سرایت کر چکی ہے۔اس کے ساتھ ہی نوجوانوں اور ورکروں کی مزیدپرتیں بھی اس میں شریک اور متحرک ہورہی ہیں۔میڈرڈ،ویلنشیا،بارسلونا اور دوسرے شہروں قصبوں میں جو نعرہ اس وقت بلند کیا جارہاہے، وہ یہ ہے کہ ’’ہم بازاری سیاستدانوں کے ہاتھوں کی کوئی جنس نہیں ہیں!‘‘۔
جیسا کہ یونان میں ہوا، جہاں پاپاندریوکی پاسوک پارٹی کی حکومت آئی ایم ایف،یورپی یونین اور یورپی مرکزی بینک کی ہدایات پر کٹوتیوں کی پالیسیاں مسلط کرنے کی کوشش میں جڑ سے اکھڑگئی۔اس کے بعد نومبر2011ء میں اسپین میں زپاٹیرو کی PSOE حکومت الیکشن میں شکست کھا گئی۔یہ کسی طور دائیں بازوکی پاپولرپارٹی کے رجوئے کی کامیابی نہیں تھی بلکہ یہ PSOEحکومت کی جانب سے مسلط کی جانے والے سفاکانہ کٹوتیوں کی پالیسیوں کی شکست تھی،عوام نے الیکشن میں اپنا انتقام لیاتھا۔پاپولرپارٹی نے اس الیکشن میں، پہلے الیکشن کے مقابلے میں کچھ ہی ووٹ زیادہ لیے۔PSOEکے ووٹروں نے الیکشن کے عمل سے باہر رہ کر اپنا غصہ اتار ا۔اب ایک نیا منصوبہ نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے تحت سماجی اخراجات میں 30 ارب یوروکی کٹوتیاں کی جائیں گی تاکہ بجٹ خسارے کو8.5فیصد سے کم کرتے ہوئے تین فیصد تک لایا جائے۔لیکن یہ خسارہ2011ء میں حقیقی طورپر8.9فیصد تھا۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں سے مزیدگیارہ ارب یورو کی کٹوتیاں کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ہر جمعہ کے دن نوجوانوں اور محنت کشوں کے سروں پرکٹوتیوں کا کلہاڑاچلایاجارہا ہے۔ مختلف شعبوں اور اداروں میں سول اور سرکاری ملازمین کی اجرتوں اورپنشنوں میں وحشیانہ کمی کی جارہی ہے۔ سپین میں ٹیچرز،فائر فائٹرز،سائنسدانوں،ہیلتھ کیئر ورکروں،صدارتی محل کے سول سرونٹس،سمیت کئی دیگر سرکاری اداروں کے ہزاروں ملازمین نے ہڑتالیں اور مظاہرے منظم کیے ہیں۔کان کنی کے محنت کشوں کی سبسڈی میں 60ٖفیصد کٹوتی نے تو جیسے جلتی پر تیل ڈال دیا۔کان کنوں نے اس کے خلاف میڈرڈ کی جانب مارچ کیا جہاں لاکھوں لوگوں نے نہ صرف ان کا والہانہ استقبال کیا بلکہ ان کے احتجاج میں بھی بھرپور شرکت کی۔
سپین کا حالیہ بحران دراصل1994ء سے 2008ء تک کے چودہ سالوں تک بحران کو روکے رکھنے کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔اس دوران بینکوں سے تعمیرات اور دیگر شعبوں کیلئے بھاری بھرکم قرضے دیے گئے۔جس کے نتیجے میں بڑی سطح پر قرضوں کا ارتکاز ہوا، جہاں عوامی قرضوں کے ذریعے مصنوعی طور پر صارفین کی تعداد میں اضافے نے ایک مصنوعی عروج کو جنم دیا۔اس طرح کی پالیسیاں کششِ ثقل کے قوانین کے متضاد تھیں۔تعمیرات اور دیگر بلبلے اب پھٹ گئے ہیں۔ بنک اور تعمیراتی کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں۔قرضوں کی بنیاد پر حاصل کیا گیا عروج دہلا دینے والی تباہی کی صورت میں اختتام پذیرہوا ہے۔مالیاتی سرمائے نے حکمران طبقے اور اس کے جواریوں کو بے پناہ مالدار کر دیا ہے۔ اب جبکہ ان غلط پالیسیوں کے نتائج سامنے آئے ہیں تو حکمران طبقات اور ان کی ریاستوں کے مجتمع کیے گئے قرضوں کا بوجھ جبراََ محنت کشوں اور نوجوانوں کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ اب انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اجرتوں اور مراعات میں کٹوتیوں کو تسلیم کرتے ہوئے قرضے واپس کریں، وہ کٹوتیوں کی پالیسیاں جو کہ در حقیقت فلاحی ریاست کے تانے بانے کو برباد کر رہی ہیں۔ان کے معیار زندگی کو 1940ء اور 1950ء کے معیار زندگی سے بھی نیچے لانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ہسپانوی محنت کش طبقہ اپنی قابلِ تحسین انقلابی روایات کے پیشِ نظر حکمران طبقے سے ایسی جنگ کاآغاز کر سکتا ہے جو ان کی طبقاتی حکمرانی کا ہی خاتمہ کر سکتی ہے۔وولف گینگ نے فنانشل ٹائمز میں لکھے گئے اپنے مضمون ’’ سپین نے ناقابلِ حصول مقصد قبول کر لیا ہے‘‘ میں صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ سپین کی بجٹ کم کرنے کی کوشش نہ صرف غلط معاشی قدم ہے بلکہ عملاََ نا ممکن ہے،سو اس کے لیے کچھ اور دینا ہوگا۔یا تو سپین اپنا ہدف نہیں حاصل کر پائے گا،یا پھر ہسپانوی حکومت کو اپنے بہت سارے اساتذہ اور نرسز کو نوکری سے نکالناپڑے گا۔ جس کا نتیجہ لا محالہ سیاسی بغا وت کی صورت میں سامنے آئے گا‘‘۔
29 مارچ 2012ء کو یونینز کی طرف سے کال دی گئی ہڑتال کا شاندار ردِ عمل دیکھنے کو ملا۔حکومت سے مذاکرات اور سمجھوتے کرنے کے عمل میں شامل ہونے والے ٹریڈ یونین لیڈر اب ایک عام ہڑتال کی کال دینے سے خوفزدہ ہیں۔وہ سماج میں موجود کھولتے ہوئے لاوے سے آگاہ ہیں۔سماج کی تہہ میں دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جو کسی بھی عوامی تحریک کی شکل میں پھٹ سکتا ہے،جو سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادت کی اتھارٹی اور ساکھ کو ہلا کے رکھ دے گی۔سیاسی طور پر سپین بھی یونان کے راستے پر ہی رواں دواں ہے۔نتائج بھی ایک جیسے ہوں گے بس ذرا بڑے پیمانے پر۔راجوائے حکومت بحرانی حکومت ہے۔اس کی الیکشن والی بنیادیں بہت تیزی سے سکڑ رہی ہیں۔ PSOEکے لیڈر نیشنل یونیٹی کی طرف جھک رہے ہیں۔حقیقی امیدوار یونائیٹڈ لیفٹ اور IU اتحاد پر مبنی Izquierda Unida ہے جو کہ PSOE کے بائیں بازو کا کمیونسٹ پارٹی کے گرد کولیشن ہے، جس کے ووٹروں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ IU کی حمایت قومی رائے عامہ کے حساب سے نومبر 2011ء کے الیکشنز میں 6.9فیصد سے اب 11.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔آنے والے طوفانی عہد میں ان کی حمایت میں مزید اضافہ ہو گا۔سپین سمیت یورپ کے زیادہ تر ممالک نظام کے بحران سے نبرد آزما ہیں،جس کا حل صرف عوام کے حالاتِ زندگی کو یکسر بدل دینے سے ہی ممکن ہے۔یہ طبقاتی جنگ کی نئی لہر کی تیاری کا رستہ ہے جس نے عالمی انقلاب کا مرکز یورپ میں منتقل کر دیا ہے۔ محنت کش طبقے کے سامنے سماج کو بدلنے کے لیے سوشلسٹ انقلاب ایک بار پھر ایجنڈے پر ہے۔