[تحریر: لال خان]
آج کل برصغیر پاک و ہند میں مذہب کے ٹھیکیداروں اور قومی شاونسٹوں کی خوب چاندی ہورہی ہے۔ ہندوستان میں نریندرا مودی پاکستان دشمنی کو جواز بنا کر ہندو بنیاد پرستی اور بھارتی نیشنل ازم کی آگ اگل رہا ہے تو پاکستان میں عمران خان، حمید گل اور حافظ سعید جیسے حضرات، جواب میں ’’قومی غیرت‘‘ کے نام پر مذہبی جنون، تعصب اور نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں ہی منافرت پھیلانے والے ان قدامت پرست عناصر کا مقصد عوام کے ذہنوں پر رجعت مسلط کر کے اپنی سیاسی طاقت اور مال میں اضافہ کرنا ہے۔
پاکستان میں کم و بیش ہر سیاسی جماعت کھل کر فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ ’’اظہار یکجہتی‘‘ کی مہم چلا رہی ہے۔ ہر کوئی ریلیاں اور جلسے منعقد کر کے عسکری اسٹیبلشمنٹ پر اپنی وفاداری باور کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس دوڑ میں ’’کالعدم‘‘ تنظیمیں سب سے آگے ہیں۔ لیکن فوج اور ایجنسیوں کے دست شفقت میں پلنے والے آپس میں بھی برسرپیکار ہیں۔ عمران خان، طاہرالقادری اور جماعت اسلامی 11 مئی کو انتخابی دھاندلی کے خلاف مشترکہ تحریک چلانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ الیکشن میں ہارنے والے کئی دوسرے سیاسی جگادری بھی اس مشترکہ ناٹک میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کررہے ہیں۔ نواز لیگ تذبذب اور بوکھلاہٹ کے عالم میں بے ہنگم بیان بازی کررہی ہے۔ یہاں کے انتخابات کے لئے دھاندلی بہت چھوٹا لفظ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں ’’نتائج‘‘ کا تعین کونسی داخلی اور خارجی قوتیں کرتی ہیں۔ وزیر داخلہ کے اپنے بیان کے مطابق اگر ووٹوں کی گنتی اور جانچ پڑتال کا عمل دوبارہ شروع ہوا بیشتر حلقوں کے نتائج کالعدم قرار پائیں گے۔ تاہم 11 مئی کے نتائج کچھ زیادہ ہی حیران کن تھے جن پر جیتنے والوں کو بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ قوی امکان یہی ہے کہ فیصلہ کن قوتیں انجانے میں ایک طرف زیادہ ’’زور‘‘ لگا بیٹھی ہیں۔
عمران خان کو اقتدار میں آنے کی زیادہ جلدی نہیں ہے، پختونخواہ میں صوبائی حکومت حاصل کرنے کے بعد تو بالکل بھی نہیں ہے۔ ریاست کی معاشی صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو اقتدار سے باہر رہ کر سیاست کرنا کہیں زیادہ آسان اور منافع بخش ہے۔ جو اقتدار میں بیٹھے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس کتنا اختیار ہے۔ اس ملک کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بناتے ہیں۔ خارجی اور داخلی پالیسیوں کا تعین عسکری و سویلین بیوروکریسی اور خفیہ ادارے کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کے پاس صرف ٹھیکے اور لائسنس دے کر کمیشن لینے، اندورنی و بیرونی دورے کرنے اور کھوکھلے جاہ و جلال کی نمائش جیسے کام ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کی ذہنی قابلیت اور ثقافتی معیار بھی اتنا ہی ہے۔ سڑک کے جیب تراش کو جمہوری سرکس میں تماشا کرنے کے بدلے اتنی آسائش مل جائے تو اسے اور کیا چاہئے؟ اقتدار کو عوام کے ووٹوں سے مشروط کرنے والے سول سوسائٹی کے خود ساختہ دانشور یا تو حقیقتاً جاہل ہیں یا پھر اس ساری واردات کا حصہ۔ عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان پر مہنگائی، بے روزگاری، غربت، لوڈ شیڈنگ اور لاعلاجی جیسے عذاب محض ’’غلط ووٹ‘‘ دینے کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں لہٰذا پانچ سال تک سب کچھ چپ چاپ برداشت کیا جائے۔ اس مخصوص طبقہ فکر کا کام ظلم کے لئے مظلوموں کو قصوروار ثابت کرنا ہے!
جس سماج کی بنیاد اقلیت کے ہاتھوں اکثریت کے استحصال پر قائم ہو وہاں استحکام اور امن و آشتی کبھی قائم نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب استحصالی نظام اپنی کلاسیکی شکل میں بھی چلنے سے قاصر ہوجائے تو معاشی اور سماجی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس بحران کی شدت ریاست اور سیاست میں بھی انتشار پیدا کرتی ہے۔ عوام جب روز روز کی اذیت سے تنگ آجائیں تو نیچے سے ابھرنے والی انقلابی تحریک کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں حقیقی تحریک کو قبل از وقت زائل کرنے کے لئے جعلی تحریکیں ابھاری جاتی ہیں۔ مسائل کی شدت سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے جعلی مسئلے پیدا کئے جاتے ہیں۔ حقیقی دشمن کو چھپانے کے لئے جعلی دشمن تراشے جاتے ہیں۔ کبھی مذہبی جنون اور قوم پرستی کو ہوا دی جاتی ہے تو کبھی کھیل تماشوں میں عوام کو محو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی مشہور شخصیات کے اسکینڈل بنائے جاتے ہیں تو کبھی جمہوریت کا رونا رویا جاتا ہے۔ 2007ء میں عدلیہ کی بحالی کی جعلی تحریک سے لے کر عمران خان کے ابھار اورطاہرالقادری کے دھرنوں تک، گزشتہ کچھ سالوں میں حکمران طبقے اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے کئی ’’انقلابات‘‘ برپا کر ڈالے ہیں۔ 11 مئی کو متوقع احتجاج بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ہندو اور اسلامی بنیاد پرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان میں مذہبی جنونیوں کو نریندرا مودی جیسا ہدف میسر ہے تو بھارتی قوم پرستوں کے لئے پاکستانی بنیاد پرستوں کی بڑھک بازی ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک ہی رجحان کے دو پہلو ہیں جو ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور ایک دوسرے کے ابھار پر پلتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ ہندو اور اسلامی انتہا پسندوں سے بڑا اتحادی بھلا کون ہوسکتا ہے؟ پھر پاکستان اور بھارت کی اشرافیہ کا لبرل، ’’جمہوری‘‘ و سیکولر حصہ اور ’’سول سوسائٹی‘‘ بھی مذہبی جنونیت کا مرہون منت ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی اگر ختم ہوگئی تو اربوں کھربوں روپے کی مغربی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ این جی اوز کا وسیع و عریض کاروبار بھی ٹھپ ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں شام کی مصروفیات اور ’’ٹائم پاس‘‘کے بہت سے مواقع بھی جاتے رہیں گے۔ تاہم پاکستان اور بھارت کے قدامت پرست ہوںیا ’’ماڈرن‘‘ سول سوسائٹی اور سیکولر سیاستدان، یہ تمام کے تمام رجحانات سرمایہ داری کو انسانیت کی حتمی و آخری منزل سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی مالی، سیاسی اور سیاسی مراعات اسی نظام کے سہارے قائم ہیں۔
سماج جب آگے نہ بڑھ پارہا ہو تو لامحالہ طور پر پیچھے جانے لگتا ہے۔ مستقبل جب اندھیر نظر آئے تو انسان ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اس دنیا میں ذلت اور محرومی کے سوا کچھ نہ مل پائے تو اگلے جہان سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ بنیاد پرستی کو عارضی طور پر ملنے والی سماجی بنیادیں بھی اسی مظہر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ملا، پادری اور پجاری زندگی سے اکتائے ہوئے لوگوں کو نفسیاتی طور پر ہزاروں سال پرانی روایتوں اور داستانوں میں غرق کر دیتے ہیں۔ ان کا مقصد سوچ کو مجروح اور ماؤف کر کے استحصال کو فطری، ازلی و ابدی ثابت کرنا ہوتاہے۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی اور ہندوستان میں کانگریس کی ’’سیکولر‘‘ حکومتوں نے اپنے دور اقتدار میں جس شدت سے عوام پر بے رحم معاشی حملے کئے ہیں اس کے رد عمل میں دائیں بازو کی روایتی جماعتوں کو کسی حد تک سیاست پر حاوی ہونے کا موقع ملا ہے۔ نواز لیگ نیم مذہبی، نیم لبرل، نیم قوم پرستی اور نیم روشن خیالی کا عجیب ملغوبہ ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہے۔ اس قسم کے حالات میں سامراج اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ سے ’’اچھے تعلقات‘‘ رکھنے والی پارٹیاں عوام کی مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برسراقتدار آتی ہیں اور معاشی دہشتگردی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی سامراج اور حکمران طبقہ اپنے ایک نمائندے منموہن سنگھ کو استعمال کرنے کے بعدنریندرا مودی کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مودی وہ کرے گا جو کانگریس حکومت بھی نہ کرپائی تھی۔ پہلے سے ہی مفلوک الحال ایک ارب انسانوں کا خون مودی جیسا درندہ صفت انسان ہی نچوڑ سکتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ نریندرا مودی ہی وزیراعظم بنے۔ بعض اوقات کارپوریٹ میڈیا کے شوروغل میں عوام خاموشی سے بھی اپنا کام کرجاتے ہیں!
اس خطے میں قومی غیرت کے نام پر انسانی غیرت کو قتل کیا جارہا ہے۔ یہ حکمران کروڑوں بھوکے انسانوں کو روٹی کا نوالہ دینے کی بجائے مذہبی جنونیت کا زہر پلا رہے ہیں۔ لیکن عوام کو کب تک ایک دوسرے سے لڑوایا جاتا رہے گا؟ کب تک محنت کشوں کو نان ایشوز اور جعلی تضادات میں الجھایا جاسکتا ہے؟ یہ سب کچھ ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا۔ سرمایہ داری کا معاشی زوال اور بنیاد پرست اپنی منافرتوں کی یکجہتی میں سماج کو بربریت کی کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔ محنت کش عوام کے سامنے بہتر اور آسودہ زندگی کی تمام راہیں بند کردی گئی ہیں۔ لیکن بغاوت کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب برصغیر کے عوام اس راستے پر چلتے ہوئے تمام تر قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے۔