عورت کی آزادی کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب

[تحریر: مریم حارث]
دنیا کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے لیکن پاکستان میں 110مردوں کے مقابلے میں 100عورتیں ہیں۔عورتوں کی آبادی میں اس کمی کی اہم وجہ عورتوں کی صحت پر توجہ نہ دینا، چھوٹی عمر میں شادی ہونااور طب کے شعبہ کا زوال ہے۔ ہر سال ہزاروں خواتین حمل کی پیچیدگیوں کے سبب ہلاک ہو جاتی ہیں اور ایک مستند اندازے کے مطابق 51فیصد عورتیں حمل کے دوران ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو جاتی ہیں جس سے پیداہونے والے بچے کی صحت پر بھی انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ پورے پاکستان میں صحت کے مراکز کم تعداد میں ہیں اور صرف 12فیصد لڑکیوں کی ابتدائی تعلیم تک رسائی ہے۔اس کے علاوہ فرسودہ سماجی رسوم و رواج، روایات اور ملائیت نے بھی خواتین کو اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے اور ہر سال سینکڑوں عورتیں کاروکاری، ونی جیسی غیرانسانی رسموں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ ہر 6گھنٹوں میں ایک عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور ایسے واقعات کی رپورٹ تک درج نہیں کروائی جاسکتی۔
سرمایہ دارانہ نظام کے زوال نے جہاں حیوانی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے تقویت دی ہے تو دوسری طرف معاشی مسائل نے عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر بھی مجبور کیا ہے۔کام کرنے کی جگہوں پر بھی عورتوں کا استحصال مردوں سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محنت کش خواتین کو جنسی طور پر بھی ہراساں کیا جاتاہے اور اکثر اوقات ان کی معاشی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر مالکان کی جانب سے ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے سماجی و معاشی بحران نے سوچوں اور رویوں کو اس حد تک مسخ کر دیا ہے کہ محنت کش خواتین کو خاندا ن اور محلے میں بھی ’’اچھا‘‘ نہیں سمجھا جاتا۔
اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو روس میں بھی 1917ء سے قبل خواتین حقیقی طور پر اپنے شوہروں کی باندیاں ہوا کرتی تھیں، قانون کے مطابق بیوی کو اپنے شوہر کا ہر ’’حکم‘‘ ماننا پڑتاتھااور قانون بیوی کو زدو کوب کرنے کی واضح اجازت دیتا تھا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فروری 1917ء کا انقلاب خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محنت کش خواتین کے بڑے مظاہروں سے ہی شروع ہوا تھا۔نومبر 1917ء کے عظیم بالشویک انقلاب نے خواتین کو وہ آزادی عطا کی جس کی مثال نسلِ انسانی کہیں اور فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ہر قسم کے جنسی تعصب و استحصال کا خاتمہ کیا گیا اور عورت کی معاشرے میں آزاد، خودمختیار اور برابر شہری کی حیثیت کو قانون کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا۔یہ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے ثمرات ہی تھے کہ سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے بعد بھی روس اور مشرقی یورپ میں خواتین کو مغربی ممالک سے زیادہ مراعات، عزت اورآزادی حاصل تھی۔سوویت یونین میں مردوں کے ساتھ ساتھ ہر خاتون کو باعزت روزگار اور رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ حمل اور زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ تین سے چھ ماہ کی چھٹی بھی فراہم کی جاتی تھی جبکہ زچگی کی بہترین سہولیات فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری تھی۔بچوں کی بہتر پرورش کے لئے ریاست کی جانب سے مالی معاونت کے ساتھ ساتھ 1944ء میں ایک میڈل Mother Heroine کا اجراء کیا گیا جو کہ دس سے زیادہ بچوں کی پرورش کرنے والی خواتین کو دیا جاتا تھا۔ میڈل کے اجرا سے لے کر سوویت یونین کے انہدام تک 430000خواتین کے ساتھ ساتھ ایک مرد کو بھی یہ میڈل دیاکیا گیا جو بارہ بچوں کی پرورش کر رہا تھا۔خواتین پر کام کا بوجھ کم کرنے کے لئے سرکاری نرسریاں (Kinderten)موجود تھی جہاں اشتراکی بنیادوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ دو وقت کا صحت بخش کھانا ریاست کی طرف سے فراہم کیا جاتا تھا۔اسی طرح1960ء کی دہائی میں سوویت یونین میں ایک عام شہری کی اوسط عمر(جو1926ء میں صرف 44سال تھی) امریکی شہری سے بڑھ چکی تھی جس کی بڑی وجہ علاج معالجے کی سہولیات میں بہتری کے ساتھ ساتھ زچہ و بچہ کی صحت پر خصوصی ریاستی توجہ تھی۔خلاء میں جانے والی دنیا کی پہلی خاتون ویلنٹینا ترشکووا کا تعلق بھی سوویت یونین ہی سے تھاجسے 13سوویت اور درجنوں غیر ملکی ایوارڈ اور میڈلز سے نوازا گیا۔ترشکوواخلاء میں جانے سے پہلے ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتی تھی۔دوسری جنگِ عظیم میں ایک اور سوویت خاتون لیوڈ میلا پیولیچنکو نے مرد سپاہیوں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اپنی سنائپر رائفل سے 309جرمن فوجیوں کو موت کے گھاٹ ااتار کر تاریخ کی کامیاب اور بہادر ترین نشانہ باز خاتون سپاہی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔یہ حقیقت بھی سوشلزم کے بارے میں بیہودہ پراپیگنڈہ کرنے والے رجعتی عناصر کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ سوویت یونین دنیا کا واحد ملک تھا جہاں عصمت فروشی کا نام نشان تک مٹ چکا تھاجبکہ 1991ء کے بعد سے عصمت فروشی روس اور وسطی ایشیاکے ممالک کی پہچان بن چکی ہے۔اسی طرح سرمایہ داری کی بحالی سے بڑھنے والی معاشی بدحالی کی وجہ سے ایک طرف روسی نوجوانوں میں شادی کا رجحان کم ہورہا ہے تو دوسری طرف طلاقو ں کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس کے باعث سماجی انتشار، عصمت فروشی، ذہنی بیماریوں اور جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
مارکسزم نے جنسی استحصال کے سوال کو ہمیشہ بہت زیادہ اہمیت دی ہے کیونکہ آبادی کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کا نصف حصہ بھی خواتین پر مشتمل ہے۔ عورتوں پر ہونے والے جبر و استحصال کی جڑسرمایہ دارانہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم میں پیوست ہیں۔لینن نے پراودا میں ایک بار لکھا تھا ’’موجودہ سماج میں غربت اور جبر کی بہت سی صورتیں پہلی نظر میں پوشیدہ رہتی ہیں۔انتہائی اچھے عہد میں بھی پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریبوں، دستکاروں، مزدوروں اور ملازمین کے بکھرے ہوئے خاندان انتہائی مشکل حالات میں گزارہ کرتے ہیں اور دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرتے ہیں۔ایسے خاندانوں کی لاکھوں عورتیں’گھریلو غلاموں‘ کی سی زندگی گزارتی ہیں۔اپنے خاندان والوں کی روٹی اور کپڑا دینے کے لئے یہ خواتین ہر چیز پر ایک ایک پائی بچت کرتی ہیں۔تاہم اپنے کام کاج اور مشقت میں وہ بچت نہیں کر سکتیں۔یہی عورتیں سرمایہ داروں کے لئے شرم ناک حد تک کم اجرت پر کام کرتی ہیں تاکہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے روٹی کے چند مزید ٹکڑے کما سکیں‘‘۔
عورت کی آزادی محنت کش طبقے کی آزادی سے مشروط ہے جو کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک سوشلسٹ انقلاب محنت کش اور استحصال زدہ خواتین کی براہِ راست شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ تاریخ میں محنت کش طبقے کی خواتین کی جد و جہد کی بہت سے مثالیں ملتی ہیں۔1789ء کے فرانسیسی انقلاب میں محنت کش خواتین ہی تھیں جنہوں نے شاہی محافظوں کا تیاپانچہ کر کے انقلاب کو ایک نئی شکتی عطا کی تھی۔اسی طرح بالشویک انقلاب میں بھی خواتین نے محنت کش طبقے کے ہراول دستوں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے تاریخ رقم کی۔نہ صرف روسی خواتین بلکہ وسطی ایشیا کی مسلمان خواتین نے بھی بالشویک پارٹی کی قیادت میں انقلاب کو کامیاب بنانے کے لئے مثالی جدوجہد کی۔مسلمان خواتین نے گھروں اور مسجدوں میں جا کر سوشلزم اور بالشوزم کے نظریات کا پرچار کیا اور وسطی ایشیا میں انقلاب کو تقویت بخشتے ہوئے اسے آگے بڑھایا۔ حالیہ عرب انقلاب میں بھی خواتین نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جہاں سامراجی طاقتوں اور ان کی پروردہ قوتوں کے خلاف لڑائی لڑی وہاں مذہبی بنیاد پرست متعصب قوتوں کے خلاف بھی صف آرا ہوئیں۔یہ جدوجہد اب بھی جاری ہے جس میں خواتین ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔
آج پاکستان میں لاکھوں مزدورں، غریبوں اور ملازمین کے خاندان انتہائی مشکل حالات میں گزارہ کررہے ہیں۔ وہ دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔ ایسے خاندان کی عورت گھریلو ملازم کی سی زندگی بسر کرتی ہے، ایک ایسا گھریلوملازم جسے اجرت کے بغیر پوری عمر کام کرنا ہوتا ہے۔ فیکٹریوں میں خواتین سے دوہری ذمہ داری پوری کروائی جاتی ہے، وہ بھی آدھے داموں میں۔ فیکٹر ی میں کام کرنے والی خواتین اور ایل ایچ ویز جو پورا دن محنت مشقت کرتی ہیں لیکن ان کو اپنی محنت کے جائز دام نہیں ملتے۔کسی بھی معاشرے کی اخلاقی سطح کا اندازہ اس معاشرے میں خواتین کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔پاکستان میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ سماج سرمایہ داری کے زیرِ اثر گل سڑ چکا ہے اور بربریت روز بروز نئی شکلوں میں اپنا اظہار کر ہی ہے۔ان حالات میں ملائیت اور بورژوا لبرلازم دونوں ہی عورت کی نجات کے لئے کوئی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں۔مذہبی بنیاد پرستی اور مغربی لبرل ازم دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔یہ دونوں عورت کو استعمال کی ایک چیز سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ استعمال کے ’’طریقہ کار‘‘اور حدود پر اختلاف بہر حال موجود ہے۔ملائیت عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر کے شوہر، باپ اور دوسرے نام نہاد خاندانی رشتوں کا غلام بناتی ہے تومغربی لبرل ازم اسے نام نہاد آزادی دے کر بازار میں سرِ عام نیلام کرتا ہے۔ حقوق نسواں کا کاروبار کرنے والی این جی اوز اور دیگر تنظیمیں بھی سامراجی قوتوں کی آلہ کار ہیں۔ آج کے معاشرے کی خواتین میں بھی طبقاتی فرق نمایاں ہے۔ایک جانب وہ خواتین ہیں جو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو پارلیمنٹ اور اقتدار کے دیگر ایوانوں میں محنت کشوں کو کچلنے والی پالیسیاں ترتیب دینے میں سرگرم ہیں۔ایسی خواتین بھی ہیں جو گھریلو ملازم محنت کشوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہیں اور خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتی ہیں۔جن خواتین نے اپنی زندگیوں کو طبقہ امرا کے مردوں لیے نمائش بنا نے پر اکتفا کر لیا ہے،ہر وقت نئے زیورات اور لباس کے لیے تگ و دو ان کی زندگی کا محور ہے۔ جبکہ دوسری جانب وہ خواتین ہیں جو سخت موسموں میں بھی خاندان کی کفالت کے لیے شدید مشکلات برداشت کرتی ہیں اور زمانے بھر کی ذلتوں کا سامنا کرتی ہیں۔ان دونوں طبقوں کی خواتین کے مسائل اور زندگیاں مختلف ہیں اس لیے ان کی سیاسی اور سماجی جدوجہد بھی مختلف ہے۔
گھریلو کام کاج جو محنت کش خواتین کی پیدائشی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے امیر گھرانوں کی خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں بلکہ اسے قابل فخر سمجھا جاتا ہے کہ انہیں یہ کام نہیں آتے۔حقوق نسواں کا کاروبار کرنے والے افراد اس طبقاتی تفریق کو ماندکرنا چاہتے جو اس سماج کی جڑوں میں موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عورت سماجی طور پر تب تک آزاد نہیں ہو سکتی جب تک وہ معاشی طور پر آزاد اور خود مختار نہ ہواور یہ معاشی و سماجی خود مختاری صرف اور صرف سوشلزم کے زیرِ اثر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
آج ضرورت اس امرکی ہے کہ محکوم اور استحصال زدہ طبقہ کی خواتین محنت کش مردوں کے شانہ بشانہ جبر اور طبقاتی استحصال کے خلاف اپنی آواز بلند کر یں۔ محنت کش طبقے کی عورت اگر اپنے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائے تو اس کی آواز کو دبانے کے لئے مذہب اور منافقت پر مبنی اخلاقیات کا سہارہ لیا جاتا ہے، مگر ایسا کب تک چلے گا؟ جب جبر اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو بغاوت سر اُٹھاتی ہے۔ اپنی آزادی کے لئے خواتین کو منظم جدوجہد کرنا ہو گی۔ سوشلسٹ انقلاب کی تیاری میں انہیں مرد کامریڈز اور محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا، مارکسزم کا پرچم تھام کر آگے بڑھنا ہو گا۔وہ دن دور نہیں جب اس خطے کی محنت کش خواتین اپنے طبقے کے مردوں کے ساتھ مل کر بالشویزم کی روایات کو ایک بار پھر زندہ کرتے ہوئے گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی معاشی و سماجی زنجیروں کو اکھاڑ پھینکیں گی۔

متعلقہ:

عورت اور خاندان

عورت اور سماج