نجی ملکیت اور قلت کا فساد

[تحریر: عرفان فانی]
آج سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے عہد میں اگر روز مرہ زندگی میں پائی جانے والی نفسا نفسی، معاشرتی برائیوں، جرائم اور فسادات وغیرہ کے پیچھے کارفرما نفسیاتی عوامل کا جدلیاتی نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ قلت اور زیادہ سے زیادہ وسائل کے تصرف کے لئے جدوجہد وہ کلیدی وجوہات ہیں جو تمام تر سماجی خرابیوں اور لعنتوں کے پیچھے کار فرما ہیں۔ بچپن سے ایک محاورا سنتے آ رہے ہیں کہ زر، زن اور زمین معاشرے میں برائیوں کی جڑ ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ محاوہ ایجاد کرنے والے ’’سیانے‘‘ نہ صرف منطق سے بے بہرہ تھے بلکہ طبقاتی نظام کی حدود قیود سے آگے جھانکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، لہٰذہ اس طرح کے مقبول عام محاوروں میں علت کی بجائے معلول کو تمام تر خرابی کی وجہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس محاورے پر اگر غور کیا جائے تو سماجی برائیوں کی تین وجوہات میں سے زر کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ زر، یعنی عام زبان میں روپے پیسے، نقدی، زیورات وغیرہ۔ مارکس زر کو اجناس کی کی جنس قرار دیتا ہے۔ زر یا کرنسی کوئی ازلی و ابدی سماجی حقیقت نہیں ہے بلکہ انسانی سماج کے ارتقاء کے دوران ایک خاص مقام منظر عام پر آئی۔ اس کا بنیادی مقصد دراصل اجناس اور وسائل کی لین دین میں سہولت پیدا کرنے کے لئے درمیانی میڈیم کا کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن سرمایہ داری نے زر کو بذات خود ایک جنس میں تبدیل کر دیا ہے۔ جدیدسرمایہ داریانہ نظام کرنسی کے بغیر ناقابلِ عمل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں عمومی طور پر گھریلو، دفتری اور کاروباری جھگڑے اور جرائم جن میں چوری، ڈکیتی، راہ زنی، قتل اور اغوا برائے تاوان وغیرہ کا بنیادی عامل یہی زر ہے۔ لیکن غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے ایسے معاشی یا سماجی حالات ہیں جن میں انسان اپنی سوجھ بوجھ، شعور، مستقبل حتیٰ کہ زندگی کو داؤ پر لگا کر دوسروں کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے اور ایسے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کئی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں؟اخبارات آخر کیوں قتل و غارت گری کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں؟نفسیات کے ماہرین اس کو معاشی و سماجی عدم استحکام اور غیر یقینی حالات زندگی سے کندہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جس شخص کو حال اور مستقبل میں اپنے بیوی بچوں اور خاندان کی زندگی میں خوشحالی اور بہتری کی کوئی صورت نظر نہ آئے وہ ہر طرح کا انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گا۔ اس معاشی عدم استحکام اور منڈی کی نفسا نفسی، جوکہ سرمایہ داری کے ناگزیر نتائج ہیں، کا خاتمہ کر کے جرائم کی اکثریت سے بہت کم عرصے میں چھٹکارا پانا ممکن ہے۔ اگر کسی انسان کو اپنے مستقبل کے بارے میں کسی قسم کی غیر یقینیت اور خدشات نہ ہوں اور وہ زندگی کی بنیادی ضرویات روٹی، کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فکر سے آزاد ہو تو پیسے کی ہوس لازمی طور پر سر نہیں اٹھائے گی۔ اسی صورت میں انسان زر کی قید سے آزاد ہو کر ایک ایسی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتا ہے جس میں سماجی اور خاندانی رشتے معاشی بوجھ اور زحمت کی بجائے خوشی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان حالات میں معاشی برائیاں اور جرائم کا بڑا حصہ خود بخود ختم ہو سکتا ہے اور ایسے کسی انسانی سماج کے حصول کے لئے بذاتِ خود سرمایہ داری کا خاتمہ لازمی ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج کے قیام کے بعد روپے پیسے کی ضرورت رفتہ رفتہ مٹتی جائے گی۔ ایک کیمونسٹ سماج میں جہاں رسد، طلب سے حتمی طور پر بڑھ جائے گی اور مانگ کا خاتمہ ہو جائے گا، وہاں زر کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام تر فساد کو بھی حتمی طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔
محاورے پر واپس لوٹیں تو زن یعنی عورت کو بھی معاشرے میں فساد برپا کرنے والی ’’اشیاء ‘‘ کے درمیان فٹ کر دیا گیا ہے۔ عورت کو ایک طبقاتی سماج میں انسان سے زیادہ ایک برتنے کی چیز سمجھا جاتا ہے، اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے اس محاورے میں میں برتی جانے والی دو بے جان چیزوں کے عین درمیان احساس و جذبات اور سوجھ بوجھ رکھنے والی سانس لیتی عورت کو ٹکایا دیا گیا ہے۔ عام طور پر اس سماج کو مردوں کی دنیا کہا جاتا ہے، لیکن آبادی کے پچاس فیصد حصے کو بے جان جنس گرداننے والے سماج کے بارے یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ ’ مُردوں‘کی دنیا ہے۔ مردانہ تعصب پر مبنی یہ سوچ ہر شے پر حکمرانی اور ملکیت جمانے کے لئے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھارکھنے پر افراد کو ہمیشہ تیار کھتی ہیں۔ ذاتی ملکیت پر مبنی سماج میں عورت کو بھی ایک جنس اور شے گردانا جاتا ہے اور اس صورت میں ملکیت کے قوانین کا اس پر لاگو ہونا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ کیمونسٹ جب ذرئع پیداوار کی مشترکہ ملکیت کی بات کرتے ہیں تو ان پر سب سے بڑا الزام یہ لگتا ہے کہ یہ لوگ ’’مقدس بورژواخاندان‘‘ کو ختم کر کے عورتوں کو بھی اجتماعی ملکیت میں دینا چاہتے ہیں۔ یہ بے ہودہ اور گھٹیا الزام تراشی دراصل سرمایہ داری کے علمبرداروں کا راز فاش کرتی ہے جو عورتوں کو بھی ’’ذرائع پیداوار‘‘ سے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھتے جن کا مقصد ان کی نسل کو آگے بڑھانا اور ان کی جائیداد کے نئے وارث پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جاگیرداری کی باقیات رکھنے والے اس سرمایہ دارانہ معاشرے میں غیرت، عزت اور مذہب کے نام پر عورت کے ایک آزادنہ اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے حق کو ضبط کر لیا جاتا ہے اورمرد کے ہاتھوں اس کی ملکیت کو دوام بخشا جاتا ہے۔ معاشی طور پر مرد پر منحصر، سماجی روایات اور مذہب کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی عورت کبھی بیٹی بن کر باپ کی ملکیت میں ہوتی ہے تو کبھی بہن بن کر ’’غیرت مند‘‘ بھائی کی حکمرانی میں، کبھی بیوی بن کر شوہر کی غلام اور کبھی بوڑھی ماں کی صورت میں اولاد کے رحم و کرم پر۔ وہ سب کچھ ہوتی ہے اور کچھ نہیں ہوتی تو انسان نہیں ہوتی، کیونکہ اس سماج میں اس کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی اور اپنے انداز میں جی سکے۔ اس کو معاشی و سماجی طور پر محتاج رکھا جاتا ہے اور اس محتاجی میں وہ اپنی تمام زندگی سسک سسک کر گھٹن میں گزار دیتی ہے، ہاں لیکن ’’مالکان‘‘ کی عزت و غیرت ضرور قائم رہتی ہے۔ اگر کوئی عورت اپنی پسند اور مرضی سے شادی کرنا چاہے، نوکری کرنا چاہے، بناؤ سنگھار کر کے خوبصورت دکھنا چاہے یا اپنے حقوق کی آواز بلند کرے تو مالکان کی غیرت جاگ اٹھتی ہے اور وہ بد کردار قرار پاتی ہے، تیزاب یا آگ اس کا مقدر ٹھہرتا ہے اور غیرت کے نام پر کی جانے والے ان گھناؤنے جرائم کو عدالتوں سے لے کر مذہب تک، اس سماج کے تمام ادارے تحفظ دیتے ہیں، حتٰی کہ جنسی زیادتی جیسے غیر انسانی فعل کا تمام تر ملبہ بھی عورت پر ڈال دیا جاتا ہے، یعنی عورت پر نام نہاد اخلاقیات نافذ کرنے والے عزت اور غیرت کے یہ ٹھیکیدار خود ہر قسم کی اخلاقی جکڑ بندیوں سے آزاد قرار پاتے ہیں۔ لیکن انسانی سماج میں عورت کا جنسی اور معاشی استحصال کوئی ابدی حقیقت یا حکمِ خداوندی نہیں ہے۔ عورت کی آزادی ذاتی ملکیت کے خاتمے کے ساتھ مشروط ہے۔ عورت حقیقی آزادی حاصل کر کے اپنی مرضی و منشاء کی زندگی تب ہی گزار سکتی ہے جب وہ معاشی طور پر آزاد ہو۔ سماجی آزادی آخری تجزئے میں معاشی آزادی کے بغیر نا ممکن ہے، اور معاشرے کے ہر فرد کے لئے معاشی آزادی کا حصول نفع اور ملکیت سے پاک ایک سوشلسٹ معاشرے میں ہی ممکن ہے۔ فریڈرک اینگلز نے آج سے ڈیڑھ سو سال قبل اس بارے میں کہا تھا جب تک ذاتی ملکیت قائم ہے معاشرے میں سے عصمت فروشی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اور عورت کی آزادی، انسانیت کی سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی کے ساتھ مشروط ہے۔
زمین کی بات کریں تو زر کی طرح قیمتی اور جاگیر داری کی باقیات رکھنے والے ایک سماج میں زن کی طرح عزت و غیرت کی نشانی سمجھی جانے والی زمین بھی صدیوں سے فساد اور خون ریزی کا ماخذ رہی ہے۔ مسئلہ بذاتِ خود زمین نہیں بلکہ زمین کی ذاتی ملکیت کا ہے۔ زمین کے کسی ٹکڑے پر ملکیت کا دعویٰ بذات خود ایک غیر فطری بات ہے۔ زمین کی ملکیت کا یہ فساد روزانہ کئی نئی خون ریزیوں کو جنم دیتا ہے اور اس خونی کھیل میں زندگی کی بازی ہار جانے والے کسی نہ کسی اخبار کے تیسرے صفحے پر نمودار ہوتے ہیں۔ ہر نسل آنے والی نسلوں کو اس گھن چکر میں دھکیل کر اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جاری و ساری رکھتی ہے۔ غیر یقینی معاشی صورتحال میں زمین کے ایک ٹکڑے پر ملکیت کا دعویٰ کرنے والے کئی کئی حصے دار موجود رہتے ہیں۔ سرمایہ داری نے ہر چیز کی طرح زمین کو بھی جنس میں تبدیل کر دیا ہے اور اس جنس کی خرید و فروخت کو باقاعدہ کاروبار کی شکل دی ہے۔ تاہم اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو دنیا میں زمین کی قلت نہیں ہے بلکہ ’’منافع بخش زمین‘‘کی قلت ہے۔ کرہ ارض کے دوسرے بیش بہا وسائل کے ساتھ ساتھ آج سرمایہ دارانہ نظام اس دنیا کی لامحدود زمین کو بھی زراعت یا رہائش کیلئے بروکار لاکر انسانی ضروریات کی تکمیل کرنے سے قاصر ہے۔ صحیح معنوں میں ایک انسانی سماج میں زمین تمام انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہونی چاہئے اور ہر فرد کو رہائش کی مناسب ضروریات فراہم کرنا ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہونی چاہئے، اور ایسا صرف سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت ہی ممکن ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کے بنیادی فرائض میں جاگیرداری کا خاتمہ، تمام تر زرعی زمین کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے بے زمین ہاریوں میں اس کی تقسیم اور بڑے پیمانے پر مشترکہ زرعی فارموں کے تحت سائنسی بنیادوں پر زراعت کا فروغ شامل ہے۔ اسی صورت میں زمین کے جھگڑے کا خاتمہ ممکن ہے۔
مختصراً کہا جائے تو آج کے عہد میں تمام تر معاشی مسائل کی وجہ نجی ملکیت کا تصور، اس پر مبنی سوچ، معاشی، سماجی اور پیداواری رشتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسانی سماج کے ارتقاء کے دوران ایک خاص مقام پر ضروریات زندگی کی قلت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسان اور انسان کے درمیان بقا کی جنگ نے نجی ملکیت اور طبقات کو جنم دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے منظر عام پر آنے سے پہلے انسان قدرت پر اتنی دسترس نہیں رکھتا تھا کہ معاشرے کے ہر فرد کو تمام تر ضروریات زندگی فراہم کی جا سکیں۔ لہٰذہ کچھ افراد کا حکمران طبقات میں تبدیل ہو جانا ناگزیر تھا تاکہ وہ ذہنی مشقت کرتے ہوئے مذہب، فلسفے اور سائنس کو ترویج دیں۔ تاہم آج کے عہد میں انسانی شعور اور تکنیک اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جس سے دنیا کے ہر انسان کو تمام تر ضروریات زندگی فراہم کر کے اپنی شخصیت کی تکمیل، تسخیر کائنات اور تخلیق کے مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن قلت اور نفسا نفسی سے پاک انسانی معاشرے کے قیام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پھر ذاتی ملکیت بن چکی ہے۔ جدلیاتی طور پر چیزیں اپنے الٹ میں بدل چکی ہیں یعنی ذاتی ملکیت پر مبنی طبقاتی سماج جو ایک وقت میں ذرائع پیداوار کو ترقی دے کر انسانیت کو آگے بڑھا رہا تھا اب انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایسے سماج کو ختم کر کے ذرائع پیداوار کی مشترکہ ملکیت اورانسانی ضروریات کے تحت پیداوار پر مبنی سوشلسٹ سماج قائم کر کے انسانیت کی فلاح اور نجات ممکن ہے۔ انسانیت کو آج صحیح معنوں میں بربریت یا سوشلزم میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

متعلقہ:
عورت اور سماج
عورت کی آزادی کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب

عورت اور خاندان