مصنوعی سالمیت

| تحریر: لال خان |

پاکستان کی سر زمین پر افغان طالبان کے امیر کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کی خبر کے بعد سیاسی اور ریاستی اشرافیہ ملکی خود مختاری کا پرانا رونا پھر سے رو رہے ہیں۔ ہفتے کے روز بلوچستان میں ہونے والی اس کاروائی پر وزیر اعظم نواز شریف نے تنقید کی اور بتایا کہ امریکہ سے شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ لندن پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دالبندین میں ہونے والے اس حملے کو ’’پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق تحقیقات جاری ہیں اور ’’پاکستان ایک مرتبہ پھر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ یہ ڈرون حملہ پاکستانی سالمیت کی خلاف ورزی ہے اور ہم یہ مسئلہ پہلے بھی امریکہ کے ساتھ اٹھا چکے ہیں‘‘۔ ایسے میں برائے نام ’’جارحانہ وزیر داخلہ‘‘ چوہدری نثار کیسے پیچھے رہتے۔ منگل کو امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا پاکستان کی حدود میں حملہ ’’غیر قانونی، نا قابل قبول اور ملکی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ انہوں نے واشنگٹن پر ’’طالبان کے ساتھ امن مذکرات سبوتاژ‘‘ کرنے کا الزام بھی لگایا۔
mullah akhtar mansoor killed in drone attack cartoonبعد ازاں وزارت خارجہ نے ایک اور بیان جاری کیا کہ امریکہ نے اس حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مطلع کیا تھا کہ افغان بارڈر کے قریب پاکستان میں ملا منصور پر ڈرون حملہ کیا گیا ہے۔ منافقت اور پاکستانی حکمرانوں کے خصی غیظ و غضب کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی۔ امریکی نیوی سیلز کی جانب سے ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور قتل کے بعد یہ واقعہ پھر سے ایک جانب سامراجی آقاؤں کے ساتھ ساز باز اور دوسری جانب ملکی سالمیت کے لیے کھڑے ہونے کا ایک ڈھونگ ہے۔ منافقت اور دہرے میعار میں امریکی بھی کم نہیں۔ سوموار کو صدر اوباما نے بیان دیا کہ یہ ڈرون حملہ او ر اس میں طالبان کے لیڈر ملا اختر منصور کی مبینہ ہلاکت ’’طالبان اور دوسروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے…اور اس کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے‘‘۔ روایتی سفارتی لفاظی استعمال کرتے ہوئے اس نے پاکستانی اشرافیہ کو ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی دی کہ ’’ہم مشترک مقاصد کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کریں گے، جہاں پر دونوں ممالک کے لیے خطرناک دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنا ہو گا‘‘۔
قیام پاکستان کے وقت سے ہی ریاست اور کاپوریٹ میڈیا ملک کی سیاسی، جغرافیائی اور معاشی خودمختاری کا پرچار کرتے آ رہے ہیں لیکن ہر سیاسی و فوجی حکومت میں سامراج من مانی سے اس مبینہ خود مختیاری کو پامال کرتا رہا ہے۔ اس نام نہاد خودمختاری کے چیمپئن خود سامراجی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کر رہے ہوتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے ریاستی بحران کے ساتھ اب یہ ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ کچھ دھڑے سامراج کے ساتھ ساز باز میں ملوث ہیں توکچھ ان کی مخالفت میں سرگرم، لیکن اس مخالفت کی وجہ حب الوطنی نہیں بلکہ مادی مفادات کا پورا نہ ہونا ہے۔
اس حملے کے بعد پاکستانی حکمران طبقے کے سب سے سنجیدہ نمائندہ اخبار کو اداریے میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’بلوچستان میں ڈرون حملہ ہو یا رات کی تاریکی میں ایبٹ آباد ریڈ، امریکہ کے لیے پاکستان کی جغرافیائی سالمیت کی خلاف ورزی کرنا اتنا آسان کیوں ہے؟ اس کی وجہ سپر پاور کی فوجی برتری نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی موقف ہے کہ پاکستان کے اپنے اعمال دوسری ریاستوں کے لیے بین الاقوامی قوانین اور خودمختاری کے اصولوں کو نظر انداز کرنا ممکن بنا دیتے ہیں۔ اگر اسامہ بن لادن برسوں ایبٹ آباد میں رہ سکتا ہے، ملا عمر مبینہ طور پر پاکستان میں مرا ہے اور ملا منصور کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تھا تو پھر ڈرون حملوں پر ملکی سالمیت کی باتیں کھوکھلے نعرے ہیں‘‘۔
نہ صرف جغرافیائی بلکہ ملک کی معاشی خومختاری بھی سامراجی اجارہ داریوں، ریاستوں اور سب سے بڑھ کر سامراجی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں مسلسل پامال ہوتی چلی آئی ہے۔ پاکستان کی معاشی پالیسیوں کا تعین عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی مالیاتی ادارے کرتے ہیں۔ یہ قرضوں کی واپسی اور ان قرضوں پر بے پناہ سو د کی شکل میں بجٹ اور مجموعی قومی پیداوار کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ پاک چین دوستی کا بڑا چرچا ہے لیکن یہ ’’دوست‘‘ بھی کئی دہائیوں سے بلوچستان کی کانوں سے سونے اور تانبے جیسی معدنیات بے دریغ نکال رہا ہے۔ چین کی حکمران اشرافیہ کا سامراجی کردار بڑھتا جا رہا ہے او ر پاکستان کی لیبر اور وسائل کے استحصال کے لیے یہاں پراجیکٹ لگا ئے جا ر ہے ہیں۔ اب چینی اجارہ داریاں گوادر کا استحصال کر رہی ہیں کیونکہ پاکستان کی حکومتیں اس پراجیکٹ کی شروعات سے ہی معاشی خود مختاری سے دستبردار ہوتی گئی ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے آخر سے جب چینی بیورو کریسی نے سرمایہ دارانہ رد انقلاب کے ذریعے بربادی کا آغاز کیا ہے تو ان کی منافع کی ہوس اور پاکستان اور دوسرے ممالک میں لوٹ کھسوٹ بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔ نواز حکومت نے ان چینی خونخوار سرمایہ داروں کے لیے مزید مراعات جاری کی ہیں جن سے وہ اپنی شرح منافع میں مزید اضافہ کر سکیں۔ سوموار کے روز پاکستان نے گوادر کی بندر گاہ اور گوادر فری زون میں کاروبار کرنے والے چینی اداروں کو 40 سال تک کے لیے ٹیکس میں بڑے پیمانے کی رعاتیں دینے کا اعلان کیا ہے، دوسرے الفاظ میں ان کے لئے ٹیکس تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد بحیرہ عرب پر اس بندر گاہ کو بیجنگ کے ’ون بیلٹ ون روڈ ‘ سٹریٹجک منصوبے کا اہم حصہ بنانا ہے۔
مغربی اور خصوصاً امریکی سامراج 68 سال سے یہ لوٹ کھسوٹ کر رہا ہے۔ پاکستان میں ا پنی مراعات اور طاقت کے لیے سرمایہ داری پر منحصر اور اس کی نمائندہ تمام حکومتیں اور حکمران اس دھرتی، یہاں کے محنت کشوں اور وسائل کو سامراجیوں کے آگے پیش کرتے رہے ہیں۔ انہیں صرف لوٹ مار اور سامراجی کارپوریشنوں اور حکومتوں سے ملنے والے کمیشن اور کک بیکس سے غرض ہے۔ اس کے با وجود برس ہا برس سے وہ کتنی ڈھٹائی سے حب الوطنی اور خود مختاری کے نعرے لگا رہے ہیں اورکہ عوام ہیں کہ پس رہے۔
قومی خود مختاری کے فریضے اور مطالبے کی طبقاتی سماج کے مختلف ادوار اور مختلف سماجی و معاشی نظاموں میں مختلف اشکال رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی شروعات میں صنعتی انقلاب اور جدید قومی ریاستوں کے وجود میں آنے سے قومی خود مختاری کی جدید سفارتی اور عسکری شکل پیدا ہوئی۔ یہ یورپ میں شروع ہونے والے بورژوا انقلابات کا ایک بنیادی فریضہ تھا۔ دوسرے فرائص میں زمین کی تقسیم، صنعتی ترقی اور نمو کے لیے جدید انفرا سٹرکچر، سیکولر ریاست اور مختلف شکلوں کی پارلیمانی جمہوریت شامل تھے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں بورژوا زی کو نو آبادیات کے خاتمے کے بعد اقتدار ملا اور وہ سامراج کی معاشی اور فوجی طاقت کے سامنے تاریخی طور پر تاخیر زدہ اور معاشی طور پر بہت کمزور تھے۔ وہ نہ صرف سماج میں صنعت کاری اور ترقی میں ناکام رہے بلکہ عوام کو اپنی کرپٹ حکمرانی کے تابع رکھنے کے لیے مذہب کو استعمال کرتے رہے۔ جدید اور یکجا قومی ریاست اور طبعی اورسماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے قابل صحت مند سرمایہ داری قائم کرنے میں یہاں کے حکمرانوں کی ناکامی کی وجہ سے وہ بحران اور خلفشار پیدا ہوا ہے جس کا آج پاکستان کو سامنا ہے۔ اپنے معاشی کردار کی بنا پر یہاں کے حکمران طبقات روز اول سے بد عنوان اور رجعتی ہیں۔ سماج ایک کے بعددوسرے بحران سے برباد ہے۔ اس متروک نظا م کے خلاف بار بار بغاوتیں اور تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طریقہ قومی شاؤنزم کو ہوا دینا بھی ہے اور قومی خودمختاری کی نعرہ بازی کایہی مقصد ہے اگرچہ یہ طریقہ کار بہت گھس پٹ چکا ہے اور مڈل کلاس کی چھوٹی سی پرت کو چھوڑ کر وسیع تر عوام میں اس کی بنیادیں کم و بیش ختم ہو چکی ہیں۔
عوام بہت برداشت کر چکے۔ حکمران طبقے کی خود مختاری کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے ابھر نے اور عوام کے تاریخ کے میدان میں داخل ہونے پر وہ اپنی حقیقی معاشی، سماجی اور سیاسی آزادی اور خود مختاری کے لیے جدوجہد کریں گے۔ اس کا واحد راستہ اس کرپٹ حکمران اشرافیہ کی حکمرانی کا خاتمہ اور ریاست اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی ہے۔

متعلقہ:

سالمیت کا سراب