[تحریر: قمرالزماں خاں]
سال کے سب سے طویل دن کے اخبارات، ایک ہی تاثر سے بھرے پڑے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اموات، قتل و غارت گری، حادثات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ کراچی، جو پہلے روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اور جس کو پاکستان کی اقتصادی حب بھی کہا جاتا ہے اب پاکستان کی سب سے بڑی مقتل گاہ بن چکاہے۔ کراچی میں گزشتہ 42 دنوں میں 77 افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ کراچی میں پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ رینجرز کے دستے بھی شہریوں کی ’’حفاظت‘‘ کے لئے لمبے عرصے سے معمور ہیں مگر پولیس اوررینجرز پر ماورا عدالت قتل کے الزامات بھی تواتر سے لگتے آرہے ہیں۔ ماضی بعید میں تشدد، قتل و غارت گری اور ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری صرف اسلامی جمعیت طلبہ پر آتی تھی مگرظاہراََ اسکے رد عمل میں، اور حقیقتاََ محنت کش طبقے کے سب سے بڑے شہر کو لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے طبقاتی وحدت سے محروم کرنے کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنائی گئی ایم کیوایم نے وحشت اور درندگی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا، بلکہ پہلی بار ’’بھتہ گیری‘‘ کا منظم نیٹ ورک قائم کیاگیا۔ مخالفین کا اغوا اور انکے جسموں پر ڈرل مشینوں سے سوراخ اور بوری بند لاشوں کا نیا رواج متعارف کروایا گیا۔ بھتہ گیری اور قتل و غارت گری اتنی بڑھ گئی کہ اس ’’عفریت ‘‘ کو جنم دینے والوں کو اسکے خلاف متعدد آپریشن کرنے پڑے۔ بعد ازاں تمام سیاسی جماعتوں کے ناموں پر جرائم پیشہ لوگوں نے ایم کیو ایم طرز پرعسکری یونٹ قائم کرکے پلاٹوں، پلازوں اور مارکیٹوں پر قبضے کرنا اور بھتہ لینے کا منظم دھندہ تشکیل دیا۔ کراچی میں متعدد مسلح گروہوں کی ’’کراس فائرنگ‘‘ کے شاخسانے میں لوگوں کا مرنا معمول بن چکا ہے۔ پچھلے چھ ہفتوں میں جان کی بازی ہارنے والے تین سو ستتر مقتولین، جن کی روزانہ اوسط 9 بنتی ہے، میں سے غالب اکثریت کو ’’ نامعلوم ‘‘ قاتلوں نے موت کی آغوش میں دھکیلا ہے۔
23جون کی ہی خبر ہے کہ ماچھی گوٹھ میں رہائش پذیرمزدور جو دیار غیر میں روزی روٹی کماتا تھا اپنے ہی گھر کی چھت کی مرمت کرتے ہوئے اوپر سے گزرنے والی گیارہ ہزار وولٹ کرنٹ کی تار سے ٹکرا کر لقمہ اجل بن گیا، مرنے والے مختار احمد کی شادی چند روز قبل ہوئی تھی۔ موت کی خبر سن کر اسکی ایک بہن نے زہر پی لیا، موت کے گھاٹ اتارنے والی ہائی ٹرانسمیشن بجلی کی لائین گھروں کے اوپر سے کیوں گزرتی ہے؟ اور اسکی وجہ سے قیمتی جانوں کی تلفی کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ شائد اس سوال کا جواب پوری ریاست نہ دینا پسند کرے، کیونکہ ریاست اپنے فرائض کے بارے میں کئے جانے والے کسی استفسار کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ خان پور کے قریب ’’ سہجہ‘‘ میں اشتہاری امین نے کانسٹیبل طارق کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پنجاب کے غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 167 بچوں کی خسرے میں مبتلا ہوکر مرنے کی خبر بھی اسی دن چھپی ہے۔ پنجاب کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی اموات غیر معیاری اور زائد المعیاد ویکسین دینے یا پھر ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے ہوئیں۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں جب علاج معالجے اور ویکسین کے معاملات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی تب بھی بچوں کو خسرہ ہوتا تھا مگر کبھی کسی بچے کی موت کی اطلاع خسرے کی وجہ سے نہیں سنی تھی۔ 167 بچوں کی ہلاکت کی خبر کے نیچے ہی ایک اور خبر ہے جس کے مطابق پنجاب میں پچھلے چوبیس گھنٹوں میں خسرے کے 166 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے صرف 44کیس ’’تخت لاہور‘‘ کہلوانے والی پنجاب کی راج دھانی کے ہیں جہاں ملک کا سب سے زیادہ ’’مصروف‘‘ وزیر اعلی تخت نشین ہے اور ملک بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ حکومتی اخراجات بھی اسی شہر اور صوبے میں کئے جاتے ہیں۔ خسرے سے معصوم بچوں کی اموات کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ اگر کوئی ریاست اپنے نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں نہیں بچاسکتی تو پھر اسکے وجود، اہلیت اور معقولیت پر سوال اٹھتا ہے۔
پنجاب اور سندھ کے بارڈر کے قریب کچے کے علاقے میں ڈاکووں کی سرکوبی کے لئے بنائی گئی چوکیوں میں معمور پولیس اہلکاروں کو ایک چوکی سے دوسری چوکی تک جانے کے لئے اور اپنی خوراک کے حصول کے لئے دریا کے پانی میں تیر کر جانا پڑتا ہے۔ 23جون کی اخبار کے مطابق چوکی نمبر 2کا اہلکارمحمد شفیق گجر کھانا لانے کی کوشش میں تیز بہاؤ کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوگیا، ا س جگہ ڈاکوؤں کے گروہوں کے پاس لانچیں، کشتیاں اور ٹرانسپورٹیشن کے تمام ذرائع ہیں مگر انکا مقابلہ کرنے والے جوانوں کو خوراک اور لانچیں دینے کی بجائے حکمرانوں کے لئے بلٹ پروف گاڑیاں اور وی آئی پی ٹائپ مخلوق کی حفاظت پر تمام وسائل لٹا ئے جارہے ہیں۔
پشاور خود کش دھماکے کے 16 شہدا اور ایم کیو ایم کے مقتول رکن صوبائی اسمبلی ساجد قریشی اور انکے بیٹے کی تدفین کی خبر بھی اسی دن کے اخبار میں چھپی ہے۔ چشمہ پلانٹ پر کام کے دوران بھاری کرین کا ’سلنگ‘ ٹوٹنے سے ایک چینی اور ایک پاکستانی انجینئر کے مرنے کی خبر بھی ہے۔ C3 پراجیکٹ پر ایک چینی کمپنی HXCC کے غیر معیار حفاظتی اقدامات کی وجہ سے یہ جان لیوا حاد ثہ رونما ہوا۔ چینی کمپنیاں انسانی جانوں سے زیادہ توجہ منافع کمانے پر دیتی ہیں اور زیادہ تر پراجیکٹس پر سیفٹی ڈیپارٹمنٹ ہی قائم نہیں کرتیں اس لئے جن پراجیکٹس پر چینی کمپنیاں کام کرتی ہیں وہاں حادثات اور اموات کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔ اخبار میں ابھی اموات کی خبروں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک خوفناک خبر سامنے آئی جس کے مطابق بائیس اور تیئس جون کی درمیانی رات ایک بجے گلگت بلتستان میں نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے والے غیر ملکی کوہ پیماؤں کو انکے کیمپ میں گولی مارکر ہلاک کردیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں میں تین یوکرائینی، تین چینی، ایک نیپالی، دو سلوواکی شامل تھے۔ دسواں ہلاک ہونے والا ایک پاکستانی گائیڈ تھا جسے ’’متنازعہ‘‘ فرقے سے تعلق کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ ان غیر ملکیوں کا قتلِ ناحق کرنے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی ہے جبکہ بادی النظر میں یہ قتل عام بھی بلوچستا ن کی طرح امریکہ اور چین کی پراکسی جنگ کا شاخسانہ نظر آتا ہے جس میں طالبان یا لشکر جھنگوی کے اجرتی قاتلوں کا کردار محض’’فرنٹ مین‘‘ کا ہوسکتا ہے۔ 23جون کی مناسبت سے ہی یاد آرہا ہے کہ پچھلے سال اسی دن گڈو تھرمل پاور اسٹیشن پر نئے تعمیر ہونے والے پاور اسٹیشن کے گیٹ کے سامنے صبح آٹھ بجے سندھی قوم پرست تنظیم سے تعلق رکھنے والے 8 مزدوروں کو خودکار آتشینں اسلحہ کے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ قاتل انکی لاشوں کو روندھتے ہوئے بھاگ گئے تھے۔ قاتلوں کو آج کے دن تک نہ گرفتار کیا جاسکا اور نہ ہی انکے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی جاسکی۔ الٹا قاتلوں کا سرغنہ اب ایک’’قانون ساز اسمبلی‘‘ کا معزز رکن بن چکا ہے۔
قتل عام، ہلاکتوں، حادثات اور اموات کا یہ ایک دن کا مختصرترین خاکہ ہے جو پورے ملک میں امن و امان اور انفراسٹرکچر کی ابتر صورتحال کی مکمل نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ سب شائد پورے ملک میں ہونے والی ہلاکتوں کے پانچ فی صد سے بھی کم ہو۔ فصلوں پر چھڑکنے والی زہریلی ادویات پینے یا چڑھ جانے کی وجہ سے مرنے والے، بے روزگاری کے ہاتھوں شکست پاکر خود کو موت کے حوالے کرنے والے، غربت اور فاقوں کی وجہ سے اپنے اہل خانہ کو قتل کرکے خود کو موت کے حوالے کرنے والے، کنووں اور گٹروں میں داخل ہوکر کبھی نہ نکلنے والے، شاہراہوں پر حادثات، فیکٹریوں میں جان لیوا واقعات کے علاوہ اسپتالوں میں ادویات نہ ملنے کے سبب موت کا شکار ہونے والے، پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے، فاٹا اور سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کے ہاتھ چڑھنے والے، بلوچستان میں چھاپہ ماروں اور ’’قانون‘‘ نافذکرنے والے اداروں کے ہاتھوں مارے جانے والے۔ ۔ ۔ اس نظام اور ریاست کی متروکیت اور وحشت ہر روز ایسے ہزاروں واقعات کو جنم دے رہی ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ملک میں بے حسی اور بے گانگی کا راج ہے۔ یہاں صرف انسانی جان ہی ارزاں ہے۔ انسان اور انسانی جان جو اس کائنات کا سب سے بیش قیمت تحفہ ہے اس کو یہاں جس بے دردی سے موت کے حوالے کیا جارہا ہے، اس کی مثال بہت کم ملے گی۔ مالیاتی سرمائے پر تسلط کی نفسیات، ذاتی ملکیت اور شرح منافع کی حرص نے جس درندگی اور بے رحمی کو جنم دیا ہے اس نے حکمرانوں کو انسانی جذبات سے محروم کرکے دولت کمانے والی بے رحم مشینوں میں بدل دیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کی نام نہاد سول سوسائٹی، دانشورطبقہ اور حکمرانوں کے مختلف گروہ قانون کی حکمرانی اور بالادستی کی مالا جھپتے نہیں تھکتے مگر اس قانون کا نفاذ آئینی مسائل، ریاست کے ستونوں کے اپنے مفادات کے گرد ٹکراؤ، سرکاری دانشوروں کی بیہودہ اور لایعنی بحثوں اورمیڈیا کے نان ایشوز کو ہی جنم دیتا ہے۔ مگرملک بھر کے طول و عرض میں بے موت مرتے ہوئے حضرت انسان پر راوی خاموش ہے!