[رپورٹ: شیراز مل]
13 ستمبر 2014ء کو خورشید لیبر ہال کوئٹہ میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام ’’عالمی سیاست اور معیشت کا تناظر‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں کامریڈ لال خان نے لاہور سے خصوصی طور پر شرکت کی۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں قلات، مستونگ، سبی، زیارت، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور کوئٹہ وغیرہ سے انقلابی ساتھیوں، محنت کشوں اور طلبہ نے سیمینار میں کثیر تعداد میں شرکت کی۔ سب سے پہلے کامریڈ نذر مینگل نے تمام ساتھیوں کوسیمینار میں خوش آمدید کہا۔ شکیلا بلوچ کی انقلابی نظم کے بعد کامریڈ لال خان نے عالمی معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے، امریکہ اس وقت دنیا کا مقروض ترین ملک بن چکا ہے، معاشی زوال کی وجہ سے امریکہ کو عسکری اور سفارتی محاذوں پر بھی ناکامی کا سامنا ہے، ، سوویٹ یونین کے ٹوٹنے پر جشن منانے والوں کے لیے آج روس ایک درد سر بن چکا ہے جو مافیا سرمایہ داری کا سرخیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں معاشی زوال کی وجہ سے اب BRICS ممالک کی معیشتیں بھی زوال کا شکار ہیں اور ان کی شرح نمو مسلسل گھٹ رہی ہے۔ چین کی زیادہ تر برآمدات یورپ جاتی ہیں لیکن یورپی سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے منڈی سکڑ رہی ہے اور چینی مصنوعات کی کھپت نہ ہونے سے چین کے اندر فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور بیروز گاری بڑھ رہی ہے۔ اس وقت چین میں اکیس کروڑ لوگ بیروزگار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں انقلاب کے نام پر ایک ناٹک ہو رہا ہے جس میں حکمران طبقے کے مختلف دھڑے آپس میں دست و گریباں ہیں، عمران اور قادری کے معاشی ایجنڈے ایک جیسے ہیں اور یہ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کا نام لینے سے بھی گریزاں ہیں، ریاست بکھر رہی ہے، انقلابات دھرنوں اور لانگ مارچ سے نہیں بلکہ محنت کش طبقے کی مداخلت سے برپا ہوتے ہیں، اس وقت پوری دنیا میں نظام کے بحران کی وجہ سے قومی مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے، حتیٰ کہ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلابات ہوئے وہاں پر بھی قومی مسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے، اسکاٹ لینڈ، سپین، اٹلی وغیرہ میں قومی سوال گھمبیر ہو تا جا رہا ہے، پاکستان میں بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے اور بلوچستان میں مختلف سامراجی ریاستیں مداخلت کر کے اپنی پراکسیوں کے ذریعے معاملات کو اور بھی پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ اس متروک نظام کے تحت قومی مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا، ہم آج بھی قومی سوال کے حوالے سے بالشویزم کی پوزیشن پر قائم ہیں، ہم قوموں کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کو تسلیم کر تے ہیں لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، ہم قومی سوال کو سوشلسٹ انقلاب اور وسیع تر رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈ ریشن کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
لیڈ آف کے بعد سوالات اورکنٹری بیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا جس میں نہال خان، حسن جان اور حمید خان نے موضوع کو آگے بڑھایا۔ کامریڈ لال خان نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹا۔ انہوں نے کہا کہ عرب انقلابات ایک انقلابی قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے ادھورے رہ کر ناکام ہوگئے، انقلابی قیادت کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے اور پاکستان میں یہ عمل جاری ہے، ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، گو کہ ہمارے سامنے بہت ساری مشکلات ہیں لیکن ان مشکل حالات میں ہی انقلابی پارٹیاں بنتی ہیں۔ تحریک کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے جس کی تیاری کے لیے ہمیں جدوجہد کو مزید تیز کر نا ہو گا۔