| رپورٹ: نہال خان |
27 اپریل بروزسوموار افغان ثور انقلاب کی 37ویں سالگرہ کی مناسبت سے ’ویخ زلمیاں‘ کے زیر اہتمام یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے کثیر تعداد میں خواتین و حضرات، طلبہ اور نوجوانوں نے شرکت کی۔
پروگرام کا آغاز شکیلہ بلوچ نے انقلابی نظم پڑھ کر کیا۔ اس کے بعدانٹر نیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر غلام دستگیر، جو سٹیج سیکر ٹری کے فرا ئض سر انجام دے رہے تھے، نے تعارفی کلمات میں کہا کہ افغان ثور انقلاب اس خطے میں رونما ہونے والا وہ واحد انقلاب تھا جس نے پوری دنیا پر با لعموم اور تیسری دنیا پر با لخصوص گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس انقلاب سے سامراجی قوتوں کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں۔ اس انقلاب نے افغانستان سے فرسودہ جاگیر داری اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا جس کی وجہ سے سامراجی قوتوں نے اس انقلاب کو کچلنے کے لیے رد انقلابی ڈالر جہاد کا آغاز کیا اور اپنے مفادات کی خاطر پورے خطے کو بربریت کی آگ میں جھونک دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پروگرام کے انعقاد کا بنیادی مقصد بلوچستان کے خوف اور گھٹن سے اٹے سیاسی ماحول اور جمود کو توڑنا ہے تاکہ سیاسی، معاشی و سماجی مسائل پر کھل کر بحث کی جائے۔ اس کے بعد شکیلہ مینگل، جہانزیب اور ظفر نے انقلابی نظمیں پیش کیں۔ آئی آر ڈپارٹمنٹ سے ولی خان نے ویخ زلمیان کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم 1940ء کی دہائی میں قائم ہوئی تھی جس نے انقلابی ادب اور سیاست کی دنیا میں بڑے نام اور قد آور شخصیات پیدا کیں، ویخ زلمیان کا مطلب انگریزی میں Awakened Youth ہے اور ثور انقلاب کے رہنمانور محمد تر کئی بھی اسی رجحان سے وابستہ تھے۔ آج ایک مرتبہ پھر اس پلیٹ فارم کو از سرنو منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ رجعت کے اس عہد میں نوجوانوں کو انقلابی مارکسزم کے نظریات سے روشناس کروایا جاسکے۔ اسی ضرورت کو محسوس کر تے ہوئے آج کے سیمینار کو ترتیب دیا گیا ہے اور آئندہ بھی مختلف سیاسی اور ادبی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے نصیر آباد ریجن کے جنرل سیکرٹری غلام محمد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے اس انقلاب نے دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ بلوچ سماج پر بھی اتنے ہی گہرے اثرات مرتب کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی ایس او سامراجی قوتوں کے خلاف دنیا بھر میں جاری محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی تحریک کا حصہ رہی ہے اور رہے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی (ولی خان) کے ثناء اللہ خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف مظلوم عوام کو اس انقلاب کی پاداش میں دربدر ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مذہبی جنون، دہشت گردی اور سامراجی مداخلت نے افغانستان کو بر باد کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے تقریب کے انعقاد پر ویخ زلمیان کے دوستوں کو مبارک باد پیش کی۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے پروفیسر ثاقب بلوچ نے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ مارکس وہ پہلا فلسفی تھا جس نے ڈیڑھ سو سال پہلے سما جی مسائل کے حل کے لیے درست نظریات پیش کیے۔ ہمارے مسائل کا حل آج بھی انہی نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں ہے۔ تقریب کے مہمان خاص ڈگری کالج کوئٹہ کے پروفیسر حمید خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سامراجی قوتوں اور ان کے گماشتوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ثور انقلاب کی تاریخ کو مسخ کیا جائے اور اس کی یادداشت کو عوام کے شعور پر سے کچل دیا جائے کیونکہ وہ محنت کشوں، غریب کسانوں، نوجوانوں اور خواتین کی اس جبر، بربریت اور استحصال کے خلاف سرکشی سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں نئی نسل دوبارہ اس راستے پر چل کر اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں نہ کر لے۔ انہوں نے ثور انقلاب کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ افغان سماج کی اس وقت کی سماجی اور معاشی کیفیت بہت پسماندہ تھی۔ محنت کش طبقے کی تعداد بہت کم تھی۔ جد ید صنعت بھی قلیل تھی۔ اس لیے افغانستان میں ایک کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب کے امکانات نہیں تھے جس میں محنت کش طبقہ اور اس کی پارٹی، تحریک کی قیادت کرتے ہوئے سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے ایک سوشلسٹ سماج قائم کردے۔ دوسری طرف سرمایہ داری کے تحت افغانستان میں کسی بھی طرح کی ترقی کے امکانات بھی نہیں تھے۔ خلق پارٹی کی انقلابی مداخلت اور عالمی سطح پر ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے افغان آرمی کے اندر بائیں بازو کے نظریات کی طرف مائل افسران کی بڑی تعداد موجود تھی۔ 27 اپریل 1978ء کو فوج کے انقلابی افسروں اور سپاہیوں کی طرف سے ہونے والی انقلابی سرکشی کے بعد اقتدار کو فوری طور پر خلق پارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ گو یہ انقلاب کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب نہیں تھا لیکن اس انقلاب کے نتیجے میں افغانستان سے سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ ہوا، پسماندگی کی زنجیریں ٹوٹیں اور اس لحاظ سے یہ ایک انتہائی ترقی پسندانہ قدم تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں افغانستان کی تاریخ کی سب سے بڑی انقلابی اصلاحات کی گئیں۔ بیک جنبش قلم غریب کسانوں پر اربوں افغانی کے سود و سلم کا خاتمہ کیا گیا۔ بے زمین کسانوں میں لاکھوں ایکڑ زمین تقسیم کرکے جاگیرداری کا خاتمہ کیا گیا۔ تعلیم مفت اور لازمی قرار دی گئی۔ خواتین کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی لگا کر اس مکروہ فعل کو جرم قرار دیا گیا۔ حقیقی معنوں میں جنسی برابری قائم کی گئی۔ حمید خان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ افغانستان کا انقلاب سوویت یونین کی مداخلت سے بر پا ہوا، خود سوویت یونین نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس انقلاب سے لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کیا۔ یہ انقلاب افغانستان کے اپنے معروضی حالات اور خلق پارٹی کے اپنے فیصلوں نتیجے میں بر پا ہوااور انقلابی تحریک کا یہی آزادانہ پن سوویت بیوروکریسی کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ انقلاب کے نتیجے میں بننے والی انقلابی حکومت کو اپنے تابع کرنے کے لیے سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے انقلابی رہنما حفیظ اللہ امین کو شہید کر کے ببرک کارمل کو افغانستان پر مسلط کر دیا۔ اس طرح سوویت مداخلت نے سامراجی مداخلت اور ڈالر جہاد کا راستہ ہموار کر دیاجس نے انقلاب کو خون میں نہلا دیا۔
بحث کو سمیٹتے ہوئے حمید خان نے کہا کہ امریکی سامراج نے افغانستان پر بم برسانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے۔ پندرہ سال کی سامراجی مداخلت کے بعد بھی افغان سماج کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ نہ تو خونخوار لبرل ازم اور نہ وحشی بنیاد پرستی افغانستان کو اس وحشت سے نکال سکتی ہے۔ افغانستان کے مظلوم عوام کے تمام تر مسائل کا حل آج بھی ثور انقلاب کی عظیم روایت کے بلند پیمانے پر احیا میں ہے۔ آج افغانستان کو 1978ء کی نسبت کہیں زیادہ ثور انقلاب کی ضرورت ہے جو پورے خطے کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد بن کر سامراج کی لگائی جعلی لکیروں کو مٹا سکتا ہے۔