ثور انقلاب کی 36ویں سالگرہ کے موقع پر مالاکنڈ میں سیمینار

[رپورٹ: کامریڈ صدیق]
27 اپریل 2014ء کو مالاکنڈ میں ثور انقلاب کی 36ویں سالگرہ کے موقع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کا آغاز سہ پہر 3 بجے انقلابی نظم سے اْستاد ندیم گل نے کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ناصر امین نے سرانجام دئیے۔ پروگرام کے مہمانوں میں ایمل خٹک، غنی محمد خان (سابقہ ایم پی اے پیپلز پارٹی)، ادیب اور دانشوار ڈاکٹر خالق زیار، قومی وطن پارٹی کے ایم پی اے بخت بیدار خان، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے شہاب چکدروال اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے انٹرنیشنل سیکرٹری کامریڈ لال خان نے خصوصی شرکت کی۔ کوہاٹ، پشاور، مردان، دیر اپر، دیر لوئیر، سوات، بونیر، شانگلہ اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں سیاسی کارکنان اور طلبہ پنڈال میں موجود تھے۔ شرکا سے کامریڈ غفران احد، شیرجان، پروفیسر عابد سلطان اور صاحب زادہ باچا نے خطاب کیا۔ کامریڈ غفران نے اپنے خطاب میں ثور انقلاب کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ صرف افغانستان کے محنت کشوں کا انقلاب نہ تھا بلکہ دنیا بھر کے مزدوروں اور استحصال زدہ طبقات کی عظیم کامیابی تھی، یہی بات نور محمد ترکی نے بھی ثور انقلاب کے پہلے سالگرہ پر کہی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ اس انقلاب نے صدیوں سے جاگیر داری اور سرمایہ داری کی زنجیروں میں جکڑے افغانستان کے عوام کو آزاد کیا۔ شہاب چکدروال نے کہا کہ نورمحمد ترکئی کا طبقاتی موقف بہت واضح تھا اور انہوں نے ہر قسم کی طبقاتی مصلحت کو ہمیشہ مستر د کیا، علاوہ ازیں وہ نظریاتی حوالے سے بین الاقوامیت پسند تھے۔ شیر جا ن نے ثور انقلاب کے بعد سوویت KGB اور امریکی CIA کے رجعتی کردار کو واضح کیا، انہوں نے افغانستان کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ثور انقلاب کی سماجی اور معاشی حاصلات بھی بیان کیں۔ خورشید علی خان نے ثور انقلاب کی سالگرہ پر سیمینار منعقد کرنے والے کامریڈ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم قومی سوال کو طبقاتی سوال کیساتھ جوڑ کر ہی حل کر سکتے ہیں۔ بخت بیدار نے اپنے بیان میں کہا کہ قومی سوال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان میں قومی بنیادوں پر بھی استحصال موجود ہے۔ صاحب زادہ باچہ نے کہا کہ ثور انقلاب کے وقت میں افغا نستان میں تھا اور میں اس بات کو گواہ ہوں کہ افغان عوام نے ثور انقلاب کا بخوشی خیر مقدم کیا تھا۔ یہ انقلاب 1789ء کے انقلاب فرانس اور 1917ء کے بالشویک انقلاب کی طرح اہم تاریخی واقعہ تھا۔ ایمل خٹک نے کہا کہ انقلاب کی ناکامی کی وجوہات میں سامراجی جارحیت اور ملائیت کے ساتھ ساتھ پارٹی کی نظریاتی کمزوریاں اور سیاسی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ غنی محمد خان نے نورمحمدترکئی کی انقلابی سیاست پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ قومی سوال کا حل طبقاتی نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔ ڈاکٹر خالق زیار نے کہا کہ ہم نے ثور انقلاب کیساتھ ہمیشہ اظہار یکجہتی کیا، خلق اور پرچم دھڑوں میں اگرچہ اختلاف موجود تھا لیکن ہم نے ان داخلی اختلافات کے باوجود انقلاب کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر لال خان نے اختتامی تقریر میں کہا کہ ثور انقلاب کے وقت میں نشتر میڈیکل کالج ملتان میں طالب علم تھا اور بائیں بازو کی انقلابی سیاست کرنے کی پاداش میں ضیاآمریت کے دوران جیل بھیج دیا گیا۔ 1978ء میں انقلاب ثور کی خبر مجھ تک ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح پہنچی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انقلاب کلاسیکی لینن اسٹ طرز کا پرولتاریہ انقلاب نہیں تھا لیکن اس کے باوجود یہ افغانستان کی تاریخی میں سب سے بڑا ترقی پسندانہ قدم تھا جس کے ذریعے جاگیر داری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کے آغاز ہوا۔ ثور انقلاب نے ثابت کیا کہ تاریخی طور پر پچھڑے ہوئے ممالک کی بورژوازی قومی جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ آج بنیاد پرستوں کے ساتھ ساتھ بورژوا میڈیا اور نام نہاد لبرل بھی ثور انقلاب کو تاریخ کے اوراق پرسے کھرچ دینا چاہتے ہیں۔ امریکیوں کے ساتھ ساتھ سوویت بیوروکریسی بھی اس انقلابی تبدیلی سے خوفزدہ تھی۔ سامراج کے دانشور اس حقیقت کو چھپا دیتے ہیں کہ سویت افواج ثور انقلاب کے پورے 18 ماہ بعد افغانستان میں انقلاب کی حقیقی قیادت کے قتل کے بعد داخل ہوئی تھیں۔ پشتون قوم کو رجعت کے اندھیروں میں غرق کرنے کی کوشش کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ پشتون محنت کش اور نوجوان اس عظیم انقلاب کے جانشین ہیں جس نے دنیا بھر میں سامراجیوں اور حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ آج سے صرف تین دہائیاں پہلے کابل کو ’’مشرق کا پیرس‘‘ کہا جاتا تھا۔ آج اسی کابل کو سامراجیوں نے28 ارب ڈالر کے بارود سے تاراج کردیا ہے۔ کابل کی ہر دیوار سامراج اور اس کے حواری ملاؤں کی بربریت اور وحشت کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔ لیکن یہ وحشت اور ظلمت سطح کے نیچے پکنے والے لاوے کے دھماکے کو زیادہ دیر تک نہیں روک سکتی۔ وہ وقت دور نہیں جب ایک بار پھر افغانستان اور اس خطے کے عوام سامراجی جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف فیصلہ کن انقلابی بغاوت برپا کریں گے۔ پاکستان اور افغانستان کا انقلاب الگ الگ نہیں ہوسکتا اور برطانوی راج کی تراشی ہوئی جعلی ڈیورنڈلائن دونوں طرف بسنے والے پشتونوں کو جدا نہیں کرسکتی۔ سیمینار کے اختتام پرنورمحمد ترکئی کی اس تقریر کی ویڈیو دکھائی گئی جس میں انہوں نے ثور انقلاب کو دنیا بھر کے محنت کشوں کی فتح اور بالشویک انقلاب کا تسلسل قرار دیا تھا۔