ملتان: یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے طلبہ کا دوسرے روز شدید احتجاج، مطالبات تسلیم

| رپورٹ: رحیم بخش |

مورخہ 7 دسمبر کو ہونے والے احتجاج کے بعد ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ مورخہ 8 دسمبر کو صبح 7:00 بجے یونیورسٹی گیٹ کے باہر بوسن روڈ پر احتجاج کیا جائے گااور روڈ بلاک کیا جائے گا۔ ایکشن کمیٹی نے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کو احتجاج میں بھر پور شرکت کی اپیل کی تھی۔ سینکڑوں طلبہ احتجاج کی کال پر آج صبح 7:00 بجے سے بھی پہلے یونیورسٹی گیٹ پر جمع ہوگئے اور جوک در جوک مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کا سمندر اُمنڈ آیا۔ طلبہ نے بوسن روڈ، جو تعلیمی اداروں کا گڑھ ہے، بلاک کر دیا اور انتظامیہ کے خلاف اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی شروع کردی۔ طلبہ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے منظم اور پرُجوش تھے۔ اس دوران طلبہ کا موڈ نہایت جارحانہ تھا۔ جو طلبہ کل تک شدید ذہنی دباؤ اور خوف کا شکار تھے وہ آج اُتنے ہی باہمت، نڈر اوراپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار نظر آرہے تھے۔ اسی دوران ضلعی انتظامیہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے احکامات پر پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی اور طلبہ کو خوف زدہ اور ہراساں کرنے لگی جس کے ردِ عمل میں طلبہ کا جوش و ولولہ مزید بڑھ گیا۔ انتظامیہ نے طلبہ کی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات شروع کر دئیے جس پر طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں ٹھوس اور واضح موقف رکھا، پولیس نے احتجاج ختم کرانے کی خاطر طلبہ کو شدید دھمکایا مگر طلبہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اس دوران طلبہ، بھر پور خوشی اور سرشاری کی کیفیت میں جشن کا سما قائم کئے ہوئے تھے۔ طلبہ چے گویرا کی تصاویر والے بینر اور پلے کارڈز ہاتھوں میں تھامے کبھی نعروں کی گونج تو کبھی موسیقی پر رقص کرتے نظر آئے جبکہ جوشیلی تقریروں نے ماحول کو گرمائے رکھا۔ اس موقع پر مطالبات پر مشتمل لیف لیٹ تقسیم کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین، یونیورسٹی انتظامیہ مردہ باد، جینا ہے تو لڑنا ہوگا، ضلعی انتظامیہ مردہ باد، گو پرنسپل گو، ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے، ساڈا حق ایتھے رکھ، تعلیم مہنگی ہائے ہائے ،کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے رہے۔ طلبہ کے 7 گھنٹے تک روڈ بلاک رکھنے پر، آخر کار یونیورسٹی انتظامیہ اور ضلعی انتظامیہ مطالبات ماننے پر مجبور ہوگئی۔ آخر میں طے کیا گیا کہ انتظامیہ اگر مطالبات پر عمل درآمد نہیں کرتی اور کسی بھی طالب علم کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بناتی ہے توپھر ملک گیر سطح پر احتجاج کیا جائے گا۔ احتجاجی مظاہرے کی قیادت ندیم پاشا، نادرگوپانگ، سمیر، نوریز، ولید لغاری ،امین بلوچ،ماجد رضا، صدیق سید، رحیم بخش، سچل سرمست،محمد ساجد، اشفاق ،اسلم انصاری، ذیشان بٹ،بہادر، راحیل، انعام ، عمیر علی، کامریڈ علی، جہانگیر اور جام رضانے کی۔ مطالبات تسلیم ہونے کے بعد احتجاج جشن کی صورت اختیار کر گیا۔