پرویز رشید کی ’قربانی‘

| تحریر: لال خان |

اس ملک میں جہاں حکمرانوں کی سیاست میں بڑی حرکت ہے وہاں معاشرے میں وقتی طور پر ایک پرانتشار سکوت طاری ہے۔ حکمرانوں کی ان نورا کشتیوں کو میڈیا کی جانب سے سماج پر مسلط کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام کی وسیع تعداد ان کا حصہ نہیں بن رہی۔ بہت سے لوگوں کے لئے بوریت اور بیگانگی سے بھرے اس سماج میں میڈیا پر جاری حکمرانوں کے یہ تماشے شام کے اوقات میں ٹائم پاس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ تاہم ریاست اور سیاست کا داخلی توازن اتنا نحیف ہے کہ ان کے تنازعات میں کئی مرتبہ ان کے کچھ پیادوں کا بلیدان بھی ہو جاتا ہے۔ پرویز رشید ایسی ہی ایک کشمکش میں قربانی کا بکرا بنے ہیں۔ لیکن یہ ساری کیفیت بحیثیت مجموعی پورے نظام اور اس کے تحت بنائے گئے موجودہ سیٹ اپ کے کھوکھلے پن اور انتشار کی غمازی بھی کرتی ہے۔
scapegoating-pervaiz-rasheed-cartoonحالیہ ’’فوجی سویلین تنازعے‘‘ کی خبر لیک ہونے کے بعد پہلے سے جاری سازشی نظریات کی گفتگو،قیاس آرائیاں اور تبصرے زیادہ شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہ حکمران اس استحصالی نظام کے تسلط کو جاری رکھنے کے لئے جہاں عوام کی زندگیوں کو سماجی اور معاشی طور پر عذاب مسلسل بنا رہے ہیں وہاں سچائی، دیانت داری اور خلوص کے معاملے میں بھی کفایت شعاری اور پرہیز کی انتہا کئے ہوئے ہیں۔ ایسی کیفیات میں جھوٹ اور منافقت کا راج زوروں پر ہوتا ہے اور جن کے منہ سے حادثاتی طور پر بھی سچ نکل جائے وہ پہلا نشانہ بنتے ہیں۔
پرویز رشید موجودہ حکومت کے نہایت ہی کارآمد ترجمان تھے۔ وہ اپنی ماضی کی بائیں بازو کی فکر ان دائیں بازو کے حکمرانوں کی خدمت میں خوب استعمال کر رہے تھے۔ مارکسزم کے نظریات کسی کو اور تو کچھ دیں نہ دیں لیکن ذہانت اور بہت سی فنکارانہ صلاحیتوں سے خوب نوازتے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ سرمایہ داری کے حکمرانوں اور سامراجی آقاؤں نے اپنے مفادات کے لئے مارکسزم اور سوشلسٹ انقلاب سے منحرف ہونے والے سیاسی کارکنان اور دانشوروں کا بھرپور اور سستا استعمال کیا ہے۔ جہاں یہ حکمران ایسے افراد سے اس ناقابل اصلاح نظام میں اصلاح پسندی کے درس دلواتے ہیں وہاں سابقہ بائیں بازو کو استعمال کرتے ہوئے این جی اوز اور دوسرے ’’فلاحی اداروں‘‘ کے ذریعے ’’ترقی پسندی‘‘ کی آڑ میں جمہوریت، لبرل ازم اور سیکولرازم کے فرسودہ، مصنوعی اور ناقابل عمل راستوں کو سوشلزم کا متبادل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پرویز رشید 1960ء کی دہائی میں بائیں بازو کے نظریات کی جانب راغب ہوئے تھے۔ یہ پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کا دور تھا۔ وہ این ایس ایف میں شامل ہوئے اور ان کے کچھ پرانے ساتھیوں کے مطابق وہ چین نواز ’سوشلزم‘(ماؤازم) کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے تھے۔ یہاں کے بائیں بازو کو پاکستان کے جنم سے ہی ریاستی جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سامراجی آقاؤں کی ایما پر پروردہ مقامی حکمرانوں کا پہلا نشانہ کمیونسٹ ہی رہے۔ راولپنڈی سازش کیس سے لے کر حسن ناصر جیسے سیاسی کارکنان کا بہیمانہ ریاستی قتل اس کی صرف چند مثالیں ہیں۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی اور دوسرے بائیں بازو کے رجحانات سے وابستہ افراد کی قربانی اور جدوجہد کی طویل تاریخ ہے اور ان کی سچائی، دیانتداری اور خلوص کا اعتراف دشمن بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کی ناکامی اور تنزلی کا سب سے بڑا سبب ان کا نظریاتی ابہام تھا۔ جس سٹالنسٹ نظرئیے پر یہاں کے اکثر کمیونسٹ اور بائیں بازو کے رجحانات کی نظریاتی بنیادیں قائم تھیں وہ ’مرحلہ وار انقلاب‘ کا نظریہ تھا۔ اس کے مطابق پاکستان، ہندوستان اور دوسرے پسماندہ ممالک میں انقلاب کا پہلا مرحلہ ’قومی جمہوری‘ تھا جس میں بائیں بازو کو ان ممالک میں نام نہاد ترقی پسند بورژوازی (سرمایہ دار طبقے) کی حمایت کا فریضہ ماسکو اور بیجنگ کی جانب سے سونپا گیا تاکہ وہ صنعتی اور جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کر سکے۔ لیکن ایسی کسی ’’ترقی پسند بورژوازی‘‘ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہاں کی بورژوازی تاریخی طور پر تاخیر زدہ، معاشی طور پر نحیف اور لاغر ہونے کی وجہ سے یہ فریضہ ادا ہی نہیں کر سکتی تھی۔ ان سرمایہ داروں کو روز اول سے سامراجی گماشتگی اور مذہبی رجعت کی بیساکھیاں کھڑے ہونے کے لئے درکار تھیں۔ وہ کرپٹ بھی تھے اور نااہل بھی۔
اس نظریاتی ابہام کی حقیقت اس وقت کھل کر سامنے آئی جب پاکستان کا محنت کش طبقہ 1960ء کے دہائی میں انقلاب کے میدان عمل میں اترا۔ اس کے مطالبات اور خواہشات سوشلسٹ تھیں نہ کہ جمہوری۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب سوشلزم کا نعرہ دیا تو تحریک کی حمایت سے وہ ملک کا مقبول ترین سیاستدان بن گیا۔ اسی دوران بائیں بازو کے بیشتر لیڈر ’مرحلہ وار انقلاب‘ کے لئے نوابزادہ نصراللہ اور دوسرے دائیں بازو کے لیڈروں کے ساتھ ’ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی‘ بنانے میں مصروف تھے۔ تحریک ان کمیونسٹوں کے سامنے سے گزر گئی اور وہ اس بوسیدہ نظام میں جمہوری اور ترقی پسند سرمایہ دار تلاش کرتے رہے۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد اکثریتی بائیں بازو نے ’مرحلہ وار انقلاب‘ میں دوسرے مرحلے یعنی سوشلزم کو یکسر خارج ہی کر دیا۔ سارا زور بس جمہوریت اور سیکولرازم تک محدود ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ماسکو کے انہدام کے بعد انہوں نے واشنگٹن کو اپنا نظریاتی قبلہ بنا لیا تھا۔ ایسے میں پرویز رشید جیسے بائیں بازو کے لیڈروں کی جانب سے نواز شریف کی حمایت اور نواز لیگ میں ’ترقی پسند بورژوا پارٹی‘ کی تلاش زیادہ حیران کن نہیں ہونی چاہئے۔ ایسے تمام سابقہ بائیں بازو کے لوگوں کے لئے اولین لڑائی محنت اور سرمائے کی بجائے ’جمہوریت اور آمریت‘ کی تھی۔ جمہوریت اور آمریت کا یہ جعلی اور سطحی ٹکراؤ ہی ان کی نظریاتی اساس بن گیا۔
پیپلز پارٹی، جو اپنے آغاز میں ریڈیکل بائیں بازو کی پارٹی ہونے کے باوجود کبھی بھی کوئی مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی نہیں تھی، اس کے بعد کے لیڈروں نے بھی ’جمہوریت‘ کی آڑ میں سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور پراپرٹی کے انداتاؤں کو پارٹی پر خوب مسلط کیا اور سوشلزم کا نام لینا بھی جرم قرار دے دیا۔ آج یہ کھلواڑ انتہاؤں پر ہے۔ یہ ’جمہوریت‘ ہر نظریاتی انحراف کے بیہودہ جواز میں موجود ہے۔ لیکن جہاں حکمران طبقات اتنے تاخیر زدہ، بدعنوان اور رجعتی ہوں وہاں معاشرہ ترقی کر سکتا ہے نہ عوام۔ ایسے میں جو بحران جنم لیتے ہیں ان کے لئے فوج اور ریاست کا سہارا ہمیشہ درکار ہوتا ہے۔ وہ بھی ایسے کرپٹ ’جمہوری‘ لیڈروں کا ایک حد تک ہی تحفظ کر سکتے ہیں۔ پھر جمہوریت اور آمریت (جو درحقیقت ایک ہی نظام کو چلانے کے دو طریقے ہیں) کا جعلی ٹکراؤ اوپر چلتا رہتا ہے اور نیچے عوام غربت، ذلت اور محرومی میں کچلے جاتے رہتے ہیں۔
’مرحلہ وار انقلاب‘ کے ابہام سے دو چار ہندوستان کی دیوہیکل کمیونسٹ پارٹیوں کی ’سیکولرازم‘کی جدوجہد کا انت ایک ہندوبنیاد پرست حاکمیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان میں بھی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت سے جنم لینے والی وحشت اس نظرئیے کی فرسودگی کی آئینہ دار ہے۔ سیکولرازم ہو یا جمہوریت، اسی استحصالی نظام کے مختلف روپ اور اس میں اصلاح کی کوششیں ہیں جو تاریخی طور پر متروک ہے۔
سرمایہ دار حکمرانوں پر جب برا وقت آتا ہے تو وہ بائیں بازو کے نظریاتی مریضوں کو کبھی نہیں بھولتے۔ سب سے پہلی قربانی وہ پرویز رشید جیسے ’بائیں بازو‘ کے حلیفوں کی ہی دیتے ہیں۔