[اہتمام: PTUDC سوات]
آپ کا نام کیا ہے، کب سے اور کیا کام کر رہی ہیں؟
جواب: میرا نام سیاست بی بی ہے اورمیں 8اگست1993ء، یعنی 21سالوں سے سوات میں لیڈی ہیلتھ ورکر کے فرائض سر انجام دے رہی ہوں۔
تنخواہ کتنی ملتی ہے اور کیا اس میں گزر بسر پوری ہوجاتی ہے؟
جواب: شروع میں 1200روپے تنخواہ ملتی تھی، اس وقت سونے کی قیمت 5000روپے فی تولہ ہوا کرتی تھی اور اب سونے کی قیمت 50000روپے فی تولہ سے بھی زیادہ ہے لیکن میری تنخواہ محض 8000روپے ہے۔ یہ تنخواہ بھی دوسے تین ماہ بعدہی ملتی ہے۔
میرے پانچ بچے ہیں اور میری خواہش ہے کہ انہیں تعلیم دلوا سکوں لیکن تعلیم اب کاروبا ر بن چکی ہے اوراس کے لیے بہت پیسہ درکارہے۔ میرے بچوں کے ماہانہ تعلیمی اخراجات 17000 روپے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گھر کے دیگر اخراجات بھی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں کھیتی باڑی کرتی ہوں، مال مویشی پالتی ہوں اور پولٹری فارم پر بھی کام کرتی ہوں۔
زندگی بسر کرنے کے لیے آپ کو اتنا زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے، معاشرے میں آپ کی اس مسلسل محنت کی زندگی کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟اور کام کے دوران آپ کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے؟
جواب: ہمارے معاشرے میں عورت کا تصور محض ’’گھر کی زینت‘‘ ہونے تک محدود ہے، یعنی جو بس گھر کی چار دیوار ی میں رہ کر زندگی گزار دے۔ روزی کمانے کے لیے گھر سے باہر نکل کر کام کرنے اور حتیٰ کہ پڑھنے والی بچیوں کو اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔ ایسی صورتحال میں کام کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کام کے دوران لوگوں کی کم آگہی اور بے شعوری بہت زیادہ مسائل کا باعث بن جاتی ہے۔
کیا آپ کی کوئی ٹریڈیونین موجود ہے؟ اگر ہے تو کیا وہ آپ حقوق کا دفاع کر رہی ہے؟
جواب: دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے KPK میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی کوئی ٹریڈ یونین موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہماری لڑائی کو منظم کرنے والی اور ہمارے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے ہماری آواز حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچانے والی کوئی قوت موجود نہیں ہے۔
پختونخواہ اور سندھ میں یہ نوکری کرنا اپنی جان داؤ پر لگانا ہے۔ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ طالبان کے لیڈی ہیلتھ ورکرز پرحملوں کی کیا وجہ ہے اور ان کے خلاف کیسے لڑا جا سکتا ہے؟
جواب: طالبان کے حملوں کی وجہ سوائے جہالت اور خوف پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ طالبان خاص طور ہمیں یعنی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اس لئے نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ ان کا کام لوگوں کی زندگی لینا ہے جبکہ ہمارا کام لوگوں کی زندگی بچانا ہے۔ اس شعبے میں کام کرنا یقیناًاب موت کو گلے لگانے کے ہی مترادف ہوچکا ہے۔ یہاں دہشت گردوں کے حملے سے اب تک 12 سے زائد ہیلتھ روکر ہلاک ہو چکی ہیں۔ اس وجہ سے کئی خواتین کو مجبوراََ نوکری چھوڑنا پڑ گئی ہے۔ ہمارے تحفظ کے لیے حکومت نے ابھی تک باتیں کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیاہے، ابھی تک یہاں کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے’’صحت کا انصاف‘‘ کے نام ایک کمپئین شروع کی ہوئی ہے جس کی تمام تر میڈیا میں بہت زیادہ تشہیر کی جا رہی ہے، یہ کمپئین کیا ہے اوراس سے اب تک کیا بہتری آئی ہے؟
جواب: KPK حکومت نے ’صحت کا انصاف‘ کے نام سے کوئی ڈرامہ تو ضرور شروع کیا ہوگا لیکن حقیقت میں اس نام کی کوئی بھی چیز یہاں موجود نہیں ہے۔ ہاں البتہ حکومت اپنی پارٹی کے لوگوں کی لوٹ مار کے لیے ایک نیا ذریعہ اس سکیم کے نام سے ضرور شروع کر سکتی ہے۔ یہ انصاف کا جنازہ نکا لنے کا تحریک انصاف کا کوئی نیا طریقہ ہوگا۔ باقی جہاں تک یہاں کے صحت کے حالات ہیں تو صورتحال بہت ابتر ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے7 دسمبر 2013ء کو سوات کے سیدو شریف ہسپتال کے سرجیکل وارڈ کے بیڈ نمبر 8پر ایک پانچ سال کے پھول جیسے بچے نے دم توڑدیا کیونکہ اس کے والدین کے پاس پیسے نہیں تھے۔
آپ کی رائے میں پاکستان کے موجودہ حالات کیسے ہیں؟
جواب: یہاں حالات تو بہت خراب ہیں اور یہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اچھی زندگی گزارنا تو دور اب تو زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی ایک جنگ سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف حکومت طالبان سے کر رہی ہے حالانکہ جانور کبھی انسان نہیں بن سکتے۔ ان طالبان کو بنانے والی بھی خود حکومت ہی تھی اس لیے یہ مذاکرات بھی ان کے آپس کے لین دین پرہی ہورہے ہیں۔
پاکستان کے حالات کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے؟
جواب: پاکستان اور خاص کر KPK کے حالات بہت نازک ہیں۔ یہاں کی سیاست نظریات اور سچائی سے خالی ہو چکی ہے۔ حکمرانوں کی سیاست اب محض دھوکہ دہی اور فریب کے علاوہ کچھ اور نہیں رہی۔ یہاں سیاست کا مقصد صرف ایک ہی رہ گیا ہے اور وہ پیسہ کمانے کے لیے پارلیمنٹ میں پہنچنا ہے۔ ہم مزدورپیشہ اور محنت کش لوگوں کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ دوسری طرف ہر کوئی اس تکلیفوں سے بھری زندگی کو بدلنا چاہتا ہے۔ سبھی محنت کشوں اور مزدوروں کے حالات زندگی بہتر کئے بغیر یہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
آپ کی رائے میں پاکستان کے حالات کو ٹھیک کرنے لیے خواتین کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟
جواب: زندگی، مرد اور عورت دونوں پریکساں محیط ہے اور دونوں کے بغیر ادھوری بھی ہے۔ یہاں کے حالات کو بدلنے کے لیے زندگی کے توازن کی طرح ہی عورتوں کو بھی مردوں کی طرح بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔