| تحریر: لال خان |
اگر پاکستان کے حکمران طبقات میں کوئی سنجیدہ پالیسی ساز موجود ہیں تو وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری نوراکشتی سے بہت پریشان ہوں گے۔ پاکستان کی تقریباً پچیس فیصد آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں خطے کی دو بڑی طاقتوں، ایران اور سعودی عرب، کے درمیان سفارتی چپقلش تیزی سے خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، جہاں پہلے سے ہی فرقہ وارانہ تضادات موجود ہیں۔ ان تضادات کو نہ صرف وقتاً فوقتاً سماج میں انتشار پیدا کرنے کے لئے ابھارا جاتا ہے بلکہ یہ ریاستی اداروں کی ہم آہنگی اور داخلی جڑت پر بھی ضرب لگاتے ہیں اور مخصوص سطح پر کھلے ٹکراؤ کو جنم دے سکتے ہیں۔ اسی قسم کے بھیانک اثرات کی زد میں مشرق وسطیٰ بھی ہے۔
اس سال سعودی حکام کی جانب سے ایرانیوں کو حج ادا کرنے سے روکے جانے کے بعد ایران کے سپریم لیڈر خامنائی نے پچھلے ہفتے سخت تنقید کرتے ہوئے ’مسلم دنیا‘ سے کہا کہ وہ اسلام کے دو مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کے انتظامات کی ذمہ داری سعودی عرب سے اپنے ہاتھوں میں لیں۔ خامنائی نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا، ’’سعودی حکمرانوں کے خدا کے مہمانوں کی جانب ظالمانہ رویے کی وجہ سے اسلامی ممالک کو دو مقدس مقامات اور حج کے انتظامات کے معاملے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ پچھلے سال حج کے موقع پر ہونے والی بھگدڑ پر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے جس میں 2297 حجاج ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 464 ایرانی بھی تھے۔ خامنائی کے جواب میں سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے ایرانیوں کے قبل از اسلام کے عقائد کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو ’غیر مسلم‘ قرار دے دیا۔ انہوں نے ’روزنامہ مکہ‘ کو بتایاکہ ’’ہمیں یہ بات سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ لوگ آتش پرستوں کی اولاد ہیں اور مسلمانوں اور بالخصوص سنیوں سے ان کی دشمنی بہت پرانی ہے‘‘۔ یہ چپقلش اس وقت مزید شدید ہوئی جب ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بعد میں مفتی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سعودیوں اور انتہا پسندوں میں کوئی فرق نہیں جنہیں یہ لوگ پروان چڑھاتے ہیں۔
سکیورٹی اورقیام کے معاملات پر مذاکرات کی ناکامی کے بعد تیس سال میں پہلی دفعہ ایرانی اس سال حج کی ادائیگی میں شریک نہیں ہوسکے۔ لیکن ظاہری طور پر مذہبی نظر آنے والے ان تضادات کی بنیاد درحقیقت مذہبی یا فرقہ وارانہ نہیں ہے۔ دراصل یہ خطے میں اثرورسوخ کے لیے سعودی عرب اور ایران کے درمیان لڑی جانے والی سرد جنگ ہے جس میں حالیہ کچھ عرصے میں شدت آئی ہے۔ اس صورتحال کو بالخصوص شام میں جاری پراکسی جنگ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں تھیوکریٹک ریاستیں ہیں، جس میں ایران دنیا کے شیعوں اور سعودی عرب سنیوں کی نمائندگی کا دعویدار ہے۔ اس لیے دونوں نے اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ میں تبدیل کردیا ہے جس سے مذہبی تقسیم مزید شدید ہوگئی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی بیشتر تاریخ میں سنی اور شیعہ ساتھ ساتھ رہے ہیں اور خطے کی سیاست میں سنی شیعہ تضادات زیادہ اہم نہیں تھے۔ لیکن 2003ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کرکے صدام حسین کو ہٹایا تو معاملات یکسر تبدیل ہوگئے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ صدام حسین کے تعلقات خراب تھے (اس کے باوجود سعودی عرب نے 1980ء کی دہائی کی جنگ میں ایران کے خلاف صدام کی حمایت کی تھی) اور دونوں اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ صدام حسین نے مشرق وسطیٰ کی طاقتوں کے درمیان ایک نحیف سا توازن قائم رکھا ہوا تھا اور عراق کی فوج خطے کی سب سے بڑی اور پروفیشنل فوج تھی۔ عراقی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ نے اس انارکی اور تباہی کو جنم دیا جس میں فرقہ وارانہ تضادات پروان چڑھے بھی (ماضی میں صدام کے شیعہ آبادی پر جبر کے رد عمل میں) اور امریکی سامراج کی جانب سے پروان چڑھائے بھی گئے۔ بعد ازاں 2011ء میں جب عرب بہار کے انقلابات کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں حکومتیں گرنا شروع ہوئیں تو سعودی عرب اور ایران نے اپنے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کو زائل کرنے کے لیے دانستہ طور پر فرقہ وارانہ تضادات کو مزید ہوا دی اور اپنے داخلی جبر کے لئے ’بیرونی دشمن‘ تراشنے کو سنی شیعہ فرقہ واریت کو پروان چڑھایا۔ مثلاً یمن میں ہوثیوں کو سعودی حکمران ایک ایرانی حمایت یافتہ قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایران کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب نے یمن میں فوجی مداخلت کی جہاں اس کی کٹھ پتلی حکومت کو ہوثیوں کی بغاوت نے اکھاڑ پھینکا تھا۔ اس فتحیابی میں ایران کی باغیوں کے لئے مدد نے ایک اہم کردار ادا کیاتھا، جن کی جزوی شیعہ شناخت (ایران کے اندازوں کے مطابق) ایک مؤثر سعودی مخالف پراکسی بن سکتی تھی۔ خطے کی کمزور ریاستوں میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے اپنے مذہبی فرقوں کی حمایت کی تاکہ اپنے سامراجی مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ چند ہی سالوں میں فرقہ واریت ایک ناسور بن گئی۔ مسلح پراکسی گروہ اس بد قسمت خطے کی عوام کے خلاف خوفناک جرائم، لوٹ مار اور مظالم ڈھا رہے ہیں۔
اسی پراکسی جنگ نے شام کو تاراج کر دیا ہے۔ عرب انقلاب کے زیر اثر شام کے عوام نے بھی بغاوت کی تھی۔ لیکن شامی حکومت ایران کی اتحادی ہے جس کا مطلب سعودی عرب سے چپقلش ہے۔ سعودیوں اور دوسری خلیجی عرب ریاستوں نے (اس وقت امریکہ کی پوری حمایت سے) فرقہ وارانہ مذہبی جنونی گروہوں کو مسلح کیا۔ اپنے شیعہ مخالف نظریات کی وجہ سے وہ ایران کے خلاف اور سعودیوں کے وفادار یا نسبتاً قریب تھے۔ ایران نے بھی تقریباًیہی حکمت عملی اختیار کی اور شام کی جنگ کو’ شیعوں‘کے قتل عام سے تشبیہ دی۔ ایران نے عراق اور لبنان سے بڑی تعداد میں شیعوں ملیشیاؤں کو سعودی اور امریکی پراکسی گروہوں کے خلاف شام میں متحرک کیا۔
گزشتہ کچھ عرصے میں تیل کی قیمتوں کی گراوٹ، بے نظیر معاشی اور سماجی بحرانوں کی وجہ سے سعودی بادشاہت انتہائی غیر مستحکم ہو چکی ہے۔ ایسے میں کوکھلے اقتدار کو سہارا دینے کے لئے ان کا مذہب اور جبر پر انحصار بہت بڑھ گیا ہے۔ ’اعتدال پسندی‘ کے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود ایرانی ملاں اشرافیہ بھی داخلی جبر میں سعودیوں سے کچھ کم نہیں ہے۔ ایرانی عوام کی اکثریت انتہائی مشکل معاشی اور سماجی حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔ ایران میں 2009ء کی وسیع احتجاجی تحریک صرف ایک ٹریلر تھا، مستقبل میں اس سے زیادہ جارحانہ تحریک کے امکانات موجود ہیں۔
اندرونی تضادات پر قابوپانے کیلئے ’بیرونی دشمن‘ سے لفظوں کی جنگ کو استعمال میں لایاجاتا ہے۔ ایران سعودی تضادات میں براہ راست جنگ وجدل کے امکانات بہت ہی کم ہیں کیونکہ ایسے میں تیل کی قیمتیں بہت اوپر چلی جائیں گی جس سے پہلے سے کمزور عالمی معیشت زیادہ گہرے بحران میں چلی جائے گی۔ امریکی سامراج نے اپنی کمزوری اور خطے سے پسپائی کے عالم میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا جو سعودیوں، اسرائیل اور خطے میں اسکے عرصہ دراز سے اتحادیوں کے لیے کافی بڑا دھچکا تھا۔ امریکہ کو فی الوقت عراق اور شام کے بے قابو انتشار میں استحکام پیدا کرنے والی قوت کے طور پر ایران کی ضرورت ہے اور ایرانی حکمران اس موقع کو خوب استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن سعودی آخری حد تک اس کی مخالفت کریں گے۔
اپنے اس پرانے اتحادی کو مطمئن کرنے کے لئے امریکی سامراج سعودی عرب کو ’مزید‘ ایک اَرب ڈالر کا اسلحہ فراہم کرنے کا معاہدہ کررہا ہے۔ اس سے پہلے بھی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ 10 اَرب ڈالر کے اسلحے کے معاہدے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کی صہیونی ریاست کو اپنی حمایت کی یقین دہائی کے لیے امریکی سامراج نے بدھ کے دن ایک بڑا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت اسرائیل کو اگلے دس سالوں میں 38 اَرب ڈالر کی فوجی امداد دی جائے گی جو امریکی تاریخ کی سب سے بڑی امداد ہے۔ یہ امریکی اسلحہ یمن اور فلسطین کے بے گناہ اور برباد عوام کا خون ہی بہائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی اس بے دریغ فروخت سے خطے میں پراکسی جنگیں، خونریزی اور بربادی مزید بڑھے گی۔
مذہبی فرقہ واریت ان تھیوکریٹک ریاستوں کے ہاتھ میں ایک ایسا اوزار ہے جسے داخلی اور خارجی جبر میں استعمال کرتی ہیں۔ اس بربریت کو ختم کرنے کا واحد راستہ ان جابر اور رجعتی ریاستوں کے خلاف محکوم عوام کی طبقاتی تحریک ہے۔ محنت کش طبقات، بیروزگار نوجوانوں اور غریب عوام میں ہر مذہب، قوم، نسل اور فرقے کے لوگ شامل ہیں۔ طبقاتی بنیادوں پر یکجہتی اور جدوجہد ماضی کے ان تعصبات کو دھو ڈالے گی۔ اس کی ایک جھلک ہم نے 2011ء کی تحریک میں دیکھی تھی۔ عوام کو پھر سے اٹھنا ہوگا۔ اس تحریک کی فتح نہ صرف خونریز پراکسی جنگوں کا خاتمہ کرے گی بلکہ ان جابر ریاستوں کو بھی مٹائے گی جو دنیا بھر میں رجعت اور فرقہ واریت کا ماخذ ہیں۔
متعلقہ: