سعودی عرب: معاشی بحران اور غیر ملکی محنت کش

| تحریر: عاصم اختر |

سعودی عرب اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرنے والا ملک خام تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے معاشی طور پہ ایک گہرے بحران کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹس کے مطابق سعودی عرب کی رواں سال شرح نمو گزشتہ 14 سال میں سب سے کم ترین سطح تک پہنچنے والی ہے اورایک اندازے کے مطابق اس سال کی شرح نمو 1.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ سعودی عرب کی ریاستی آمدن کا تقریباً 90 فیصد حصہ خام تیل کی مد سے حاصل ہوتا تھا جو گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اسی سال سعودی حکومت نے اپنے روزانہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے محفوظ ذخائر سے 80 بلین ڈالرز مختص کیے ہیں۔ اندرون ملک سے سعودی حکومت نے 20 بلین ڈالرز کے قرضے اٹھائے ہیں۔ یہ قرضے سعودی حکمرانوں نے مستحکم سمجھے جانے والے مالی اور کاروباری اداروں سے حاصل کئے ہیں جن میں الراجحی بنک اور سعودی بن لادن گروپ سرفہرست سمجھے جاتے ہیں۔ اس سال سعودی حکومت کے پیش کردہ بجٹ کے مطابق حکومتی اخراجات میں خسارے کا تناسب 98 بلین ڈالرز تک ہے۔

Screen Shot 2016-05-01 at 11.42.34
کچھ ہفتے قبل بن لادن کمپنی سے نکالے جانے والے محنت کشوں نے کئی مہینوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مکہ میں بسوں کو آگ لگا دی تھی۔

ایک طرف مالی بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے تو دوسری طرف سعودی عرب کی آبادی میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سعودی عرب کی آبادی میں گزشتہ سال کے دوران 2.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور گزشتہ سال کے اختتام پر مملکت کی آبادی تین کروڑ پندرہ لاکھ ہوچکی ہے۔ سعودی عرب کے مرکزی محکمہ شماریات اور اطلاعات کے مطابقملک کی کُلآبادی میں دو کروڑ گیارہ لاکھ سعودی ہیں جو مجموعی آبادی کا 67 فیصد ہیں جبکہ تارکین وطن کی تعداد ایک کروڑ چار لاکھ ہے جو کل آبادی کا 33 فیصد ہیں۔ 2015ء کے دوران سعودی عرب کی آبادی میں 751000 نئے نفوس کا اندراج کیا گیا تھا۔ ان میں 427000 سعودی اور 324000 تارکین وطن تھے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ محکمہ شماریات کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2004ء میں سعودی عرب کی آبادی دو کروڑ چھبیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی،2005ء میں اس میں 3.4 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر دو کروڑ تینتیس لاکھ ہوگئی تھی۔ 2010ء میں سب سے زیادہ شرح سے آبادی میں اضافہ ہوا تھا،اس سال سعودی عرب کی آبادی 8.6 فی صد کی شرح سے بڑھی تھی اور دو کروڑ 54 لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ 76 لاکھ ہوگئی تھی۔ سعودی عرب کے ساحلی تجارتی شہر جدہ اور جبیل میں غیرملکی تارکین وطن روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں اور آبادی کے حالیہ تخمینوں کے مطابق ان دونوں شہروں میں تارکین وطن کی آبادی سعودی شہریوں سے بڑھ چکی ہے۔ مشرقی صوبے میں واقع شہر جبیل میں تارکین وطن کی تعداد دو لاکھ 43 ہزار ہے جبکہ سعودیوں کی تعداد دو لاکھ پانچ ہزار ہے۔ جدہ میں مقیم تارکین وطن کی تعداد 21 لاکھ 30 ہزار ہے اور سعودی شہریوں کی تعداد 19 لاکھ ہے۔ الغط میں 8800 سعودی مقیم ہیں جبکہ تارکین وطن کی تعداد 8158 ہے۔
ملکی معیشت کی ڈوبتی کشتی کے اثرات جہاں سعودی مقامی آبادی پہ پڑے ہیں وہاں ایک کروڑ سے زائد تارکین وطن جو اپنے پیٹ پالنے کی خاطر وہاں اپنی محنت بیچ رہے ہیں وہ بھی بری طرح اس بحران کی زد میں ہیں۔ کسی آزاد میڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے سعودی عرب میں محنت کشوں کے دن رات کا کرب پہلے اتنا کھل کر نمایاں نہیں ہو پایا تھا مگر سوشل میڈیا کی موجودگی نے ان حالات پہ پڑے تمام تر پردوں کو چاک کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس سال کے آغاز سے ہی مختلف کمپنیوں میں مزدوروں کے احتجاج دیکھنے کو ملے، جن میں سعودی عرب کی سب سے مستحکم سمجھی جانے والی کمپنی سعودی بن لادن گروپ کے مزدور سرفہرست ہیں۔ دوران حج کرین گرنے کے حادثے کو سیفٹی غفلت کا نام دیکر اس گروپ کی اجارہ داری کو کم کرنے کے لیے جب پالیسی سازوں نے کمپنی پہ پابندیاں عائد کی تو انکا شکار 50 ہزار سے زائد تارکین وطن ہوئے جو گزشتہ ایک سال سے تنخواہوں سے محروم ہیں اور روز کمپنی کے مختلف دفاتر کے باہر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور تعمیراتی کمپنی ال سعد گروپ کے 10 ہزار سے زائد مزدور گزشتہ 9 ماہ سے تنخواہوں کے حصول کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستانی محنت کشوں کی بڑی تعداد جدہ اور دمام میں موجود ہے۔ گزشتہ دنوں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے شاہد نامی نوجوان محنت کش نے کفیل کی طرف سے تنخواہ نہ ملنے اور وطن واپسی کی سہولت کی فراہمی سے انکار پہ تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ خودکشی کرنے والے نوجوان کی تصویر سوشل میڈیا پر آنے سے حالات کی ابتری کا کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت سعودی عرب کے مختلف شہروں میں 35 چھوٹی بڑی کمپنیوں میں محنت کش تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور خوراک و علاج کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دمام میں 8 ہزار سے زائد پاکستانی محنت کش بجلی ،پانی، خوراک ا ور علاج کی سہولیات سے محروم ایک کیمپ میں محصور ہیں جو وطن واپسی کے خواہش مند ہیں مگر اقامہ تجدید نہ ہونے کی وجہ سے سفر کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ یہ خبر مختلف ذرائع ابلاغ سے سامنے آنے کے بعد حکومت پاکستان نے بھی مزدوروں کے ساتھ بھونڈے مذاق کو مناسب سمجھا اور وزارت محنت و افرادی قوت کی طرف سے خوراک کے کچھ لقمے عنایت کیے جنہیں محنت کشوں نے اپنی توہین سمجھتے ہوئے مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں سفری سہولیات فراہم کی جائیں۔
یہ وہ چند واقعات ہیں جو کسی طرح میڈیا پر سامنے آئے ہیں۔ انڈیا اور فلپائنی حکومتوں نے بھی سعودی حکام سے اپنے شہریوں کی طرف سے موصول ہونے والی شکایات کے تناظر میں رابطے شروع کر رکھے ہیں۔ فی الحال سعودی عرب کی معاشی گراوٹ کا یہ سلسلہ رکتاہوانظر نہیں آ رہا اور اگر یہی تنزلی برقرار رہی تو ایک کروڑ سے زائد غیر ملکیوں کا سعودی عرب میں رہنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اس کے اثرات نہ صرف خود سعودی معاشی شرح نمو پہ مزید گھمبیر ہونگے بلکہ بیروزگاروں کا ایک بڑا ریلہ پہلے سے زبوں حالی کا شکار تیسری دنیا کو لوٹے گا۔ شب و روز کے اس گھن چکر میں پسنے والے مزدور کے پاس ایکتا کیساتھ لڑنے اور ایک مزدور انقلاب کے سوا نہ ہی مشرق وسطی میں کوئی راستہ نظر آتا ہے اور نہ ہی انڈیا، پاکستان اوربنگلہ دیش جیسی ٹوٹی پھوٹی ریاستوں میں کوئی حل موجود ہے۔

متعلقہ:

خلیجی ممالک میں دربدر غیر ملکی محنت کش، جائیں تو جائیں کہاں؟