سرمایہ دار لٹیرے ہیں!

کچھ ایسے وردی والے ہیں
جو ہم پر رعب جماتے ہیں
کچھ مذہب کے رکھوالے ہیں
جو ناحق خون بہاتے ہیں
ہر محنت کش نے ہاتھوں میں
اب تھامے سرخ پھریرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
یاں دانشور حق لکھنے پر
زنداں میں ڈالے جاتے ہیں
یاں جاہل لوگ حکومت میں
کالے قانون بناتے ہیں
ان اہلِ حَکم کی سوچوں میں
اب تک تاریک سویرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
یہ ملکی دولت لوٹتے ہیں
اور پھر بھی شان سے جیتے ہیں
یہ کیسے اپنے رہبر ہیں
جو خون ہمارا پیتے ہیں
اس خون کے دم سے قائم ہیں
جو ان کے اونچے ڈیرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
یوں کب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے
ہم بیٹھے اشک بہائیں گے
تم دیکھنا اک دن ہم مل کر
ہر ظالم سے ٹکرائیں گے
ان کی کرتوتوں کے باعث
اس دیس میں آج اندھیرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں
وہ دن بھی طاہرؔ آئے گا
جو دیس میں خوشیاں لائے گا
ہر دہقاں، ہر مزدور یہاں
پھر ایک ترانہ گائے گا
یہ ملیں بھی، یہ ڈیرے بھی
سب میرے ہیں، ہاں میرے ہیں
سرمایہ دار لٹیرے ہیں
نہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں

ڈاکٹر طاہرؔ شبیر