| تحریر: لال خان |
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گلبدین حکمت یار کے خلاف عائد پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکمت یار حزب اسلامی نامی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ ہے اور 1978ء کے افغان انقلاب کے خلاف امریکی سامراج کی پشت پناہی سے لڑی جانے والی رد انقلابی جنگ اوراس کے بعد 1990ء کی دہائی میں افغان خانہ جنگی کا بدنام زمانہ کمانڈر رہا ہے۔ سلامتی کونسل کے اس فیصلے سے قبل ستمبر میں افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور حکمت یار کے بڑی حد تک خاموش گروپ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے حکمت یار کو ماضی کے تمام حملوں، دہشت گردی اور قتل عام سے عام معافی دیتے ہوئے اس کے مکمل ’’سیاسی حقوق‘‘ بحال کر دیے گئے ہیں۔ حزب اسلامی سے تعلق رکھنے والے کئی قیدی رہا کر دئے گئے۔ اقوام متحدہ نے حکمت یار کے منجمد شدہ اثاثے بھی بحال کر دیے ہیں اور اس پر عائد سفری اور اسلحے کی پابندی اٹھا لی ہے۔
بظاہر اس کا مقصد حکمت یار کے ذریعے حکومت اور طالبان کے دھڑوں اور دوسرے متحارب گروپوں کے ساتھ ’امن معاہدہ‘ کرنے کی کوششیں ہیں یا پھر اس اقدام سے طالبان اور دیگر مسلح گروپوں کی مذاکرات میں شمولیت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ناٹو افواج شکست خوردہ ہو کر پسپائی اختیار کر چکی ہیں اور دسمبر2014ء میں ان کے فوجی آپریشن رسمی طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ اسکے باوجود گزشتہ برس جولائی میں افغانستان میں تعینات 8400 امریکی فوجیوں کو طالبان کے خلاف حملے کرنے کے مزید اختیارات دئیے گئے ہیں اور سابق امریکی صدر اوباما نے مزید جارحا نہ حکمت عملی اپنانے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ شکست خوردہ سامراج کے فرار کی ایک مایوس کن کوشش تھی جس کا انہیں الٹا نقصان بھگتنا پڑ گیا۔ 2016ء میں ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد پچھلے تین برس میں سب سے زیادہ تھی۔ 9 فروری 2017ء کو افغانستان میں قابض افواج کے سربراہ امریکی جنرل جان نکلسن نے امریکی کانگریس سے ہزاروں مزید فوجیوں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی سفارش کے علاوہ جنرل نے کہا کہ ’’میرے خیال میں ہم ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں‘‘۔ امریکہ سمیت دوسرے کئی سامراجی ممالک نے ستمبر2016ء کے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے افغانستان میں قیام امن کی راہ میں ایک اہم قدم قرار دیا۔ یہ بذات خود ان کے خصی پن اور اس جنگ میں ان کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ سولہ سال سے جاری یہ جنگ امریکی تاریخ میں کسی ملک پر طویل ترین قبضہ ہے۔
مغربی سامراجی طاقتوں کی شکست اور زوال کی موجودہ کیفیت میں افغانستان میں علاقائی سامراجی قوتوں کی مداخلت بڑھ گئی ہے۔ روس، ہندوستان، ایران، چین اوربلا شبہ پاکستان ایک پراکسی جنگ میں ملوث ہیں اورمختلف جنگجو سرداروں، قوم پرستوں اورطالبان کے مختلف دھڑوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں داعش کے مبینہ طورپرابھرنے سے اس جنگ کے پرانے کھلاڑی خودکو خطرے میں محسوس کررہے ہیں۔ کئی اسلامی بنیاد پرست گروہوں نے اپنی دہشت کو بڑھانے کے لیے داعش کانام استعمال کرناشروع کر دیاہے تاکہ بھتے، منشیات، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی آمدن میں اضافہ کیا جا سکے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت بہت نحیف اوراس کی عملداری بہت محدود ہے۔ اگرآج امریکی فوجی نکل جائیں تو یہ حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس پر حکومت اورایجنسیوں کے اندرونی اختلافات بھی شدیدہیں۔ نام نہادصدر اشرف غنی اورچیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ کے درمیان سیاسی کشمکش شدت اختیارکرتی جارہی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں افغان کونسل خانے میں ایک سفارت کارکے قتل کو اسی اندرونی لڑائی کا حصہ قراردیاجارہاہے۔ اشرف غنی طالبان اوردوسرے گروپوں کی طرح اپنے داخلی اتحادی بدلتارہتاہے۔ پہلے اس کاجھکاؤپاکستان کی جانب تھالیکن ایک سال بھی نہیں گزراکہ وہ ہندستان کی جانب چلا گیا۔ لیکن ہندوستان روایتی طورپرشمالی اتحاد کا حامی رہا ہے جو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ہیں۔
حکمت یارکے ساتھ طے پانے والی یہ ڈیل اورمسلسل اتحادبدلنے کا یہ عمل اشرف غنی کی حکومت کی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے۔ حکمت یار1992ء میں غداری کے نتیجے میں نجیب حکومت کے خاتمے کے بعدبننے والی حکومت میں کچھ عرصے کے لیے وزیراعظم کے عہدے پرنامزد رہا ہے۔ ایک صحافی نے اسے’’قابل قصاب‘‘قراردیاتھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق وہ’’افغانستان میں جنگی جرائم کے بدنام ترین ملزموں میں شمارہوتاہے‘‘اوراس کی واپسی سے ’’ سزاسے بچ نکلنے کی روایت مزید مضبوط ہو گی‘‘ جس کی وجہ سے اس کی افواج کے مظالم کے شکارکئی افرادانصاف سے محروم ہیں۔
6 اکتوبر2016ء کو الجزیرہ کے ایک مضمون کے مطابق’’1990ء کی دہائی میں خانہ جنگی میں اقتدارحاصل کرنے کے لیے وہ (حکمت یار) تمام متحارب دھڑوں کے ساتھ اتحادبناتارہاجن میں اس کے بدترین دشمن مثلاً ازبک لیڈرجنرل عبدالرشید دوستم، ہزارہ لیڈرعبد العلی مزاری شامل ہیں…گزشتہ 30 برسوں میں وہ امریکہ، پاکستان، سعودی عرب اورایران کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا تنخواہ خوار رہا ہے… خانہ جنگی کے دوران منصب صدارت کے حصول کی خاطراس نے کابل پر ہزاروں راکٹوں سے حملے کیے جن میں ہزاروں شہری ہلاک اورزخمی ہوئے… اسکے ماضی پرنظرڈالیں تو پھراس نئی امن ڈیل میں حکمت یارکے ساتھ اس کی سفاکی اورہوس اقتدار بھی لوٹ آئے گی‘‘۔
افغانستان میں سامراجی بری طرح پٹ چکے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طالبان کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ ایسے میں ہرحکومت غیرمستحکم اوراسکی اتھارٹی بہت محدود ہے اور رہے گی۔ نسلی اورقومی بنیادوں پرکوئی تحریک نہیں بن سکتی بلکہ اس سے مزید انتشارپھیلے گا۔ مذہبی اورفرقہ وارنہ اتحاداور گروپ محض نام کی حدتک موجودہیں۔ یہ سب زیادہ تر جرائم پیشہ گینگ ہیں اور ان کے لیڈرعام سپاہیوں پرکنٹرول برقراررکھنے کے لیے مذہب اورنسل کو استعمال کرتے ہیں۔ ان سپاہیوں کی تنخواہیں اکثرافغانستان کی قومی فوج سے زیادہ ہوتی ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایک خونریزی کے نتیجے ملک جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ لیکن صدیوں سے جاری ان جنگوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی کوئی سامراجی قوت افغانستان پر قابل ذکروقت تک قبضہ برقرار رکھ سکی ہے۔ لیکن موجودہ پاکستان اور کسی حدتک ایران میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ صدیوں گھلنے ملنے سے ایک ایسی جڑت پیدا ہوئی ہے جس میں تنازع بھی ہے اور اخوت بھی۔ تاریخ کے کئی مراحل میں مختلف حکمرانوں اور ان کی ریاستوں کی تشکیل سے اس خطے کے محروم اور مجبور عوام کی ثقافتی اور سماجی جڑت میں اضافہ ہوا ہے۔ لسانی اور مذہبی قربت اس اپنائیت کو گہرا کرتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف غیر ملکی حملہ آ وروں اور سامراجوں کی جارحیت کو مل کر سہا ہے بلکہ ان کی اپنی قوم، مذہب، فرقے، برادری اور قبائل کی اشرافیہ نے انہیں بار باردھوکے دیے ہیں۔ اس استحصال اور ظلم کے نتیجے میں ایک بلند سطح کی جڑت نے جنم لیا ہے، یہ محنت اور طبقے کی جڑت ہے۔
اگر یہ لڑائی موجودہ سرحدوں کو عبور کر چکی ہے تو پھر آنے والی تحریکیں اور انقلابی بغاوتیں بھی ان سرحدوں، نسلوں، قومیتوں، مذہبی منافرتوں اور ماضی کے تعصبات کی تمام تقسیموں کو رد کر دیں گی۔ آخر ثور انقلاب کے بعد امریکی سامراج کی جانب سے ڈالر جہاد شروع کرنے کا بنیادی مقصد اس انقلاب کو ہمسایہ ممالک اور علاقوں تک پھیلنے سے روکنا ہی تھا۔ یہ انقلاب اگر پھیلتا تو خطے میں سامراجی مفادات اور بالا دستی پر ایک کاری ضرب ثابت ہوتا۔ سامراجی اس خطے کے عوام میں پھیلتی ہوئی انقلابی لہر کو بھانپ رہے تھے۔ چناچہ سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن لانچ کیا گیا۔ آج کی افغان نسل نے اس دور کے بارے میں صرف سنا ہی ہے جب انکا ملک صدیوں کے بہیمانہ استحصال اور ظلم سے باہر نکلنا شروع ہوا تھا۔ یہ انقلابی روایات اس اندھیرے راستے کے پار امید کی وہ کرنیں ہیں جو آنے والے عہد میں ان تحریکوں کو پھر سے ابھار سکتی ہیں جو مستقبل کو امن، خوشحالی او ر عوام کی نجات سے بھرپور بنا سکیں۔ اس خطے کے مجبور طبقات کے لیے واحد راستہ بنیاد پرستی کی دہشت گر دی اور سامراجی قبضے کی بنیاد اس کالے دھن اور سرمائے کے چنگل سے انقلابی آزادی ہے۔
متعلقہ: