| تحریر: لال خان |
پچھلے چند برسوں سے عالمی معاشی بحران نے جس سفارتی اور عالمی طاقتوں کے توازن میں ہلچل پیدا کی ہے اس میں پیوٹن اور روس کو کارپوریٹ میڈیا زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس ایک بڑی طاقت ہے، امریکی سامراج داخلی معاشی اور سماجی بحران سے تنزلی کا شکار ہے، یورپ شدید اقتصادی انتشار میں ہے لیکن صورتحال روسی سپرپاور کی بھی اندر سے بہت کھوکھلی ہے۔ جابرانہ ’’جمہوریت‘‘ اور داخلی مخالفت کو کچلنے کی پالیسی، خارجی تضادات مثلاًشام، یوکرین اور کریمیا میں فوجی مداخلت اور ایران، ترکی اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پسپائی سے جنم لینے والے خلا کو پر کرنے کی پالیسیوں کے باوجود بھی پیوٹن کی مقبولیت عارضی اور جذباتی نوعیت کی ہے۔

جوں جوں روس میں داخلی طو رپر اقتصادی اور معاشرتی بحران بڑھے گا پیوٹن کی یہ جارحانہ پالیسیاں خارجی اور داخلی طورپر بھی مزید شدت اختیار کریں گی۔ پچھلے دوسال سے روسی معیشت ایک گہری تنزلی کا شکار ہے۔ پچھلے دو سالوں سے جی ڈی پی کی شرح نمو مسلسل منفی میں ہے یعنی معیشت سکڑ رہی ہے اور Recession میں ہے۔ یہ ایک مزید بڑے اقتصادی زوال میں گر سکتی ہے۔ اس میں اہم عناصر تیل کی قیمتوں میں شدید کمی، مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیاں اور گرتی ہوئی بیرونی سرمایہ کاری ہے۔ یوکرین اور شام میں فوجی کاروائیوں نے بھی روس کے خزانے کو بری طرح نچوڑا ہے۔ یوکرین میں بحران سے الٹا روس سے مالیاتی سرمائے کی باہر کے ممالک میں اڑان تیز ہوگئی ہے۔ 2014ء میں 160 ارب اور 2015ء میں 180 ارب ڈالر یہاں سے باہر منتقل کیے گئے۔ بجٹ کاخسارہ 95 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے اور روسی کرنسی روبل کی قیمت آج 2014ء کی نسبت 90 فیصد کر گئی ہے۔ لیکن ہر سرمایہ دارانہ معاشرے کی طرح روس میں بھی معاشی بحران کی یہ برق غریبوں پر ہی گری ہے۔ افراطِ زر ایک سال میں 7 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہوگیا ہے۔ بہت سی غذائی اشیا جو روس یورپ اور امریکہ سے درآمد کیا کرتا ہے پابندیوں کی وجہ سے انکی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً گوشت کی قیمت میں 20 فیصد، آلو 66 فیصد، پیاز40 فیصد مہنگا ہوا ہے۔ فروری 2016ء کے آخر سے روس کی سپر مارکیٹوں میں 20 اہم ضروریات کی اشیا کی قلت پیداہوچکی ہے۔ لیکن ان غذائی اور دوسری اہم استعمال کی اشیا کی مہنگائی اور قلت کے علاوہ علاج اور صحت کی سہولیات کی عوام کو فراہمی میں بھی بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ دارالحکومت ماسکو میں بھی ہسپتالوں کے ایک چوتھائی ’آؤٹ ڈور‘ اور ’ان ڈور‘ یونٹ بند ہوچکے ہیں۔ اس سے باقی علاقوں کی صورتحال کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی صورتحال تعلیم کے شعبے میں بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی معاشی اور صنعتی زوال کے ساتھ برطرفیوں اور بیروزوگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ روس کی وزارتِ لیبر کے مطابق 2014ء میں 1,58,000 ملازمتیں ختم کی گئیں جبکہ 2015ء کے صرف پہلے دو ماہ میں 1,27,000 ملازمتوں کو ختم کیا گیا۔ صنعتی شعبے میں ان کٹوتیوں کے علاوہ تعلیم اور دوسرے شعبوں میں اساتذہ اور دوسرے تکنیکی اور سرکاری ملازمین کی برطرفیاں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ روس کی 83 میں سے 63 علاقائی حکومتیں اس وقت دیوالیے کا شکار ہورہی ہیں۔ اس وقت ان صوبائی اورمرکزی حکومتوں کا قرضہ 300 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ پیوٹن کے پاس اب جبر کے علاوہ کوئی اور ہتھکنڈا نہیں ہے جس سے وہ اس بحران کے سیاسی اور سماجی مضمرات کو دبانے کی کوشش کرے۔ لیکن اس کی موجودہ مقبولیت کے باوجود جوبغاوت کی پہلی لہریں ابھر رہی ہیں آنے والے دنوں میں وہ طوفانی روپ اختیار کریں گی تو ان کو ریاسی جبر سے کچلنا ممکن نہیں رہے گا۔
1991ء میں جب سوویت یونین کا انہدام ہو اتھا تو مغرب میں ایک بے ہودہ جشن منایا گیا تھا۔ سامراجیوں کا خیال تھا کہ اب ان کی طاقت اور وحشت کوکوئی چیلنج کرنے والا نہیں رہے گا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی اس وقت یورپی یونین بننے کا آغاز ہورہا تھا، معیشت میں قدرے ترقی کے رحجانات تھے اور ان بنیادوں پر وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ روس میں ایک تابعدار حاکمیت قائم ہوگی۔ وہ آسانی سے اسکی منڈیوں پر قبضہ کرلیں گے اور انکی منافع خوری اور دولت میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ ابتدا میں بورس یلسٹن جو رد انقلاب اور سرمایہ داری کی استواری کے بعد روس کا صدر بنا تھا وہ مغرب کا پیروکار بھی تھا اور ہر وقت نشے میں دھت بھی رہتا تھا۔ لیکن روس میں اس نظام زر کے غروب کے عہد میں سرمایہ داری کی جو شکل ابھری وہ قطعاً کوئی ترقی پسندانہ یا ’’جمہوری‘‘ کردار نہیں رکھتی تھی بلکہ وہ ایک مجرمانہ یا مافیا سرمایہ داری تھی۔ یورپ کو لوٹنے سے پیشتر روس میں ابھرنے والے غنڈہ گرد سیٹھوں نے اپنی تجوریاں بھرنی شروع کردیں اور یورپ خصوصاً لندن میں اس لوٹ مار سے محلات خریدے اور بدقماشیوں کی انتہاکرنا شروع کردی۔ اس کانتیجہ آخر کار پیوٹن کی شکل میں سامنے آیا جو مافیا سرمایہ داری کا ڈان بن کر ابھر ا ہے۔
مغرب کے لیے سوویت یونین کا ٹوٹنااور روس میں سرمایہ داری کی بحالی وبال جان بن گئی ہے۔ پیوٹن کوئی لینن نہیں ہے بلکہ لینن کا کٹر دشمن ہے۔ پیوٹن اپنے آپ کو ’زار‘ ( قدیم روس کے بادشاہوں کالقب) سمجھتا ہے۔ اسی لیے اس نے فوجی اور سفارتی جارحیت ایک انداتا کے انداز میں تیز کی ہے۔ لیکن اس سارے کھیل میں مغربی سامراجی اب پیوٹن کی بلا کو اسلامی بنیاد پرستی کی طرح یورپ، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو خوفزدہ کرنے اور عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اپنے داخلی جبر و استحصال کو جاری رکھنے کے لئے یہ مغربی حکمران پیوٹن کو ’بیرونی خطرے‘ کے طور پر اپنے ممالک میں ابھار رہے ہیں۔
روس کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں معیشت میں کالے دھن کی گہری سرائیت ہے۔ روس میں مرکزی حکومت کے ہیڈ کوارٹر کریملن میں 30 ارب ڈالر کی سالانہ کرپشن ہورہی ہے۔ جبکہ معاشرے میں اوسط عمر میں شدید کمی اور کم سن بچوں کی اموات میں بڑااضافہ ہورہا ہے۔ لیکن اس خستہ صورتحال میں بھی اب عوام میں اس نظام زر کے خلاف نفرت اور بغاوت کے جذبات ابھرنے شروع ہوگئے ہیں۔ روس میں ان کے پاس سوویت یونین کی شکل میں ماضی کی ایک ایسی یاد ہے جہاں کم از کم تعلیم، علاج، ٹرانسپورٹ، بجلی اور دوسری سہولیات عوام کو مفت حاصل تھیں اور روزگار کی ضامن ریاست تھی۔ امریکی جریدے نیوز ویک کے 13 اگست کے شمارے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’ایک چوتھائی صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کمیونسٹ نظریات روس میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ سماجی بہبود اور فلاحی سوویت یونین کی یادیں اب زیادہ شدت سے لوگوں کو گرما رہی ہیں۔ موجودہ روس میں معاشی کشمکش نے وسیع آبادی کوہلکان کردینے والی غربت اور محرومی کی ذلت میں دھکیل دیا ہے۔ اس سے کمیونسٹ پارٹی کی حمایت میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے‘‘۔
پیوٹن زیادہ لمبے عرصے تک بیرونی ’’شجاعت‘‘ کی داستانوں اورپراپیگنڈے سے عوام کو مائل نہیں کرسکتا۔ انکی توجہ اس بھوک اور ذلت سے ہٹا کر زیادہ عرصہ ان خارجی مہمات پر مبذول نہیں رکھی جاسکتی۔ روس میں ایک بڑی تحریک دیر سے نہیں شاید جلد ابھرے گی۔ سوویت یونین میں1917ء کا انقلاب 1925ء کے بعد زوال پذیر ہو کر 1932ء تک سوشلزم کی سٹالنسٹ مسخ شدہ شکل میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس زوال پذیری اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کی مشروط پیشین گوئی اس انقلاب کے قائدین ولادیمیر لینن نے1921ء اور لیون ٹراٹسکی نے1937ء میں واضح طور پر کی تھی۔ لینن نے انقلاب کو عالمی طور پر پھیلانے (بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں) کی ضرورت پر زور دیا تھا اور اسے بالشویک انقلاب کی بقا کے لئے ناگزیر قرار دیا تھا۔ اُس کے اسباق کو سٹالن نے مسترد کردیا۔ مزدور جمہوریت کو رفتہ رفتہ اکھاڑتے ہوئے سٹالن افسر شاہی کا نمائندہ بن کر ابھرا۔ یہ افسر شاہی سوویت معیشت پر ایک کینسر کی طرح پل کر بڑھتی چلی گئی۔ اس عمل کا نتیجہ سوویت یونین کی زوال پزیری اور انہدام کی شکل میں برآمد ہوا۔ لیکن اس کی جگہ جو سرمایہ داری آئی وہ اس سٹالنسٹ آمریت سے بھی زیادہ بدتر ثابت ہوئی ہے اور مسخ شدہ شکل میں ہی سہی لیکن منصوبہ بند معیشت نے جو سہولیات اور مراعات عوام کو دی تھیں ان کو چھین لیا گیا۔ ناکام اور نامراد سٹالنزم ہوا۔ کارپوریٹ میڈیا، سامراج اور اس کے حواریوں نے بدنام اور رسواسوشلزم اور کمیونزم کو کردیا۔ لیکن اکتوبر انقلاب کی سرزمین گواہ ہے کہ سوشلزم کے تحت چند سالوں میں معاشرہ سماجی، معاشی اور ثقافتی طور پر اتنی ترقی کرسکتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام صدیوں میں نہیں کرسکا اور نہ کر سکتا ہے۔