رپورٹ: انقلابی طلبہ محاذ (RSF) لاہور
مورخہ 2 مارچ کو لاہور میں ’Progressive Students Collective‘ اور این ایس ایف آزاد کے تعاون سے انقلابی طلبہ محاذ (RSF) کے زیر اہتمام ’سوشلزم کیوں؟‘ کے عنوان سے طلبہ کی ایک تربیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فارمن کرسچن کالج، پنجاب یونیورسٹی، دیال سنگھ کالج، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب اور شہر بھر کے دوسرے تعلیمی اداروں سے پچاس سے زائد طلبا و طالبات اور اساتذہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر سٹیج سیکرٹری کے فرائض ساشا جاوید ملک نے ادا کئے۔ سب سے پہلے اویس قرنی نے انقلابی طلبہ محاذ کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور نوجوانوں کے بنیادی مسائل کے حل کی جدوجہد کے لئے ترقی پسند طلبہ کی یکجہتی اور جڑت پر زور دیا۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ مستقبل میں بھی ایسی نظریاتی نشستوں کا انعقاد کیا جاتا رہے گا۔ اس کے بعد عمران کامیانہ نے موضوع پر بحث کا آغاز کیا۔ انہوں نے ملک میں طلبہ سیاست کی تاریخ، سوویت یونین کے انہدام اور اس کے سیاسی و سماجی مضمرات، سرمایہ داری کے بحران اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں جاری جنگوں، دہشت گردی، سیاسی انتشار اور معاشی جبر و استحصال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ آج امارت اور غربت کی خلیج پہلے کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں تک پہنچ چکی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور وسائل کی بہتات کے بیچوں بیچ انسانیت بھوک اور محرومی میں سسک رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی مدت پوری کر کے متروک ہو چکا ہے اور انسانیت کو آگے بڑھانے کی بجائی بربریت میں غرق کر رہا ہے۔ ایسا میں تمام تر سامراجی پراپیگنڈے کے برعکس مارکسزم کے نظریات آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں اور انقلابی سوشلزم ہی انسانیت کو منڈی کے اِس نظام کی وحشت اور ہر قسم کے طبقاتی، قومی اور جنسی استحصال سے نجات دلا سکتا ہے۔
موحیبہ احمد نے سرمایہ دارانہ نظام میں خواتین کے محکومی اور جنسی استحصال پر بات رکھی۔ انہوں نے پدر شاہی اور مردانہ تسلط کی سماجی بنیادوں پر روشنی ڈالی اور سوشلزم کی جدوجہد میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ سید رضا گیلانی نے طلبہ سیاست میں انقلابی نظریات کی اہمیت اور سوشلسٹ نظریات کو محنت کش طبقات تک لے جانے میں طلبہ کا کردار بیان کیا۔ مستحسن عباس نے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی بیگانگی، نفسیاتی تناؤ، بیروزگاری اور مستقبل کے خوف جیسے مسائل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام نوجوانوں کی صلاحیتوں اور ارمانوں کو کچل کے رکھ دیتا ہے اور ہر انسانی رشتے کو پیسے کی لالچ اور ہوس سے آلودہ کر دیتا ہے۔ آخر میں عمران کامیانہ نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹتے ہوئے واضح کیا کہ کیسے پسماندہ ممالک میں سرمایہ داری اپنے تاریخی فرائض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہر نوعیت کے جبر و استحصال سے پاک اور حقیقی معنوں میں انسانی معاشرے کی تعمیر کا آغاز کیونکر ممکن ہے۔ شرکا نے بحث میں بھرپور دلچسپی لی اور امید ظاہر کی کہ اس سلسلے کو آنے والے دنوں میں جاری رکھا جائے گا۔ اِس موقع پر طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز کی جانب سے سٹال لگایا گیا تھا جہاں سے انقلابی لٹریچر بڑی تعداد میں فروخت ہوا۔