انقلابی مارکسزم تاریخ کے آئینے میں

تحریر:وقار احمد:-

کسی بھی نظریئے کی تخلیق ،ترتیب اور ترقی کے لیے لازمی ہے کہ مروجہ سماج کے سیاسی ،معاشی اقتصادی ،سماجی اور موضو عی تضادات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والے واقعات کی فلسفے کی مدد سے توضیح اور تشریح کی جائے۔یوں کسی بھی نظریے کی سچائی کا دارو مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد جس فلسفے پر رکھی گئی ہے وہ سائنسی ہے یا محض مفروضوں پر مبنی ہے۔اس حوالے سے آج کے عہد کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تضادات کو سمجھا جائے اور ان کی درست فلسفیانہ تشریح کی جائے۔فلسفے اور سائنس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔فلسفے کا بنیادی سوال عوامل کے درپردہ اسباب کو دریافت کرنا ہے ۔یوں فلسفہ سائنس کا معاون بن جاتا ہے اور پھر سائنس فلسفے کو مزید نئے دلائل اور مواد فراہم کرتی ہے۔اس لچکدار توازن اور امتزاج سے مرتب اور منظم ہونے والے نظریات ہی سماجی ترقی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے سائنس اور فلسفے کی تمام تر سرمایہ دارانہ جانبداریت کے با وجود ایسی چشم کشا دریافتیں اور ایجادات ہر شعبہ ہائے زندگی میں سامنے آئی ہیں جن سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ آج کے عہد کے تمام معاشی ،سماجی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے والا فلسفہ سوائے مارکسزم کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اب اکیسویں صدی کے تمام مہان فلسفی، دانشور،سائنسدان ،ماہرینِ معیشت وسماجیات انتہائی تشکیک اور تجسس سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کہیں بوڑھا مارکس درست تو نہیں کہتا تھا۔
انسانی سماج کا تانا بانا انتہائی پیچیدہ اور پر انتشار ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اس میں ایک ترتیب اور نظم و ضبط بھی موجود ہوتا ہے۔سماج میں ہر سطح پر معاشی ،سماجی ،سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ان کا باہمی طور پر انحصار اس عہد کے ذرائع پیداوار کی ترقی اور کردار پر ہوتا ہے۔جب تک ذرائع پیداوار کی ترقی اور معاشی ،سماجی اور سیاسی ڈھانچوں میں مفاہمت اور یگانگت موجود رہتی ہے تو سماج میں خوشحالی، معیارِ زندگی کی بہتری اور شعوری اور مادی ترقی کی طرف سفر جاری رہتا ہے مگر ایک خاص وقت پر جا کر اس عمل میں شدید بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔بالآخر سماج کا معاشی اور سیاسی نظم و نسق ذرائع پیداوار کے پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔جب ذرائع پیداوار مٹھی بھر حکمران طبقات کے غلام بن جاتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی آبادی کی اکثریت کے معیارِ زندگی میں گراوٹ اور زبوں حالی کا دور دورہ شروع ہو جاتا ہے ۔حتیٰ کہ اکثریت ترقی تو درکنار اپنی بقا کی جدو جہد کے لیے ایڑیاں رگڑنا شروع کر دیتی ہے۔ایسی کیفیت میں حکمران طبقات سوائے مایوسی ،بدگمانی ،رجعتیت اور بد حالی کے اپنی رعایا کو اور کچھ نہیں دے سکتے اور ذرائع پیداوار کو ترقی دینے کی اہلیت سے نہ صرف محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ان کا گلا گھونٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ایسی صورتحال کی کوکھ سے سماجی دھماکے اور بغاوتیں جنم لیتی ہیں اورایک سنسنی خیز انقلابی عہد کا آغاز ہوتا ہے۔یہ انقلابی ادوار دہائیوں اور بعض اوقات صدیوں بعد وقوع پذیر ہوتے ہیں لیکن جب یہ آتے ہیں تو پیشگی اطلاع دے کر یا اعلان کر کے نہیں آتے بلکہ ان کے آنے سے قبل ان کے کبھی نہ آنے کی افواہیں اور سوچیں سارے سماج کے شعور اور روحوں کو مجروح کر رہی ہوتی ہیں۔قدامت پسند اخلاقیات اور سماجیات کے داعی اور مبلغ بن کر انسانی شعور اور احساس کے چہرے پر بد نما داغ بن جاتے ہیں۔ایسی صورتحال میں تمام فلسفوں اور نظریوں کا امتحان ہوتا ہے اور محض وہی نظریات امید کی مشعل لے کر میدانِ عمل میں اترتے اور سماجی شعور کو منور کرنے کا باعث بنتے ہیں جو وقت اور واقعات کی نبض کو پہچان کر مستقبل کی نجات اور نئی زندگی کی تعمیر کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔پھر بالآخر جب سماجی لاوا پھٹتا ہے تو گلیوں ،چوراہوں ،شاہراہوں ، کھیتوں اور فیکٹریوں میں ماضی کی فرسودگی ،درندگی اور جہالت سے ٹکرا جانے والے نئی نسل کے سپاہی ان نظریات کا علم تھام لیتے ہیں اور اس تاریخی معرکے میں ہار اور جیت کے نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے ایک نئے ،خوشحال اور پر وقار انسانی معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کا جنم بھی ایسے ہی انقلابات کے ذریعے ہوا تھا جس میں جاگیرداری اور پاپائیت کو شکستِ فاش دیتے ہوئے سرمایہ داروں نے جمہوری معاشروں کو تشکیل دیا اور ساتھ ہی پیداواری قوتوں کو بے مثال ترقی دی۔لیکن اس کے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام نے غلام داری سے چلے آنے والے طبقاتی تضاد کو نہ صرف یہ کہ ختم نہیں کیا بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ کر دیا اور اس نظامِ معیشت کے خمیر میں موجود عروج و زوال کے چکر اس تضاد کو بار بار مشتعل کر کے بڑھاوا دیتے رہے۔یہی وجہ تھی کہ ہمیں نہ صرف نو آبادیات بلکہ جدید قومی ریاستوں میں بھی با ربار انقلابات ابھرتے اور زائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کے ظہور کے ساتھ ہی اس کے ناقدین اور مخالفین بھی منظرِ عام پر آتے رہے۔ مختلف فلسفی اور دانشور بھی مسلسل بڑھتی ہوئی سماجی ناہمواری اور معاشی عدم مساوات کے خلاف لکھتے اور اپنے اپنے تئیں ان کے حل پیش کرتے رہے لیکن کوئی بھی ان سرمایہ دارانہ تضادات کا سائنسی تجزیہ نہ کر سکا جس کی وجہ سے مزدور تحریکوں میں انارکسزم اور یوٹوپیائی سوشلزم کے رجحانات حاوی رہے اور تحریکوں کو آسانی سے کچلا بھی جاتا رہا۔ایسی کیفیت میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے اس تاریخی فریضے کی ذمہ داری قبول کی اور ہیگل کی جدلیات کو مادی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ تضادات کا نہ صرف ایک سائنسی حل پیش کیا بلکہ عملی طور پر اس کو سیاسی جامہ پہنانے کے لیے سر توڑ کوششیں شروع کر دیں۔مارکس نے سائنسی خطوط پر مستقبل کی پیش بینی کرتے ہوئے یوٹوپیائی سوشلزم کو حقیقی قابلِ عمل سوشلزم کے نظریے میں بدل دیا۔مارکس نے جہاں سرمایہ دارانہ ناہمواری کے خلاف عملی جدوجہد کی اس کے ساتھ ساتھ مزدور تحریک کو نقصان پہنچانے والے خیال پرستانہ اور مہم جوانہ نظریات اور فلسفوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔اور مرتے دم تک وہ معاشی جبریت پرستوں اور انارکسسٹوں کے نظریاتی ابہام کے خلاف ایک شدید ترین فلسفیانہ جدوجہد میں مصروفِ عمل رہا ۔اور اسی جدل میں اس نے جو کچھ تحریر کیا وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بڑے فکری اور شعوری خزانے کے طور پر موجود ہے۔ایک نامور انارکسسٹ پرودھوں نے جب ’افلاس کا فلسفہ ‘ کے نام سے ایک مبہم تصوارتی خاکہ پیش کیا تو مارکس نے ’فلسفے کا افلاس‘ لکھ کر اس کو منہ توڑ جواب دیا۔اسی طرح ڈیورنگ نامی فلسفی نے جب اپنے مخصوص نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی تو اینگلز نے اینٹی ڈیورنگ لکھ کر اس کو بے نقاب کر دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس طبقاتی جنگ میں ریاست اور حکمران طبقات کے خلاف سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فلسفے کے میدان میں محنت کشوں کے نظریات کا دفاع بھی فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور شاہراہوں اور کارخانوں میں ریاستی جبر کے خلاف دیدہ دلیری اور جرات سے بر سرِ پیکار محنت کشوں کی سپاہ کو کسی نام نہاد دانشور کے بیمار ذہن کی تخلیق کردہ کتاب کے اوراق پر بھی شکست کا اندیشہ ہوتا ہے ۔اس لیے نظریات اور فلسفے کے دفاع کا یہ معرکہ نسل در نسل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔
مارکس اور اینگلز کے بعد لینن اور ٹراٹسکی نے بھی نہ صرف ایک مضبوط محنت کشوں کی تنظیم تعمیر کرتے ہوئے ایک تاریخی انقلاب برپا کیا بلکہ ساتھ ہی دوسری انٹرنیشنل کی قیادت کی قومی زوال پذیری کے خلاف جنگ اور قومی ریاست کے کردار کے سوال پر غیر متزلزل لڑائی لڑی۔اور خاص طور پر ٹراٹسکی نے تیسری دنیا کے حکمران طبقات کے تاریخی ضعف کو سائنسی اور مارکسی بنیادوں پر واضح کرتے ہوئے اکتوبر انقلاب کو نظریاتی مواد فراہم کیا۔لینن نے ’ریاست اور انقلاب‘ میں ریاست اور حکمران طبقات کے کردار کا جو جائزہ پیش کیا ہے وہ آج بھی درست ثابت ہو رہا ہے۔آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاست حکمران طبقے کے جبر کا ایک اوزار بن کر محنت کشوں کے معاشی قتلِ عام میں ملوث و متحرک ہے۔یہی ریاست جو سماجی ارتقا میں سماج سے پیدا ہوئی تھی اب سماج سے قطعی طور پر لاتعلق ہو چکی ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک یہ نظریاتی اور فلسفیانہ بحثیں ختم ہونے کی بجائے اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرتی چلی جا رہی ہیں۔سوویت بیوروکریسی کے کردار اور چینی انقلاب کے حوالے سے جتنا نظریاتی ابہام پایا جاتا تھا اور ہے شاید اس کی ماضی میں کوئی مثال بھی موجود نہ ہو۔ایسی کیفیت میں کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے نظریات کے دفاع اور ترقی کا بیڑہ اٹھایا اور بالخصوص پرولتاری بونا پارٹزم کی سائنسی وضاحت کی اور بیوروکریٹک سوشلزم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔لیکن نظریات کی یہ جنگ خاص طور پر سوویت یونین کے انہدام اور چینی بیوروکریسی کے انحراف کے بعد انتہائی بھیانک اور خوفناک شکل اختیار کر گئی جب تمام دانشور اور نظریہ دان سرمایہ داری کے تلوے چاٹنے لگے۔ایسی صورتحال میں کامریڈ ایلن وڈز اور ٹیڈ گرانٹ نے پھر مارکسزم کے عظیم نظریاتی ورثے کا دفاع کیا اور بالخصوص ’مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس ‘ جیسی عظیم المرتبت کتاب کے ذریعے اس کی فلسفیانہ بنیادوں کو دوبارہ سائنس کی کسوٹی پر پرکھ کر یہ ثابت کر دکھایا کہ مارکسزم ماضی کا مزار نہیں ہے بلکہ آنے والے انسانی مستقبل کی تابناک آواز ہے اور انسانی تہذیب اور ثقافت کے پاس واحد ممکنہ راستہ اور منزل ہے۔
آج پھر پوری دنیا ایک نئے انقلابی عہد کی دہلیز پر پہنچ چکی ہے۔پھر مختلف نظریے اور بوسیدہ فلسفے اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کرنے پر مصر ہیں۔سماجی حالات ناقابلِ برداشت ہو چکے ہیں۔مذہبی جنونیت اور رجعتیت اپنی منطقی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے۔غربت ،بھوک ،بیماری اور بیروزگاری عروج پر ہے۔جنگیں اور قتلِ عام معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔تمام رشتے ،ناطے اور سماجی بندھن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسے میں طبقاتی معرکے ناگزیر ہو چکے ہیں۔انقلابات ضرور ابھریں گے اور محض سوشلسٹ انقلاب ہی ان مسائل کا واحدحل ہے جسے مارکسی اور لیننسٹ سائنسی بنیادوں پر ہی استوار ،تعمیر اور تشکیل دیا جا سکتا ہے۔