تحریر:لال خان:-
(ترجمہ: فرہاد کیانی)
تیس سال میں پہلی مرتبہ فرانسیسی صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے سروے میں ’سخت‘ بائیں بازو کے امیدوار کی مقبولیت دس فیصد سے آگے بڑھ گئی ہے۔سروے کے مطابق لیفٹ فرنٹ(Left Font) کے امید وار ژاں لیوک میلیشوں(Jean-Luc Melenchon) جسے کمیونسٹ پارٹی آف فرانس (پی سی ایف) کی حمایت بھی حاصل ہے، کو 17فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔ اس وقت یو ایم پی سے تعلق رکھنے والے موجودو صدر نکولس سرکوزی(Nicolas Sarkozy) اور سوشلسٹ پارٹی کے امید وارفرانسوا اولینڈ ے (Francois Hollande)کے بعد وہ تیسرے مقبول ترین امیدوار بن چکے ہیں۔ میلیشوں نے بہت تیزی سے انتہائی بائیں بازو کی امیدوار میرین لی پن سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ پیرس کمیون کی سالگرہ کے دن18مارچ کو باستیل چوک میں انتخابی مہم کے آغاز کی ایک لاکھ افراد سے زائد کی ریلی سے خطاب کے دوران انہوں نے گرج دار انداز سے کہا ’’اے باستیل کی روح، ہم واپس آ چکے ہیں، ہم جو فرانس کے انقلابی اور باغی ہیں۔ ہم سرخ پرچم کے علمبردار ہیں‘‘۔ 1951ء میں طنجہ مراکش میں پیدا ہو نے کے بعد 1962ء میں والدین کے ہمراہ فرانس منتقل ہونے والے میلیشوں کی برق رفتار اٹھان سے سرمایہ داری کے ایونوں میں ہر طرف تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
بورژوا تجزیہ نگار جو ابھی تک اسے نظر انداز کرتے آرہے تھے اب اس پر کیچڑ اچھالے بغیر نہیں رہ پا رہے۔ بی بی سی نے’’ بے راہ رو، بے ہودہ، طعنہ زن، زہریلا، بدمعاش ، خود پرست اور اشتعال انگیز‘‘ کے خطابات دیے اور سرمایہ داری کے سب سے سرگرم حامی اکانومسٹ نے روائتی طعنہ زنی کا مظاہرے کرتے ہوئے لکھا ’’بائیں بازو کے جذباتی خلا کو پر کرنے کے لیے ژاں لیوک میلیشوں تیزی سے سامنے آیا ہے، جو ایک زمانے میں ٹراٹسکی کا پیروکار تھا ،جو اب صدارتی امید وار ہے اور اسے کمیونسٹوں کی حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ چھ ہفتوں میں میلیشوں کی شعلہ بیاں تقاریر، مزاحمتی انداز اور خیالی وعدوں نے بائیں بازو کے تصورات کو قابو کر لیا ہے۔۔۔1789ء کا حوالہ دیتے ہوئے وہ ’شہری بغاوت‘ ، نیٹو سے علیحدگی، کم از کم اجرت میں 20فیصد اضافے، 473000ڈالر سے زائد سالانہ آمدن پر 100 فیصد ٹیکس ، سب کے لیے (پوری پینشن) کے ساتھ 60سال کی عمر میں ریٹائیرمنٹ کا وعدہ کر رہا ہے۔ اس سب کو بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ چوکوں میں اس کی ریلیوں جن میں باستیل بھی شامل ہے، کا اختتام انٹرنیشنل گا نے پر ہوتا ہے۔ ‘‘ اکانومسٹ نے اس کے منشور میں شامل افغانستان سے فوجوں کے فوری انخلاء، تارکین وطن کے خلاف قوانین کے خاتمے، دو سال کی عمر سے سرکاری تعلیم، توانائی کی بڑی کمپنیوں اور بینکوں کی نیشلائیزیشن،کٹوتیوں کے خاتمے اور یورپی یونین کے معائدوں کی از سر نو ء ترتیب کا زکرنہیں کیا۔
گارڈین اخبار کے دیے ایک انٹر ویو میں میلیشوں نے ان امیر لوگوں کو انتباہ کیا جو فرانس سے بھاگنے کی کوشش کریں گے کہ ’’بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ہم تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔ اگر وہ پیسے نہیں دیں گے تو ہم ان کے ملکیت پر قبضہ کر لیں گے۔۔۔دیکھیے ہمیں اس منفی سوچ کا خاتمہ کرنا پڑے گا کہ امیر محض امیر ہونے کی وجہ سے کارآمد ہیں۔ سرمایہ داروں کا پروپیگنڈا ہمیشہ لوگوں کو یہ سوچنے پر قائل کر لیتا ہے کہ منڈی کا مفاد انسانیت کا مفاد ہے۔ ۔۔وہ مجھے خطر ناک کہتے ہیں کیونکہ میں فرانس اور یورپ میں مالیاتی مفادات اور اشرافیہ کے لیے واقعی ایک خطر ہ ہوں۔۔۔امریکی غلبے کو بحران کا سامنا ہے۔ آج امریکہ کے پاس واحد برتری اس کی فوج ہے۔وہ ایک زخمی درندے کی طرح خطرناک ہے‘‘۔ اس نے سوشلسٹ پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ سرمایہ داری سے تعلق نہیں توڑ رہی اور ’اچھی سرمایہ داری‘ کے فریب کا شکار ہے۔ یہ سب نیلے آسمان سے بجلی کے کڑکنے کی طرح حیران کن نہیں ہے، بلکہ ایک بدلتے ہوئے عہد کا اظہار ہے جس میں ڈرامائی واقعات برق رفتاری سے رونما ہو رہے ہیں۔)اس سے پہلے رجعتی عہد میں)طبقاتی جدوجہد اور بائیں بازو کو ختم شدہ قوت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ سوشلزم اور کمیونزم پر ناکام ہونے کا الزام تھا، آزاد منڈی کی معیشت کو انسانیت کا مقدر قرار دیا جا رہاتھا اور تاریخ کے خاتمے کا فیصلہ سنایا جا رہا تھا۔
تاہم موجودہ صدی کے آغاز میں لاطینی امریکہ اور خصوصاً وینزویلا میں طبقاتی جدوجہد اے مرتبہ پھر سے ابھرنے لگی۔یورپ کی تحریکوں خاص طور پر 2010ء کے موسم خزاں میں فرانس کی تحریک تیونس کے انقلاب کی چنگاری بنی۔ اس کے نتیجے میں بحر اوقیانوس کے ساحلوں سے لے کر بحرِہند کے کناروں تک عرب انقلاب برپا ہو ا۔اس کے بعد وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک منظر عام پر آئی جس کی بازگشت ساری دنیا میں محسوس ہوئی۔ میلیشوں کے غیر متوقع ابھار کو ایک سفاک میڈیا کمپیئن اور بائیں بازو کی روائتی پارٹیوں اور یونینوں کے لیڈروں کے سرمایہ داری کے سامنے جھکاؤ کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بائیں بازو کے زیادہ تر لیڈروں نے انقلابی سوشلزم کو خیر دبا کہ دیا تھا۔ میلیشوں جیت تو نہیں پائے گا لیکن اس کی اس ریڈیکل انتخابی مہم کے یورپ اور اس کے باہر سیاسی اور سماجی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سپین کے ایک مرتبہ پھرسے کساد بازاری میں جانے کے بعد یورپ کا کوئی ملک بھی معاشی اور مالیاتی مستقبل کے بارے میں پر امید نہیں ہے۔ اگر اولینڈ جیت گیا تو اس کی کٹوتی کی پالیسیاں بھی سرکوزی جیسی ہی ہوں گی بلکہ ممکن ہے کہ اس سے بھی بد ترہوں۔ کٹوتیوں سے منڈی سکڑے گی اور قرضوں کا بحران مزید گہرا ہو گا۔ اگر وہ کٹوتیوں کے اقدامات نہیں کرتا تو فرانس کی سرمایہ دارانہ معیشت گہری کھائی میں گرتی چلی جائے گی اور شدید تر کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ غالباً سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران ہے اور مستقبل قریب میں اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ اور طویل عمل ہو گا جو دہائیوں تک چل سکتا ہے۔
دوسری طرف سرکوزی کی فتح کی صورت میں فرانس کے محنت کشوں کو شدید ترین حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اپنی روایات کے تحت فرانسیسی پرولتاریہ اور نوجوان ان حملوں کے آگے جھکیں گے نہیں۔ یہ ایک شدید طبقاتی جنگ کا آغاز ہو گا جو فوری طور پر سارے یورپ پر اثر انداز ہو گی۔ فرانسیسی سرمایہ داری بند گلی میں پھنس چکی ہے۔ حالاتِ زندگی تیزی سے گر رہے ہیں۔اگرچہ میلیشوں کی پالیسیاں ماضی کے دور کی نسبت بہت ریڈیکل محسوس ہوتی ہیں، لیکن یہ سرمایہ دارانہ مفادات کی سوشلسٹ ضبطگی کی عومی پالیسی سے بہت کم ہیں۔یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے غلبے کو قائم رکھنے والی ریاست کا خاتمہ کیے بغیر سرمایہ داری کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ مارکس نے فرانس کو ’تمام انقلابات کی ماں‘ کہا تھا۔تاریخ کا پہلہ انقلاب جس میں پرولتاریہ نے بطور طبقہ اقتدار پر قبضہ کیا 1871ء کا پیرس کمیون تھا۔ اس وقت مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’فرانس میں خانہ جنگی‘ میں لکھا ’’محنت کش طبقہ پہلے سے موجود ریاستی مشینری پر قبضہ کر کے اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ ان کو غلام رکھنے کے لیے استعمال ہونے والا سیاسی اوزار ان کی آزادی کے سیاسی اوزار کے طور پر کام نہیں آسکتا‘‘۔ طوفانی واقعات ناگزیر ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کی تپش پی سی ایف کا ایک عوامی کمیونسٹ پارٹی کی شکل میں احیا کر سکتی ہے جس میں1920ء کی دہائی جیسی انقلابی روایات ہوں۔فرانس میں انقلاب کی فتح یورپ کی متحدہ سوشلسٹ فیڈریشن کا پیش خیمہ بنے گی، جس کے انقلابی اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوں گے۔
ڈیلی ٹائمز،22اپریل 2012