’’اچھے‘‘ اور برے طالبان کا ناسور

[تحریر: قمرالزماں خاں]
16 دسمبر، منگل کے روز پشاور میں آرمی پبلک سکول میں مذہبی جنونیوں نے جو کیا اس کے لئے بربریت بھی شاید چھوٹا لفظ ہے۔ 145 ہلاکتوں میں زیادہ ترپھول جیسے بچے تھے، جن میں سے بیشتر کو منہ پر گولیاں ماری گئیں یا انکے گلے کاٹ دیے گئے۔ ایک خاتون ٹیچر کو معصوم طلبہ کے سامنے زندہ جلادینے کی اطلاعات بھی ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سفاکیت کا یہ قدم داعش (دولت اسلامیہ عراق و شام) سے متاثر ہو کر اٹھایا گیا ہے۔ بچوں کے زندہ دفن کرنے، خواتین کی اجتماعی آبروریزی اور جنگی قیدیوں کو سینکڑوں کی تعداد میں گلے کاٹ کر یا گولی مار کر قتل کرنے تازہ مثالیں مشرق وسطیٰ میں ’’نفاذشریعت‘‘ کے لئے سرگرم اسی گروہ نے رقم کی ہیں۔
سانحہ پشاور کے فوراً بعد ہی آرمی چیف کے ہنگامی دورہ افغانستان کی بنیاد پر قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ مذکورہ دہشت گردی کے پیچھے افغانستان میں چھپے ہوئے اسلامی شدت پسندوں کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ پاکستان میں طالبان کے ترجمان خالد خراسانی نے اس دلخراش واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے لیکن یاد رہنا چاہئے کہ واہگہ بم دھماکے کی ذمہ داری طالبان سمیت تین شدت پسند اسلامی تنظیموں نے بیک وقت قبول کرکے ثابت کردیا تھا کہ حملہ آور اور ’’بیان بازی‘‘ کرنے والوں میں کوئی ’’کو آرڈی نیشن‘‘ موجود نہیں ہے۔ حالات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ’’اچھے طالبان‘‘، جن کو فوجی آپریشنوں میں ’’محفوظ راستہ‘‘ فراہم کیا جاتا رہا ہے، محض قتل وغارت گری کا آلہ ہیں اور جن کی وفاداریاں مالی مفادات کے تحت بدلتی رہتی ہیں۔ ثور انقلاب کے خلاف امریکی ڈالر جہاد کے لئے تیار شدہ ’’مجاہدین‘‘، جن کو ضیاء الحق، اختر عبدالرحمان اور حمید گل وغیرہ نے تربیت اور سہولیات فراہم کی تھیں بالآخر ’’کرایہ‘‘ ختم ہونے پرامریکہ کے ہی خلاف ’’القاعدہ‘‘ کی شکل میں برسرپیکار ہوگئے تھے۔ اسی طرح امریکی آقاؤں کی ضرورت کے تحت سی آئی اے، پاکستانی فوج، بے نظیر بھٹو، جنرل بابر، مولانا فضل الرحمان کی کاوشوں سے ’’طالبان‘‘ کے عفریت کو تخلیق کیا گیا مگر محض دو تین سال میں ہی اس پالیسی نے بیک فائر کرنا شروع کردیا۔ انکے خلاف 1998ء میں جزوی اور 9/11 کے بعد امریکہ نے بڑی کاروائی کی لیکن اس دوران پاکستانی ریاست نے درپردہ پرانی پالیسی جاری رکھی اور طالبان کے مختلف افغانی دھڑوں کی معاونت جاری رہی۔
اس معاونت کا نتیجہ پاکستان کے اندر ’’طالبانائیزیشن‘‘کی شکل میں نکلا۔ وہ مدرسے جہاں سے تربیت دیکر افغانستان اور کشمیر میں مداخلت کی جاتی تھی، اب وہیں سے تیارشدہ طالبان سوات اور پختون خواہ کے مختلف حصوں میں برآمد کئے جانے لگے۔ ایک وقت تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے طاقتورحصوں نے سوات کے ملا فضل اللہ کی تمام تنصیبات اور قبضوں کی اعانت کی پھر ’’ آپریشن‘‘ کا ناٹک ضروری ہوگیا جس سے قبل ہی اسکو باحفاظت نکال کر افغانستان پہنچادیا گیا۔ یہ وہی فضل اللہ ہے جس کو اب افغان حکام سے پاکستانی آرمی چیف ’’واپس‘‘مانگ رہے ہیں۔ یہ مطالبہ تضادات کا ایک سمندر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ایسے ہی تضادات ہمیں پشاور آرمی سکول میں بہیمانہ قتل پر نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ کے ردعمل میں نظر آتے ہیں۔ امریکی سامراج اور اسکے حلیف ملکوں نے سکول کے بچوں کے قتل پر جس قسم کا شوروغوغا کیا ہے وہ انکی منافقت اور دھرے رویوں کا عکاس ہے۔ بچوں کے قاتل ان سامراجیوں کے اپنے ’’ بچے‘‘ ہیں، جن کو پیدا بھی انہوں نے کیا اور پروان بھی انہوں نے چڑھایا۔ یہ بچے ’’ضدی‘‘ ضرور ہوئے ہیں لیکن اپنے سامراجی والدین سے ان کا رشتہ ٹوٹا ہے نہ ٹوٹ سکتا ہے۔ ہیروشیما اورناگاساکی پر ایٹم بم برسانے والوں نے اس دن ’’سکول جانے والے بچوں‘‘ کو شہروں سے نہیں نکالا تھا۔ ویت نام میں لاکھوں بچوں کو طالبان نے نہیں امریکی فوج نے ہی قتل کیا تھا۔ خود افغانستان میں امریکہ نے اپنے ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ کے ساتھ مل کر آگ اور خون کا جو کھیل 1978ء سے اب تک کھیلا ہے اس میں لاکھوں بچے لقمہ اجل بنے ہیں، نسلیں برباد ہوئی ہیں۔ امریکہ نے پہلی عراق جنگ کے بعد ’’ہوائی محاصرے‘‘، ادویات اور خواراک کی بندش کے ذریعے دس لاکھ سے زائد بچوں کی ہلاکت کا سامان کیا تھا۔ اسی امریکہ کے ایک اور ’’اتحادی‘‘ سعودی عرب کی ہر طرح کی امداد سے تیار ہونے والے النصرہ فرنٹ نے شام میں سینکڑوں معصوم اور شیر خوار بچوں کو گلے کاٹ کر ہلاک کیاہے۔ اسی النصرہ فرنٹ کا ایک حصہ ٹوٹ کر بعد میں داعش میں شامل ہوا ہے۔
دنیابھر میں پھیلی ہوئی مذہبی دہشت گردی کے پیچھے امریکی سامراج اور اس کے علاقائی اتحادیوں کا ہاتھ چھپائے نہیں چھپتا۔ پاکستان میں ہونے والی جس بدترین دہشت گردی نے معصوم پھولوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا ہے، وہ یہاں کی فوجی اشرافیہ اور ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں کی سامراجی گماشتگی کا نتیجہ ہے جن کے تحت انہوں نے ڈالروں سے اپنی جیبی بھریں اور پورے ملک کو بارود کاڈھیر بنادیا۔ مدرسوں کی شکل میں دہشت گردی کی ہزاروں فیکٹریاں کھولی گئیں۔ ضیاء الحق کی بنائی گئی فرقہ وارانہ تنظیموں کی فنڈنگ جاری و ساری رہی، جہادی گروہ کھمبیوں کی طرح اگائے گئے۔ یہ کھیل اب اتنا بگڑ گیا ہے کہ کون کس سے پیسے لے کر کسے مار رہا ہے، خود حکمرانوں کو بھی نہیں پتا۔
سانحہ پشاور نے ثابت کردیا ہے کہ سامراج کی گماشتگی کا انجام کتنا ہولناک ہوتا ہے۔ ’’اچھے ‘‘ اور ’’برے‘‘ طالبان کی پالیسی کا نتیجہ برا ہی نکلا ہے اور نکلے گا۔ ’’کالعدم‘‘ تنظیمیں آج بھی ریاستی سرپرستی میں سرگرم ہیں، سرکاری مولوی سرعام جلسے جلوسوں میں ’’قتال‘‘ کا درس دے رہے ہیں، اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد آج بھی دہشت گردی کی نرسری ہے اور اس کے برقع پوش مولوی کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکا۔ دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی ملک میں کیا ہورہا ہوگا؟ پھر شکوہ شکایت اور الزامات کیسے؟ جَو بیج کر گندم کی فصل نہیں کاٹی جاسکتی۔ اب بھی جو تماشہ دیکھ رہے ہیں ان کو یادرکھناچاہئے کہ یہ آگ کسی کے گھر اور بچے کو نہیں چھوڑے گی۔ دلیل، منطق اور انسانیت سے عاری مذہبی جنونیوں کو مہلک اسلحہ، معاشی کمک اور سیاسی غلاف دینے والوں کے آشیانے بھی آباد نہیں رہیں گے۔ پشاور حملہ بہت خوفناک انتباہ ہے، اس سے اگر درست سبق نہ سیکھا گیا تو پھر سیکھنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب اور فرقہ واریت سمیت ہر قسم کی بربریت کو مالی مفادات اور سامراجی عزائم کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔ امریکی سامراج کسی سویت یونین کی عدم موجودگی میں اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھا کے ایک ایسا ’’بیرونی خطرہ‘‘ تراشنے میں کسی حد تک کامیاب ہواہے جس کی دہشت کو بوقت ضرورت استعمال میں لاتے ہوئے کسی بھی جگہ جارحیت کا جواز پیدا کیا جاسکتا ہے۔ یہ مرتی ہوئی سرمایہ داری کس قسم کے سماج کو پروان چڑھا سکتی ہے؟ پاکستان کے موجودہ حالات کی شکل میں جواب ہمارے سامنے ہے۔ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو آپریشن یا ہوائی حملوں سے نہیں روکا جاسکتا۔ جتنے حملے شمالی وزیرستان میں ہوئے ہیں اور جتنی کامیابیوں کی داستانیں سنائی گئی ہیں اسکے بعد پشاور کا حملہ سارے افسانوں پر پانی پھیر گیا ہے۔ سامراجی طاقتیں ہوں یا ان کے پالتو’’اتحادی‘‘، دہشت گردی حکمران طبقے کا ایک اوزار ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کا ایک ہتھیار ہے…اطاعت کے راستے کھولنے، مسلسل عدم استحکام اور خوف کی فضا قائم رکھنے اور پراکسی جنگیں لڑنے کے لئے۔ ایک طرف مذہبی دیوانگی کا ڈر پیدا کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اس کا ’’حل‘‘ امریکی سامراج کی ’’لبرل‘‘ پیروی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی اور امریکی سامراج درحقیقت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان کی آپسی لڑائی محنت کش عوام کے لئے بے معنی اور جعلی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ افغانستان میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ لڑنے والا امریکہ اور اس کے اتحادی، شام میں ’’طالبان‘‘ سے بھی زیادہ خونخوار گروہوں کو اسلحہ، ٹریننگ اور مالی امداد فراہم کررہے ہیں۔
سرمایہ داری کے عفریتوں کو سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ختم کرنا ناممکن ہے۔ ملکیت کے رشتے اور منافع کا نظام انکو مرنے نہیں دیتا۔ حکمران طبقے کو عدم استحکام، سامراجی عزائم اور پراکسی جنگوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے جس کے لئے مذہبی قتل وغارت گری اور دہشت گردی کو کبھی کھل کر تو کبھی پردے میں ابھارا جاتا ہے۔ امن، استحکام، ترقی، روزگار، علم اور صحت کی ضرورت جس طبقے کو ہے، اس کو ہی میدان میں آکر اپنے دشمن نظام اور اسکی بربریت کو شکست دینا ہوگی۔ سوشلزم ہی دہشت گردی کے اس منافع بخش کاروبار کو کچل سکتا ہے۔ نجی ملکیت، منافع اور شرح منافع کے نظام کو ختم کرکے ہی بیگانگی اور سفاکیت کی معروضی وجوہات کو مٹایا جاسکتاہے۔

متعلقہ:

بربریت!

دہشت کی شہ رگ

مذہب کا سیاسی روپ

’’طالبان‘‘ کا مفروضہ

لرزتی ریاست کا فوجی آپریشن