| رپورٹ: بدر رفیق |
پاکستان میں محنت کشوں کے حالات تو دگر گوں ہیں ہی مگر المیہ یہ ہے کہ ریاست محنت کشوں کے جو حقوق مانتی ہے وہ بھی ان کو دیئے نہیں جاتے۔ آئین اور قوانین کے رو سے جو حقوق محنت کشوں کو میسر آنے چاہئیں وہ محض آئین اور قانون کی کتابوں تک ہی محدود ہیں۔ کام کی جگہ پر دیگر مسائل کے ساتھ اس وقت ابھرتا ہوا مسئلہ مزدوروں کی سیفٹی کا ہے۔ کام کے دوران محض چند آلات کا استعمال مزدوروں کو چھوٹے بڑے بہت سے حادثات سے محفوظ کر سکتا ہے مگر منافع خوری کی ہوس اور مزدوروں کے حقوق کو غیر اہم سمجھنے کی وجہ سے اس پر کبھی دھیان ہی نہیں دیا جاتا۔ جس کی وجہ سے بے تحاشا حادثات مزدوروں کی جان لینے کا باعث بنتے ہیں یا ان حادثات میں مزدوروں کو شدید جسمانی نقصانات اور صدمات اٹھانے پڑتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کی جس ادارے، فیکٹری یا کارخانے کا مزدور کسی حادثے کا شکار ہو وہ ادارہ، فیکٹری یا کارخانہ اس کے نقصان کے ازالے کی کوشش کرے مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے اور عمومی طور پر یا تو حادثات میں مزدوراپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا اگر زندہ بچ جائیں تو انہیں اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
ILO کی طرف سے مزدوروں کی حفاظت کیلئے دیا گیا قانون OSHA ہے، جو مزدور کے استحصال کو تو نہیں روکتا بہر کیف جسمانی مشقت کے دوران مزدوروں کو جسمانی حفاظت کا ادنیٰ سا حق دیتا ہے۔ اس قانون کے مطابق ہرریاست یا متعلقہ کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پاس کام کرنے والے مزدوروں کو تمام حفاظتی سامان جو کام کرتے وقت انکی حفاظت کیلئے ضروری ہے مہیا کرنے کی پابند ہو گی، جیسے کہ حفاظتی ٹوپی، حفاطتی بوٹ، حفاظتی بیلٹ، حفاظتی عینک اور کام کی نوعیت کے مطابق مختلف سامان حفاظت۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس قانون پر کسی حد تک عمل کیا بھی جاتا ہے جسکا مقصد مزدور کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ مقابلہ بازی کیلئے اپنی کمپنی کی ساکھ بچانا ہوتا ہے۔ بہر حال پاکستان جیسے ملک میں جہاں سرمایہ داری اپنے اصولوں سے ہی ہٹ چکی ہے، مقابلہ بازی کی بجائے یہاں مافیا کا وجود ہے، غریبوں کے جنازے اٹھنا معمول ہے، بے روزگاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کمپنیاں اپنے منافع میں سے مزدوروں کی حفاظت پر خرچنے کو کیونکر ترجیح دیں گی؟ یہاں سیفٹی کے قوانین لاگو ہونا ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
اس کا واضح اظہار ہمیں تعمیراتی شعبے میں نظر آتا ہے۔ پاکستان میں ہر چھوٹے تعمیراتی کام سے لیکر بڑے سے بڑے کام تک ٹھیکیداری نظام کا راج ہے۔ ٹھیکیداروں کو مزدوروں کی حفاظت پر خرچ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، انہیں اپنا کام کم سے کم لاگت میں مکمل کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے، سیفٹی کے قوانین کے مطابق کام کرنے سے وقت بھی زیادہ لگتا ہے، لہٰذا کم سے کم وقت میں کام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مزدوروں کی جان جوکھوں میں ڈال دی جائے۔ کتنے ہی مزدور کام کے دوران مر جاتے ہیں یا اپاہج ہو کر خاندان کا سہارا بننے کی بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک مثال پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور، جو کہ موجودہ حکمرانوں کا گھر ہے، میں نشاط ہوٹل اینڈ امپوریم مال کے نام سے ایک 14ایکڑ پر پھیلا تعمیراتی منصوبہ چل رہا ہے جو کہ پاکستان کے نامی گرامی سرمایہ دار میاں منشا (جو MCBکا بھی مالک ہے )کے کاروباری گروپ ’’نشاط‘‘ کی طرف سے لگایاگیا ہے۔ یہ منصوبہ جتنا بڑا ہے، اتنا ہی زیادہ مزدوراس میں استحصال کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق تقریبا 3 ہزار مزدور دیہاڑی پر کام کر رہے ہیں۔ جن کے پاس زندگی کی کوئی ضمانت نہیں، وہ ہر لمحہ اپنی جان پر کھیل کر اپنے خاندان کے بقا کیلئے کام کر رہے ہیں۔
جہاں سیفٹی کا سٹاف تک 315 روپے دیہاڑ ی پر رکھا گیا ہوایسی جگہ مزدور کی حفاظت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اس تعمیراتی منصوبے پر کام کرنے والے مزدور سے ہفتے میں 84 گھنٹے مشقت کروائی جاتی ہے جبکہ ILO کے قانون کے مطابق اوقات کار ہفتے میں 48 گھنٹے مقرر کیے گئے ہیں۔
کوئی بھی بات کرنے یا سوال کرنے پر مزدوروں کو اس نوکری سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ وہاں کام کرنے والے مزدوروں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی بنیاد پر بتایا ہے کہ حفاظتی انتظامات کا یہ عالم ہے کہ مزدور کو دکھاوے کیلئے صرف ایک ہیلمٹ دیا جاتا ہے جسکی قیمت بھی مزدور کی دیہاڑی سے وصولی جاتی ہے۔ پرانی مشینری اور ناقص ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں، تا کہ منافع کی شرح میں اضافہ کیا جا سکے۔ بارش ہو یا تیز آندھی، دن ہو یا رات، دھند ہو یا پھر تپتی دھوپ، سیفٹی کے سٹاف کو کام رکوانے کا کوئی اختیار نہیں، ہر قسم کے نا مساعد حالات میں مزدور سے مشقت لیجاتی ہے۔ ایسے حالات میں کام کرنے کی وجہ سے روزانہ 30 سے 40 مزدور زخمی ہوتے ہیں اور صرف 2 سال کے دوران تقریبا15 مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو کہ کسی تعمیراتی پراجیکٹ میں بہت بڑی شرح ہے۔ اتنے بڑے منصوبے پر ایمبولینس تک موجود نہیں جو کہ کسی حادثے کی صورت میں زخمیوں کی ہسپتال تک پہنچا سکے اور سیفٹی کے سٹاف کو ان حادثات کی رپورٹ تک بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ سیفٹی کا سٹاف یوں لگتا ہے جیسے میاں منشا اور اسکے خاندان کے ذاتی پروٹوکول کیلئے رکھا گیا ہو۔
یہ محض ایک مثال ہے۔ کوئی شعبہ لے لیں، کسی فیکٹری یا کارخانے پر نظر دوڑا لیں، کہیں بھی جہاں مزدور اجرت پر کام کر رہے ہیں ان کے حالات کار کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے کا کہ ہر لحظہ مزدوروں کے سر پر موت منڈلا رہی ہوتی ہے۔ واپڈا اور پی ٹی سی ایل کے لائن مینوں کو سیفٹی بیلٹ میسر نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے ہر سال کئی لائن مین لائنز پر کام کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ فیکٹریوں کارخانوں کی بات کریں تو سیفٹی کے اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مزدور فیکٹریوں میں بوئلر پھٹ جانے، پانچ روپے کا سوئچ تبدیل نہ کرنے پر کرنٹ لگنے، سیفٹی شوز، گلوز اور ہیلمٹ نہ ہونے یا اسی طرح کی دیگر وجوہات کی بنا پر مزدوروں کی اموات واقع ہو جاتی ہیں۔ کہیں بھی فرسٹ ایڈ کا سامان میسر نہیں ہوتا، یا اگر فرسٹ ایڈ کٹ ہو بھی تو اس کے درست استعمال کے لئے کوئی موجود نہیں ہوتا یا اسے محض دکھاوے کے لئے تالہ بند الماری میں رکھا جاتا ہے۔ آگ بجھانے کے آلات محض دکھاوا ہیں اور آگ لگنے کی صورت میں کوئی ایمرجنسی گیٹ مزدوروں کے نکلنے کے لئے موجود نہیں ہوتا۔ کراچی بلدیہ ٹاؤن سانحہ اس کی منہ بولتی مثال ہے۔
جس طرف نظر دوڑائیں یہی تصویر ہے۔ رنگ مختلف ہو سکتے ہیں، کہانی ایک ہے۔ سرمائے کی ہوس ہر طرف موت بانٹ رہی ہے۔ زندگی کا راستہ اس ہوس زدہ نظام کے خلاف جدوجہد میں ہے۔