پیپلز پارٹی: نظریات سے عاری تنظیم نو؟

| تحریر: قمرالزماں خاں |

عام طور پرمفروضوں سے حقائق تک کا سفر طے کیا جاتا ہے مگر کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ چھوٹی حقیقتیں بڑی مبالغہ آرائی سے پیش کی جاتی ہیں اور جعلی مفروضوں کو شعوری طور پر پال پو س کر حقائق سے فرار حاصل کیا جاتا ہے۔
جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا 26 مارچ کا ’جمال دین والی‘ میں ہونے والا جلسہ تمام تر انتظامی نااہلی، ہڑبونگ اور افراتفری کے باوجود مقداری لحاظ سے ایک کامیاب جلسہ تھا۔ مگر اس جلسے کا ہجوم متنوع اور مختلف قسم کے عناصر پر مشتمل تھا، اس کو پیپلز پارٹی کا کلاسیکی اجتماع قرارنہیں دیا جاسکتا۔ بڑی سرمایہ کاری سے اپنے وجود کو بلدیاتی عمل میں سیاسی لباس فراہم کرنے والے بھانت بھانت کے سرمایہ کاراور انکے کارندے اور فنکشنل لیگ کی باقیات کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے ٹوٹے پھوٹے اور نحیف ڈھانچوں کے گرد بہت ہی مستقل مزاج پارٹی کی حمایتی اس جلسے کے عناصر تھے۔ چنانچہ اس سے مبالغہ آرائی پر مبنی نتائج اخذ کرنا غلط ہے جیسا کہ پارٹی قیادت اخذ کر رہی ہے۔
peoples party cartoon (1)پارٹی کی وسیع قوتیں جو کہ پارٹی قیادت کی مسلسل غداریوں، نظریاتی انحراف، بدعنوانی اور دھوکہ دہی کی وجہ سے بہت ہی نحیف ہوچکی ہیں، ان میں اتنی برداشت نہیں رہی کہ وہ’ پرانی ڈگر‘ کی پارٹی میں سرگرم اور فعال کردار ادا کرسکیں۔ پچھلے پینتالیس سالوں سے نعروں، وعدوں اور بڑھکوں کی تکرارِ مسلسل کے بعد اب دھوکے کے سانپ سے ڈسوانے کا ’چسکا ‘ بھی نشہ کھوچکا ہے۔ پرانی باتوں کو نئے چہروں اور نئے ناموں سے دہرانے کے پرانے حربے مجموعی طور پر اس مروجہ سیاست میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔ تین نسلوں نے پے درپے سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے زوال کی ارتقائی کیفیت اور مدت چار دہائیوں پر محیط ہے۔ تاہم کسی اورمتبادل سیاسی قوت یامحنت کش طبقے کی نئی روایت کی تشکیل کی عدم موجودگی پارٹی کے ’زوال‘ کو انہدام اور تحلیل میں تبدیل ہونے سے بچائے ہوئے ہے۔ اس پیچیدہ کیفیت کو پارٹی قیادت اپنی طاقت، قوت اور حمایت سے تعبیر کرتی ہے۔
تمام تر اتار چڑھاؤ کے اس سفر میں پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں، غریبوں، کسانوں اور پچھڑے ہوئے طبقات کے پاس متبادل سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا خلا کلی یا جزوی طور پر پیپلز پارٹی ہی پر کرتی چلی آرہی ہے۔ متبادل کی عدم موجودگی کی اس کیفیت میں غریب، محروم اور محنت کش طبقات کے سیاسی اظہار (خواہ وہ انتہائی نیم دلی، محض لفاظی یا پھر مجبوری کی کیفیت میں ہی کیوں نہ ہو) کا پلیٹ فارم بننے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت بہت سی نظریاتی، سیاسی اور حکمت عملی کی غلطیوں کا تدارک کرنے کی بجائے ان کو اور زیادہ گہرا کرنے کی طرف راغب ہوجاتی ہے۔ شمالی پنجاب سے کشمیر تک ریلی کے ذریعے سیاسی قوت کے اظہار اور پھر کشمیر میں کچھ جلسوں میں موجودہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے متغیر اور متضاد نعروں اور موقف سے نظریاتی ہیجان اور غیر واضح سیاسی موقف کے عوامل نظر آتے ہیں۔ تاہم طویل عرصے بعد متذبذب، غیر مستقل اور ’ہلکے‘ انداز میں ہی سہی لیکن قیادت (بلاول) کی جانب سے طبقاتی موقف سننے کو مل رہا ہے، نواز لیگ پر وہ بہر حال کافی واضح انداز میں کھل کر حملے کر رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ریاست اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے بیانات میں بھارت مخالف بڑھک بازی بھی نظر آتی ہے۔ یہ پرانی پارٹی قیادتوں کا بھی شیوہ رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اس کا موقف کشمیریوں کی منشا یا قومی خود مختیاری کے برعکس سامراجی خواہشات پر مبنی ریاست پاکستان کے موقف سے مطابقت رکھتاہے۔ یہ وہی دو طرفہ موقف ہے جس کے تحت بھارت اور پاکستان کی ریاستیں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو نہ حل ہونے والا مسئلہ اور باہمی جنگ وجدل کی حالت میں رہنے کا اوزار بناچکی ہیں۔
پاکستانی سیاست میں لنگوٹ کسے ہوئے پہلوان خواہ کسی بھی پارٹی سے وابستہ ہوں، فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ’لائن‘ سے آگے پیچھے ہونے کی ہمت رکھتے ہیں نہ اس کرپٹ سیاسی اشرافیہ میں اتنی صلاحیت تاریخی طور پر موجود ہے۔ کشمیر میں پیپلز پارٹی کی قیادت بھی ایک ’’پپٹ حکومت‘‘ بنانے کا کام پوری جانفشانی سے کرتی چلی آئی ہے۔
طبقاتی ’’مفاہمت‘‘ سے لے کر جمہوریت کے ’’بہترین انتقام‘‘ تک کے ذریعے منڈی کی معیشت کے جبر کو قائم رکھنے اور بدعنوانی کو دوام کی روش نے پارٹی کے زوال اور حمایت میں کمی کے مسلسل عمل کو مہمیز بخشی ہے۔ وقت کے ساتھ پارٹی اپنے بنیادی نظریات سے الگ ہوکر ہوا میں معلق ہوچکی ہے۔ دوسری جانب ریاست اور سرمایہ داروں کی روایتی پارٹیاں ہیں۔ مسلم لیگوں میں بالخصوص نون لیگ سب سے مرکزی ہے جس کا اپنا طبقاتی کردارسرمایہ داروں، تاجروں، آڑھتیوں اور دیہی اشرافیہ کے مفادات کا نگہبان ہے۔ یہیں سے ان کو سیاسی، مالیاتی، سماجی قوت اور کمک ملتی ہے۔ حتیٰ کہ عسکری حلقوں کے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ نوعیت کے مالی امور پر تناؤ اور ٹکراؤ کے باوجود نواز لیگ ان کی فطری حلیف ہے۔ یہیں سے پیپلز پارٹی کے بحران کا دوسرا رخ بھی سامنے آتا ہے۔ اپنی حقیقی اساس سے منہ موڑ کردشمن طبقات کے مفادات کی پاسداری کرنے، اپنی سیاسی قوت پر خود ہی ضرب لگانے، سامراج کی مکمل اطاعت اور ریاست کا اعتماد جیتنے کی بھرپور کوشش کے باوجود دائیں بازو کی روایتی پارٹیوں کا کردار حاصل کرنے کی قدرت سے پیپلز پارٹی محروم ہے۔ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے آخر کار پارٹی قیادت کو انہی طبقات کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جنہیں وہ مسلسل دھتکارتی آرہی ہے۔ نواز لیگ جیسے نیو لبرل سرمایہ داری کی جارحیت پر مبنی سیاسی رجحانات کا کوئی دوسرا متبادل سیاسی افق پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسی قسم کی کیفیت سے محنت کش طبقہ دوچار ہو تا ہے۔ ریاست کے سنجیدہ پالیسی ساز اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں اور اس مظہر کو بوقت ضرورت استعمال بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک متضاد کیفیت ہے جو موجودہ معروضی صورتحال میں مختلف شکلوں میں جاری رہ سکتی ہے۔
حالیہ (2008-16ء) زوال کے دائرے سے نکلنے کے لئے پیپلز پارٹی قیادت جس حکمت عملی کا سہارا لینے کی کوشش کر رہی ہے، اسکا دامن محدود ہے اوریہ بہت ہی کم مدتی نسخہ ہے۔ یہ نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی زوال پذیری کا مستقل حل نہیں ہے۔ 2 جون کو رحیم یارخاں میں جنوبی پنجاب پارٹی تنظیم کے زیر اہتمام ’’ورکرز کنونشن‘‘ کے نام پر ایک جلسہ کیا گیا۔ اس جلسے کا مقصد ضلعی باڈیوں کی تنظیم نو کے لئے ’’کارکنوں‘‘ کی رائے لینا تھا۔ یہ کنونشن سٹی اور تحصیل سطح پر کسی قسم کی تیاری کے بغیر یکا یک منعقد کیا گیا تھااس لئے اس کے ایجنڈے اور مقاصد سے شمولیت سے پہلے تک شرکا ناواقف تھے۔ اس لئے فوری طور پر ان سے ضلعی تنظیم سازی کے لئے مانگی گئی تجاویز پر کسی بھی مقرر کے لئے بات کرنا ممکن نہ تھا۔ صرف وہ مقررین جو ایک خاص ایجنڈے کے تحت اپنے مخالفین پر حملے کرنے کے لئے تیار کئے گئے تھے انہوں نے اپنے خطابت کے فن کا مظاہرہ کیا۔ پینتالیس لاکھ آبادی والے ضلع رحیم یارخان سے، جو پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، تین چار کارکنان کو بولنے کا موقع دیا گیا مگران کے خیالات اور تجاویز بدنظمی، شورشرابے اور برے انتظامات کی نذر ہوگئے۔ جب کہ پارٹی وائس چیئرمین مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کو اپنی ذاتی تشہیر اور ناکردہ کارناموں کی تفصیلات فراہم کرنے کا خوب موقع مل گیا۔ اس قسم کے نام نہاد کنونشن، زوال پزیری کی شکار پاکستان پیپلز پارٹی کو نہ تو وہ نظریاتی بنیادیں فراہم کرسکتے ہیں جن کی بنیاد پر پارٹی کی تازہ دم اور قوت سے بھرپور نئی سیاست کا آغاز ہو سکے اور نہ ہی اس قسم کے ’’طے شدہ‘‘ اورنتائج سے محروم پروگراموں سے پارٹی کی تنظیم نو حقیقی بنیادوں پر ہوسکتی ہے۔
1967ء میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس وسیع ممبرشپ تھی اور نہ ہی پارٹی ڈھانچے، دفاتر اور اخبارات، مگر اپنے انقلابی نظریات کے سبب جو عہد کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے تھے، وہ 1968-69ء کی تحریک کے دوران چند مہینوں میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی۔ ڈھانچے نظریات پر کھڑے ہوتے ہیں۔ سوشلسٹ نظریات پر مبنی پارٹی کی بنیادی دستاویزات آج بھی رہنمائی کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہیں۔ سال بدلے ہیں، دہائیاں گزری ہیں مگر بھوک، بیماریاں، جہالت، اونچ نیچ اور طبقاتی کشمکش وہی ہے، بلکہ عوام کی ذلت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے اور اس کا حل بھی وہی ہے جو آج سے انچاس سال پہلے پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں پیش کیاگیا تھا!