مارکسزم: عہد حاضر کا واحد سچ

طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز نے حال ہی میں ایلن ووڈز کی تحریر Relevance of Marxism Today کا ترجمہ ’’مارکسزم: عہد حاضر کا واحد سچ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اس کتاب کا پیش لفظ ویب سائٹ پر شائع کر رہے ہیں۔

ایک چوتھائی صدی انسانی زندگی میں تو شاید ایک طویل عرصہ ہو لیکن انسانی تاریخ میں یہ چند لمحوں سے بھی کم حیثیت رکھتی ہے۔ 1980 ء کی دھائی میں عالمی سطح پر ہونے والے واقعات نے ایک ایسے عہد کو جنم دیا جو شاید جدید انسانی تاریخ کے رجعتی عہدوں میں شمار ہوتا ہے۔ چین میں افسر شاہی کے سرمایہ داری نواز گروہ نے 1978ء کے بعد چین میں منصوبہ بند معیشت کو ختم کرنے اور منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت کو دوبارہ استوار کرنے کا عمل شروع کیا۔ اسی طرح 1980ء کی دھائی کے اواخر میں مشرقی یورپ کے ممالک میں سٹالنزم کا انہدام دیوار برلن کا گرنا اور پھر سوویت یونین کا ٹوٹ جانا ایسے دیو قامت واقعات تھے جن کے دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوئے۔ سامراجی ذرائع ابلاغ نے ان واقعات سے قبل کی نصف صدی میں سوویت یونین، چین اور دوسرے سٹالنسٹ ممالک کو ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’کمیونسٹ‘‘ بنا کر پیش کیا تھا۔ اس میں نہ صرف ان ممالک کی حکمران ’’کمیونسٹ‘‘ پارٹیوں، جو دراصل مراعات یافتہ آمرانہ افسر شاہیاں تھیں، نے کمیونزم اور سوشلزم کے نام پر اپنے جابرانہ اقتدار کو طوالت دی اور انہی ناموں کے ذریعے اپنی پیروکار کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیوں کو دنیا بھرکے تمام ممالک میں اپنی عالمی حمایت کا آلہ کار بنا کر سوشلزم اور کمیونزم کی مارکسی تعریف، تشریح اور شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ سٹالنزم نے جو جرائم کئے اور ظلم وجبر کا جو کھلواڑ کیا اس کو مارکسزم کے نام سے منسوب کیا جاتا رہا۔ لیکن ان کا یہ واردات کرجانا دو بنیادی وجوہات کی بنیاد پر ممکن ہو سکا تھا۔
پہلی وجہ تو یہ تھی کہ اس سٹالنسٹ جبر کے باوجود نجی ملکیت اور منڈی کی معیشت کی بجائے یہاں کی ریاستی ملکیت اور منصوبہ بند معیشت قائم تھی یا ہوئی جس سے ان سماجوں میں بے پناہ ترقی حاصل ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد خصوصی طور پرایک جانب سوویت یونین اور چین میں برق رفتار معاشی نمو اور دوسری جانب امریکہ، یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں جنگ کی تباہ کاریوں سے تعمیر نو کے لیے جو پیداوار کی کھپت ہوئی اس سے سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کا سب سے بڑا عروج 1948-73 ء تک آیا جس میں ترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں اور عام عوام کے معیارِ زندگی میں خاطر خواہ بہتری آئی۔ اس ’’عملی‘‘ اور ساری ترقی کی وجہ سے حقیقی مارکسی قوتیں تڑپ کر رہ گئیں۔ ترقیوں کے اس شور میں مارکسسٹوں کی آواز گُھٹ کر رہ گئی۔ ان حالات میں ایک طرف تو مغربی سامراجی میڈیا ان کو انتہا پسند گروہ گردان کر ان کی تضحیک اور تذلیل کرتا رہا اور دوسری جانب ٹراٹسکی کے 1940 ء کے قتل سے لے کر سوویت یونین کے انہدام تک مارکسسٹوں کے ساتھ سٹالنسٹ بیوروکریسی نے انتہائی بہیمانہ سلوک روا رکھا۔ روس نواز اور چین نواز کمیونسٹوں نے ان کو ہر سیاسی اور مزدور تحریک سے بے دخل کر دیا۔ لیکن نو آبادیاتی ممالک میں نہ صرف ان کا ناطقہ بند کر دیا گیابلکہ ان پر ہر قسم کا تشدد روا رکھا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے اور چین میں وحشیانہ سرمایہ داری کی بحالی کے بعد یہی بڑے بڑے کمیونسٹ اور سوشلسٹ لیڈر سرمایہ داری کے آگے گھٹنے ٹیک کر مارکسزم کو مسترد کرنے والے پراپیگنڈے کی یلغار کے ہر اول جغادری بن گئے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جن مارکسسٹوں کو یہ سٹالنسٹ سی آئی اے کے ایجنٹ قراد دیتے تھے انہی مارکسسٹوں کو آج سٹالنزم کے تمام تر جرائم کے باوجود سوویت یونین، چین اور دوسرے سٹالنسٹ ممالک میں ہونے والی ترقی کو محنت کشوں اور نوجوانوں کے سامنے پیش کر کے منصوبہ بند اور سوشلسٹ معیشت کی منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت پر برتری اور اس سماجی افادیت کو ثابت کرنا پڑ رہا ہے۔
مارکسزم بنیادی طور پر تناظر کی سائنس ہے۔ واقعات کے جنم لینے کے بعد ان کا تجزیہ پیش کرنا مارکسی علم کی توہین ہوتی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کی پیش گوئی سب سے پہلے اس کے بانیوں نے کی تھی۔ لینن نے مختلف تقاریر اور مضامین میں سوویت یونین کے انہدام کی وجوہات اور شرائط اس واقعے کے رونما ہونے سے70 سال پہلے کر دی تھی۔
مثلاً جولائی 1921 ء میں لینن نے کمیونسٹ انٹر نیشنل (تیسری انٹر نیشنل) کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ایک تقریر میں کہا ’’برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کا دل ہے۔ اگر جرمنی میں سوشلسٹ انقلاب کامیاب نہیں ہوتا تو پھر سوویت یونین کا انہدام ناگزیر ہو جائے گا۔‘‘ اسی طرح ٹراٹسکی کی بے شمار ایسی تحریریں ملتی ہیں جن میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجوہات اور عناصر تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ 1936 ء میں لکھی گئی ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘ میں انقلاب کی طرح انقلاب کی زوال پذیری اور اس سے جنم لینے والے انہدام کو مارکسی سائنس کے حوالے سے ٹھوس دلائل کے ذریعے واضح کیا گیاتھا۔ اس کے 50 سال بعد جو واقعات رونما ہوئے یہ کتاب تقریباً ان کا ہو بہو مکمل سکرپٹ تھی۔ ٹیڈ گرانٹ نے 1943 ء میں ایک وسیع تحریر ’’ریاست کی مارکسی تھیوری‘‘ میں بھی اس انہدام کا واضح تناظر پیش کیا تھا۔ اسی طرح ٹیڈ گرانٹ نے 1947 ء میں چینی انقلاب کے فتح مند ہونے سے 2 سال قبل جو تناظر پیش کیا تھا چین میں اکتوبر 1949 ء کے بعد ہونے والے واقعات نے اس کو درست ثابت کیا۔ جب کہ اس انقلاب کے لیڈر ماؤزے تنگ نے اگست 1949 ء میں انقلابِ چین کے مقاصد اور جو تناظر پیش کیا تھا، کہ انقلاب کے بعد سو سال تک سرمایہ داری رہے گی، غلط ثابت ہوا اور لندن میں بیٹھے ہوئے ٹیڈ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی کیونکہ جب پیکنگ، نان جِنگ اور دوسرے شہروں میں سرخ فوج کے داخل ہوتے ہی صنعتی پرولتاریہ انقلاب میں داخل ہوا تو انہوں نے سامراجی اور قومی صنعتوں پر قبضے کر لیے اور ماؤ کو چین میں اپنے نظریات اور تناظر کے برعکس سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا پڑ گیا تھا۔ اگر ہم چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور اس سے ابھرنے والے بحران جو اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کے بارے میں IMT کی دستاویزات اور تجزیوں کا جائزہ لیں تو ایک مرتبہ پھر جنم لینے والے واقعات ان کو تاریخ کی کسوٹی پر درست اور سچا ثابت کر رہے ہیں۔
لیکن جہاں سوویت یونین اور چین کے بارے میں مارکسسٹوں کے تناظر درست ثابت ہوئے ہیں وہاں عالمی سرمایہ داری کے بارے میں بھی ان کی پیش گوئیاں تاریخ نے سچ ثابت کی ہیں۔
2008 ء میں ہونے والا سرمایہ داری کا بحران اس کی تاریخ کا سب سے بڑا کریش تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں جو سماجی تباہی آئی ہے اور آ رہی ہے اس کا تناظر کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے بیلجئم میں ہونے والی انٹر نیشنل کی میٹنگ میں بہت ہی واضح انداز میں پیش کر دیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ اور دنیا بھر کے بڑے بڑے ناموں والی یونیورسٹیوں کے بڑے بڑے ناموں والے معیشت دان اور پروفیسر حضرات سرمایہ داری کے اس تاریخی زوال کی نشاندہی نہیں کر سکے تھے۔ بلکہ ان کی اکثریت کے لیے یہ ایک حیران کن صدمہ تھا کہ جس نظام کو انہوں نے تاریخ کا اختتام قرار دیا تھا وہی نظام ان کے سامنے ان کی زندگیوں میں ہی دھڑام سے گرا اور منہدم ہو رہا ہے۔ اس پسِ منظر میں اگر دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام امریکہ اور یورپ جیسے اپنے عروج کے معاشروں میں ایک شدید تنزلی کا شکار ہے۔ 2008ء کے معاشی انہدام کے بعد کے پانچ سالوں میں بیروزگاری 1930ء کے عظیم بحران کے دور کی سطح تک پہنچ چکی ہے، نوجوان محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی ہوئی ہے اور ان کے لیے تعلیم کے مواقع ختم ہو رہے ہیں۔ مئی 2013ء میں یونان میں 15 سے 24 سال تک کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 64.2 فیصد تک پہنچ چکی تھی جو مارچ 2012ء میں 54.1 فیصد تھی۔ اس سال مارچ میں اسپین میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح55.9 فیصدجبکہ اٹلی میں 38.4 فیصد تھی۔ مستقبل میں بھی بہتری کی کوئی امید نہیں اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ سالوں میں بھی نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں وہ نوجوان جو نہ تو تعلیمی اداروں میں ہیں اور نہ روزگار پر ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی شرح 15.8 فیصد سے زیادہ ہے۔ یورپ میں وہ نوجوان جو نوکری کر رہے ہیں ان میں سے بھی 40.8 فیصد عارضی ٹھیکے پر کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پسماندہ اور نام نہاد ’’ترقی پذیر‘‘ ممالک میں اس بحران کا حشر زیادہ بھیانک سماجی بربادی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ 2008ء میں جب ’’پرانے‘‘ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں یہ کریش آیا تو بہت سے سرمایہ دارانہ ماہرین نے یہ دلیل پیش کی کہ عالمی سرمایہ داری کو ’’ابھرتی‘‘ہوئی معیشتیں، جن میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ کو شامل کیا جارہا تھا، اس کو سہارا دے کر مستحکم بنائیں گی۔ لیکن اس دوران ہم نے دیکھا کہ یہ تمام معیشتیں بھی بری طرح تنزلی کا شکار ہیں اور ان ملکوں کی بلند اور تیز شرحِ نمو ان ممالک میں موجود غربت میں بھی قطعاً کوئی کمی نہیں لا رہی تھی اور وہ بھی اب تیزی سے گر گئی ہیں۔ ان تمام ممالک میں پیداوار، معاشی ترقی اور شرحِ نمو آدھی سے بھی کم رہ گئی ہیں۔
مارکسزم نے سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کا جائزہ لیتے ہوئے یہ تناظر پیش کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام قومی معیشتوں سے نکل کر ایک عالمی معیشت میں منتقل ہو جائے گا۔ اس لیے حالیہ گلوبلائزیشن کوئی نئی چیز نہیں بلکہ 1914ء میں شاید اس سے زیادہ معاشی عالمگیریت جنم لے چکی تھی۔ ہم ایک عالمی معاشی اکائی میں رہ رہے ہیں۔ ایک عالمی منڈی ہے جس کا ایک کچل دینے والا جبر اس عالمی منڈی کے ہر سیاسی اور ریاستی یونٹ پر مسلط ہے۔ سرمایہ داری نظام میں رہتے ہوئے کوئی ملک، کوئی خطہ، کوئی سماج اس جبر، استحصال اور سامراجی لوٹ کھسوٹ سے بچ نہیں سکتا۔ 183 اجارہ داریاں دنیا کی 85 فیصد معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس جکڑ کو سامراجی مالیاتی ادارے خصوصاً غریب ممالک کی معیشتوں کو اپنے قبضے میں لے کر مزید مضبوط کرتے ہیں۔ اس پسِ منظر میں اگر پاکستان کی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو اس کی حالت زار پر خود اس پر حاکمیت کرنے والے چیخ وپکارکر رہے ہیں۔ اس ملک کی مجموعی پیداوار اور دولت کا تقریباً 70 فیصد صرف سامراجی قرضوں کے سود اور ان کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فوجی اسلحے اور تباہی کے آلات پر صرف ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دنیا کے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے 6 ممالک کی لسٹ میں آتے ہیں جبکہ صحت، تعلیم، نکاس، پانی اور دوسری سماجی ضروریات کی لسٹ میں دنیا کے آخری 6 ممالک میںآتے ہیں۔
یونیسف کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کا شکار 5 سال سے کم عمر 44 فیصد بچے کبھی ایک مکمل انسان نہیں بن پائیں گے یعنی ان کی Stunted Growth ہوئی ہے۔ یہ بچے بڑے ہو کر اپنی اگلی نسل جیسی قامت اختیار نہیں کر پائیں گے یعنی صرف پندرہ سال بعد پاکستان کی آدھی آبادی کے قد اپنی نسل کے باقی افراد کی نسبت چھوٹے ہوں گے۔ ورلڈبینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور تقریباََ 21فیصد غذائی ضروریات کے حصول میں قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی بینک کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 15سال سے زائد عمر کے 50 فیصد افراد بیروزگار ہیں۔ بڑھتی ہوئی افراطِ زر مزید غربت کو جنم دے رہی ہے۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے مطابق غذائی اجناس کی قیمتوں میں ہونے والا 10 فیصد اضافہ 2.2 فیصد یعنی 34 لاکھ مزید پاکستانیوں کو سطحِ غربت سے نیچے دھکیل دیتا ہے اور گزشتہ چند ماہ میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں69لاکھ لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر روز مزید 30 ہزار سے زئاد افراد غربت کی لکیر سے نیچے گرتے ہیں۔
پاکستان میں 78 فی صد آبادی انتہائی غربت میں رہ رہی ہے، 82 فیصد غیر سائنسی علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ 60 فی صد بچے سکول نہیں جا سکتے۔ ہر سال 5 لاکھ خواتین زچگی کے دوران طبی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی ہی زندگانی کھو دیتی ہیں۔ ہر ایک ہزار افراد کے لیے ہسپتال میں 0.6 بستر ہیں۔ 52 فیصد آبادی کے پاس بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے۔ بجلی، پانی، ٹرانسپوٹ، ریلوے اور تمام دوسرے سماجی و صنعتی انفراسٹرکچر کے شعبے گل سڑ کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ قومی مسئلہ حل ہونے کے بجائے ایک خونریز پیچیدگی میں داخل ہو گیا ہے۔ جس سے انتشار شدت اختیار کرتا جا رہاہے۔ ریاست میں مذہبی جنون شدت سے سرائیت کر چکا ہے، جس سے ریاست کا ہر ادارہ تعصب اور رجعتیت کا شکار ہے۔ جمہوریت یہاں صرف دولت والوں اور سامراج کے دلالوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ امیروں کے لیے ایک عیاشی، ایک کھلواڑ اور مزید دولت لوٹنے کا اوزار ہے جبکہ محنت کشوں کے لیے یہ محض ایک دھوکہ، ایک فریب ہے۔ جاگیرداری یہاں ایک مسخ شدہ شکل میں ہے۔ یہاں بیشتر بڑی جاگیریں بینکوں میں گروی رکھی جا چکی ہیں اور ان کے عوض حاصل کی جانے والی دولت سے اس نیم جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ سماج کا حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں اور بدکاریوں میں مشغول ہے۔ پاکستان کی کل معیشت میں سفید یا سرکاری معیشت کا حصہ 30 فی صد سے بھی کم ہے۔ 70 فی صد کالا دھن منشیات کے کاروبار، سمگلنگ، بدعنوانی اور دوسرے مجرمانہ ہتھکنڈوں سے حاصل ہوتا ہے۔ مذہبی دہشت گردی اس کی پیداوار اور اس کی محافظ بھی ہے۔ اس ریاست کے تمام اداروں میں کالے دھن کی سرائیت سے ریاست اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے اور یہ کالا دھن اس ریاست کے مختلف گروہوں کے درمیان اختیارات اور تصادموں کا باعث بن رہا ہے۔ سیاست میں اس کی سرائیت بھی اسی نوعیت کے نتائج کی حامل ہے اور اس سیاست کو کالا دھن خرید کر اس کو اپنے حجم اور جرائم میں اضافے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ کالی معیشت پاکستان میں 72.8 فی صد روزگار فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی سرکاری معیشت کی شرح نمو تقریباً 2 فی صد ہے جبکہ کالی معیشت 9 فیصد کی شرح سے نمو پا رہی ہے۔ لیکن یہ صنعتی اور پیداواری صنعتوں میں نہیں لگائی جاتی بلکہ سروسز کے شعبوں، تعمیرات، ہاؤسنگ اور ٹرانسپورٹ وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح تعلیم اور علاج کے شعبوں میں اس کالے دھن کی سرمایہ کاری بہت بڑی شرحِ منافع کے حصول کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
یہاں آنے والی ہر سیاسی یا فوجی حکومت اور ریاستی بیور کریسی اپنے تاریخی استرداد کی وجہ سے سامراجی گماشتگی کر رہی ہے۔ فوجی آمریت ہو یا سویلین جمہوریت اصل طاقت اور جبر جس کے نیچے یہ سماج سلگ رہا ہے وہ مالیاتی سرمائے کا ہے۔ جسکا پھر بڑا حصہ مجرمانہ کالے دھن پر مبنی ہے۔ لیکن جو معاشی پالیسیاں ہر حکومت بناتی ہے وہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے سامراجی مالیاتی اداروں کے نسخوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ جس کا مقصد سامراجی اجارہ داریوں اور سرمایہ داری کے منافعوں میں تیز ترین اضافہ اور محنت کشوں کے روزگار اور زندگیوں کو مزید اذیت ناک بنانا ہی ہو سکتاہے۔ مستقل ملازمتوں کو ختم کر کے ٹھیکیداری نظام کو رائج کرنا، نجکاری کے ذریعے بیروزگاری، لبرلائزیشن کے ذریعے اجارہ داریوں کو منافعوں اور دولت کی بلا روک رکاوٹ ترسیل، ڈی ریگولیشن کی پالیسی کے ذریعے بینکوں کو قرضے دینے اور مختلف سکیموں کے ذریعے انتہائی منافع بخش کاروبار کرنے کی کھلی چھوٹ جیسے نسخوں کے ذریعے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں کا حکمران طبقہ یہاں سرمایہ دارانہ یاقومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک فریضہ بھی مکمل نہیں کر سکا جس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے جرائم پسماندگی، غربت اور محرومی کے سمندر میں تضادات کو تیز سے تیز تر کر رہے ہیں۔ ان تضادات کے پھٹنے سے یہاں 69۔1968ء کا انقلاب برپا ہوا تھا۔ ایک طرف تیز ترین صنعت کاری ہو رہی تھی اور دوسری جانب یہ صنعت کاری سماجی ترقی نہیں کر رہی تھی جس سے یہ انقلاب پھٹا تھا۔ ایک مارکسی قیادت اور پارٹی کے فقدان کی وجہ سے یہ انقلاب ایک سوشلسٹ فتح سے ہمکنار نہیں ہو سکا تھا۔ آج وہی تضادات کہیں زیادہ شدید اور اذیت ناک ہو چکے ہیں۔ قومی جمہوری انقلاب کے فرائض یہاں کا حکمران طبقہ پورے نہیں کر سکتا۔ سرمایہ داری میں یہ ممکن ہی نہیں۔ صرف بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لئے ہر سال 13 لاکھ نئے روزگار پیدا کرنا ضروری ہیں، دیوالیہ پن سے بچنے کے لئے ہر سال پاکستان کی معیشت کو 7 سے 8 فیصد کی شرحِ نمو درکار ہے، جس کے لئے ہر سال ساڑھے تین کھرب روپے درکار ہیں۔ جو پاکستان کے GDP کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام اتنا گل سڑ چکا ہے کہ یہ کسی روشن خیالی اور ترقی پسندی کی بجائے رجعتیت اور مذہبی جنون کو جنم بھی دے رہا ہے اور اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے اس مذہبی دہشت گردی کے ذریعے محنت کشوں کے خون سے ہولی بھی کھیل رہا ہے۔
جہاں معیشت اور سماج گل سڑ چکے ہیں وہاں ریاست، سیاست، صحافت، ثقافت، اخلاقیات اور ماحولیات بھی انتہائی بوسیدہ اور تعفن آمیز شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اس صورت حال میں یہ نظام اس معاشرے کو تیزی سے بربریت کی جانب دھکیل رہاہے۔ یہ نظام اس سماج کے جسم میں ایک ناسور بن گیا ہے جس کو ایک انقلابی جراحی سے ہی چیر کر باہر پھینکا جا سکتا ہے۔ تمام ادارے جس تنزلی اور خستگی کا شکار ہو چکے ہیں ان کا وجودیہاں کے سماج پر ایک بدبودار لاش کا بوجھ بن کر رہ گیا ہے۔ اس کیفیت میں پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ کار نہیں ہے جس سے اس معاشرے کی لوٹی ہوئی دولت سامراجی اثاثوں اور حکمرانوں کی بیہودہ استحصالی رقوم کو ضبط کیا جا سکے گا۔ ملکیت کے رشتوں کو نجی اور انفرادی ملکیت سے نکال کر یکسر اشتراکی ملکیت میں دینے سے ہی اجتماعی ترقی ممکن ہے۔ ان میں صنعت وحرفت، زراعت اور تمام حاوی معیشت کے شعبے آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں پھر ایک انقلابی تحریک ابھرے گی۔ لیکن اس تحریک کی فتح اور کامیابی کے لیے ایک مارکسی لینن اسٹ پارٹی درکار ہے۔ کیونکہ یہی پارٹی وہ اوزار ہوتی ہے جس کے ذریعے محنت کش طبقہ ایک فیصلہ کن فتح سے سرفراز ہو سکتا ہے۔ یہ پارٹی درحقیقت ریاست کے اندر ایک ریاست ہوتی ہے۔ جو انقلاب کے بعد مزدوروں کی سوشلسٹ ریاست بنتی ہے۔ لیکن ایک انقلابی پارٹی سب سے پہلے ایک نظریہ ہوتی ہے۔ یہ نظریہ صرف مارکسزم ہی ہے۔
آج دنیا بھر میں جہاں ایک عہد بدل رہا ہے۔ نئی تحریکیں پھوٹ رہی ہیں، وہاں مارکسزم کا بھی احیا ہو رہا ہے۔ اس کتاب کو چھاپنے کا مقصد اس نئی نسل کو مارکسزم کے ان نظریات سے روشناس کروانا ہے جس پر عبور حاصل کر کے ہی وہ کیڈر بن سکیں گے جو یہاں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کر کے اس کو فتح یاب کریں گے۔

لال خان
لاہور، جون2013ء