[تحریر : لال خان]
جہاں انقلاب کی فتح کا سائنسی تجزیہ ضروری ہے وہیں مارکسسٹوں پر تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی زوال پذیری اور سوویت یونین کے انہدام کی سائنسی وضاحت بھی کریں۔ لیکن مارکسزم تناظر کی سائنس ہے اورواقعات کے رونما ہونے کے بعد ان کا تجزیہ کرنا عمل کا عامیانہ پن ہوتا ہے۔ مارکسسٹوں نے بہت پہلے ہی سوویت یونین کے انہدام کی پیشن گوئی کر دی تھی جس کی ابتداء انقلاب کے لیڈر لینن سے ہوئی جس نے کبھی بھی مارکسی نکتہ نظر سے ایک ملک میں سوشلزم کی پیش بینی نہیں کی تھی۔ 7اکتوبر 1918کو لینن نے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا ’’عالمی تاریخ کے نکتہ نظر سے، تنہا رہنے کی صورت میں ہمارے انقلاب کی حتمی فتح کی کوئی امید نہیں ہے، اگر دوسرے ممالک میں انقلابی فتوحات نہ ہوں۔ ۔ ۔ ان تمام مشکلات سے ہماری نجات کا راستہ سارے یورپ کا انقلاب ہے۔ ہر طرح کے واقعات اور تمام ممکنہ حالات میں، اگر جرمنی میں انقلاب نہ آیا، تو ہم فنا ہو جائیں گے‘‘۔ لینن کے ساتھ انقلاب کے لیڈر لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں لکھی تاریخ ساز کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘(Revolution Betrayed) میں سائنسی طریقے سے پچاس برس بعد ہونے والے واقعات کی پیشن گوئی کر دی کہ ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب کے فتح مند نہ ہونے اور سوویت یونین کے اندر پنپ رہی سٹالنسٹ افسرشاہی کے خلاف محنت کشوں کا جمہوری سیاسی انقلاب رونما نہ ہونے کی صورت میں سوویت یونین کیوں اور کیسے منہدم ہو گا۔ ٹیڈ گرانٹ نے 1943ء میں شاندار کتاب ’’مارکسی نظریہِ ریاست‘‘ ( Marxist Theory of the State) میں اس کا مزید تجزیہ اور وضاحت کی ہے۔ اگرچہ منفی انداز میں لیکن، 1980ء کی دہائی کے اواخر اور1990ء کی دہائی کے آغاز میں دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام نے ان تناظروں کو درست ثابت کر دیا۔ 1917ء کا انقلاب روس کوئی الگ تھلگ اورایک ملک کا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے دور رس بین الاقوامی اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے نہ صرف روس میں جاگیر داری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا بلکہ سامراجی غلبے کی زنجیریں بھی توڑ ڈالیں۔ اس نے سوویت یونین کی سرحدوں سے کہیں بڑھ کر انقلابی تحریکوں کو جنم دیا، خاص طور پر یورپ میں۔ سرمایہ داری کے مراکز میں عوامی بغاوتوں نے سامراجی آقاؤں کو خوفزدہ کر دیا۔ 1919ء میں ورسائی امن کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم لائڈ جارج نے ایک خفیہ مراسلے میں اپنے فرانسیسی ہم منصب کو لکھا کہ’’سارا یورپ انقلابی حرارت کی لپیٹ میں ہے۔ محنت کشوں میں موجودہ حالات کے خلاف نہ صرف عدم اطمینان ہے بلکہ وہ غصے اور بغاوت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یورپ کے ایک کونے سے دوسرے تک موجودہ نظام کے سیاسی، سماجی اورمعاشی پہلو ؤں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘ انقلاب کی اس ابھرتی لہر کے مرکز کو تباہ کرنے کے لیے نومولود سوویت ریاست کے خلاف اکیس سامراجی افواج نے مل کر حملہ کر دیا۔ اگرچہ انقلاب بذات خود نسبتاً پر امن معاملہ تھا اورسرکشی کے دوران صرف نو افراد ہلاک ہوئے لیکن سامراجی حملے اور ان کی حمایت یافتہ رد انقلابی سفید افواج نے پہلی عالمی جنگ سے تباہ حال پسماندہ ملک میں غضب ناک قتل عام، خون ریزی، بربادی، بھوک اور تباہی برپا کر دی۔ شدید محرومی اور عوام کی بربادی کی وجہ سے جو خانہ جنگی اور ناکہ بندی کی وجہ سے بد تر ہو گئی، مارکس کے الفاظ میں ’’انفرادی بقا کی جدوجہد‘‘ ختم یا کم نہیں ہوئی بلکہ انتہائی پر زور شکل اختیار کر گئی۔ جرمنی میں (1918-19ء اور1923ء)، چین میں (1924-25ء) اور برطانیہ میں (1926ء) کے انقلابات اور دیگر کئی ممالک میں انقلابات کی ناکامیاں بالشویک انقلاب کے لیے مہلک ثابت ہوئیں۔ اس نے انقلاب کی تنہائی کو شدید کیا اور قوم پرستانہ زوال پذیری کو جنم دیا۔ سامراجی جارحیت کو سرخ فوج کی جانباز لڑائی اور سامراجی ممالک کے پرولتاریہ اور افواج کی حمایت نے مل کر شکست دے دی۔ ٹراٹسکی نے جنگ سے برباد تین لاکھ کی روسی فوج سے پچاس لاکھ جانباز اور منظم سرخ فوج بنا ڈالی۔ اس سامراجی خانہ جنگی میں ان گنت بالشویک کیڈر شہید ہو گئے۔ اس سے خلا پیدا ہوا اور موقع پرست مفاد پرست عناصر سوویت حکومت میں گھس گئے۔ اجناس کی قلت اور کمیابی، جنگ کے ہاتھوں صنعت اور زراعت کی تباہی سے عمومی بدحالی پیدا ہوئی جس نے انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری میں اہم کردار ادا کیا۔
لینن نے اس زوال پذیری کے خلاف لڑائی لڑی جو اس کی 1924ء میں بے وقت موت کے بعد ٹراٹسکی نے جاری رکھی۔ لینن کی وصیت کو،جس میں اس نے افسر شاہانہ انحطاط پر تنقید اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے پر زور دیا، کریملن کی آہنی تجوریوں میں چھپا دیا گیا اور 32 سال بعد بالآخر 1956ء میں کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کی بیسویں کانگریس پر ظاہر کیا گیا۔ لیکن مخالف معروضی حالات، پرولتاریہ کے ہراول دستوں کی جنگ اور انقلاب سے تھکان سے ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جس میں سوویت حکومت اور ریاستوں کے اندر سٹالن کے گرد افسر شاہی ابھرنے لگی۔ ٹراٹسکی نے لیفٹ اپوزیشن قائم کی اور اس زوال پذیری کے خلاف شدید مزاحمت کی لیکن اسے کچل دیا گیا جس کی وجہ انقلاب کی لہر کا پیچھے جانا تھا۔ اس کے نتیجے میں افسر شاہانہ مطلق العنان نظام مستحکم ہوا جس میں بہت بڑی مراعات اور عیاشیاں شامل تھیں۔ اجرت میں زیادہ سے زیادہ فرق کا 1اور 4کا تناسب ختم کر دیا گیا۔ اکتوبر انقلاب کے خلاف سیاسی رد انقلاب اتنا جابر تھا کہ 1940ء تک 1917ء میں انقلاب کرنے والی بالشویک پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اراکین میں سے روس میں سٹالن کے علادہ صرف ایک رکن بچاتھا۔ باقی قتل کر دئیے گئے یا انہوں نے احتجاجاً خودکشی کر لی۔ بچ جانے والے قید تھے یا پھر جلاوطن۔ لیکن انقلاب کی سٹالن اسٹ زوال پذیری کے باوجود معیشت منصوبہ بند ہی رہی۔ افسر شاہی ذرائع پیداوار کا مالک کوئی طبقہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا گروہ یا پرت تھی جس کا زائد پیداوار پر قبضہ اور کنٹرول تھا۔ ان سب مسائل کے باوجود سوویت یونین کی معیشت نے اس رفتارسے ترقی کی جس کی مثال سرمایہ داری میں کبھی اور کہیں نہیں ملتی۔ اپنی شاندار کتاب’’روس، انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ میں ٹیڈ گرانٹ لکھتا ہے کہ ’’1913ء(قبل از جنگ پیداوار کا عروج) سے 1963ء کے پچاس برسوں میں دو عالمی جنگوں، بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی ودیگر آفات کے باوجود مجموعی صنعتی پیداوارمیں 52گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اسی دوران امریکہ میں یہ اضافہ چھ گنا سے کم اور برطانیہ میں بمشکل دو گنا تھا۔ دوسرے لفظوں میں سوویت یونین ایک پسماندہ زرعی ملک سے دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا، جس کے پاس بہت بڑی صنعت، بلند ثقافتی معیار اور امریکہ اور جاپان کے مجموعے سے زیادہ سائنس دان تھے۔ اوسط عمر دوگنی ہو گئی اور بچوں میں شرح اموات نو گنا کمی ہوئی۔ اتنے مختصر وقت میں اتنی بڑی معاشی ترقی کی مثال دنیا میں نہیں ملتی‘‘۔ سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت اور برابری کو یقینی بنایا گیا۔ سکول میں کھانے کی مفت فراہمی، بچوں کے لیے دودھ،حمل کے مشورہ مراکز، زچگی کے مراکز،چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے مراکز اور دوسری مفت سہولیات مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کی جاتی تھیں۔ منصوبہ بند معیشت کی برتری جدلیات کی زبان میں نہیں بلکہ بے مثال سماجی اور مادی ترقی کی شکل میں دنیا پر ثابت کی گئی۔
آج عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران میں اس دلخراش نظام کے خلاف بڑی تحریکیں ابھر رہی ہیں جس نے انسانیت کی وسیع اکثریت کو ذلت، غربت اور بیماری کی اتھاہ گہرایوں میں دھکیل رکھا ہے۔ یہ ایک تاریخی طور پر متروک نظام ہے جو نسل انسانی کو صرف مزید درد اور غم دے سکتا ہے۔ مارکس اور اینگلز شروع ہی سے جانتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران زائد پیداوار یا زائد پیداواریٍ صلاحیت کا بحران ہے۔ انتہائی زیرک بورژوا ماہرین معیشت بھی سرمایہ داری کے اس تضاد کو تسلیم کر رہے ہیں اور اس حقیقت کو بھی کہ اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ اکانومسٹ عالمی معیشت کے تجزیے میں گریہ زاری کرتے ہوئے لکھتا ہے’’عدم مساوات کو کم کرنے کے طریقے تلاشنے کے لیے جدید سیاست کی تجدید کی ضرورت ہے۔ ڈھیر کی چوٹی پر بیٹھے چند افراد تسلیم نہیں کریں گے کہ عدم مساوات بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ لیکن اسے کم کرنے میں ان کا اپنا بھی مفاد ہے، کیونکہ اگر اس میں اضافہ ہوتا گیا، تو تبدیلی کی خواہش بڑھتی چلی جائے گی اور ایسے سیاسی نتائج نکل سکتے ہیں جو کسی کے بھی مفاد میں نہ ہوں گے‘‘۔ طلوع ہوتے اس نئے عہد کے اندر ساری دنیا میں طبقاتی جدوجہد کی تجدید میں ابھرنے والی عوامی بغاوتیں واضح طور پر سرمایہ داری کو مسترد کر رہی ہیں۔ ان تحریکوں کو درپیش سب سے دشوار مسئلہ ایک متبادل نظام کا تعین کرنا ہے۔ بحران کے حل کے لیے ایک سائنسی متبادل کے طور پر انقلابی سوشلزم کی مخالفت کرنے میں سابقہ سوشلسٹوں اور ’’کمیونسٹوں‘‘ کی اکثریت پیش پیش ہے۔ انہوں نے ’تاریخ کا خاتمہ‘ وغیرہ جیسی رجعتی تھیوریوں یعنی سرمایہ داری کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ نقصان وہ دانشور پہنچا رہے ہیں جو زہریلی ترمیم پسندی کے ذریعے مارکسزم کی ’تجدید‘ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم انسانیت کی نجات کا واحد راستہ اب بھی انقلابی مارکسزم ہے۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے پچانوے برس بعد، تاریخ فرائض کی ادائیگی کا یہی واحد راستہ یہی ہے۔ 1917ء میں بر صغیر میں بائیں بازو کے کارکنان تک انقلاب روس کی خبر پہنچنے میں دو ہفتے لگ گئے تھے۔ اب عوام ٹیلی وژن پر انقلاب کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔ پانچ براعظموں کے نو سو سے زیادہ شہروں میں ’وال سٹریٹ پر قبضہ ‘ کی تحریک کے حق میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ یہ وہ بین الاقوامیت ہے جس کی مارکس اور اینگلزنے پہلی انٹر نیشنل بنا کر پیش بینی کی تھی۔ انسانی تاریخ کے اس موڑ پر اگر ایک اور اکتوبر ہوا تو وہ ملکی سرحدوں میں محدود نہیں رہے گا۔ آج کسی ایک بڑے ملک میں سوشلسٹ انقلاب لینن کے اس عزم کی تکمیل کرے گا کہ پوری دنیا پر چھا جانے والے انقلابی طوفان سے ساری دنیا سوویت یونین میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نسل انسانی کے ہاتھوں تسخیرِ کائنات کے عمل کا آغاز ہو گا۔
متعلقہ:
حصہ اول: بالشویک انقلاب کے95 سال؛ جب انکارکا فرماں اترا