[تحریر : لال خان]
بعض اوقات کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن پھر چند دنوں میں دہائیوں سے زیادہ اور بڑے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔ بیس سال قبل، سوویت یونین کے انہدام کے بعدنہ رکنے والی تکرار تھی،کہا جا رہا تھا کہ سیاست اور معیشت کے بڑے معرکوں کا حتمی فیصلہ ہو گیا ہے اور لبرل جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت فتح یاب ہو چکی ہیں۔ سوشلزم کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ سرمایہ داری کے منصوبہ ساز فتح کی خوشی میں مست تھے۔ فرانسس فوکو یاما کا پیش کردہ نظریہ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ اور جارج بش سینئر کے1990ء کی دہائی میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا مقصد ایک ایسی دنیاتھی جس میں بغیر حریف کے ایک ہی طاقت غالب ہو۔
صرف ایک دن یعنی 15ستمبر2008ء کو ہونے والے واقعات نے ان سب منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ لیہمن برادرز کے انہدام نے واضح طورپر سرمایہ داری کے پر ہوس ماڈل کو بے نقاب اور برباد کر دیا جسے جدید معیشت کو چلانے کے واحد طریقے کے طور پر ساری دنیا پر زبردستی مسلط کیا جا رہا تھا اور اس کی قیمت بہیمانہ عدم مساوات، استحصال، جنگوں اورنو آبادی قبضوں کی صورت میں چکانی پڑ رہی تھی۔ نیو لبرل ازم اور نیو کنزرویٹو ازم کے نظریات کی جوڑی آزمائی جا چکی ہے اور نتیجہ صرف بربادی کی صورت میں نکلاہے۔ 2011ء کے عرب انقلابات نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے ممالک کویکے بعد دیگرے اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ ان کی وجہ سے ساری دنیا میں ایسے دھماکہ خیز واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی مثال گزشتہ دو دہائیوں میں نہیں ملتی۔
ان واقعات کی تیزی اور شدت سے ساری دنیا میں حکمران اشرافیہ لرزکر رہ گئی ہے۔ ان انقلابات کے انیسویں اور بیسویں صدی کے انقلابات سے ان گنت موازنے کیے گئے لیکن بیسویں صدی کا سب سے اہم واقعہ میڈیا کے تجزیوں اور رپورٹوں سے صاف طور پر غائب تھا، یعنی 1917ء کا بالشویک انقلاب۔ اور ایسا حادثاتاً یا اتفاقاً نہیں ہے۔ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا جودنیا بھر کے حکمران طبقات کے دلوں میں اس انقلاب کا نام بھی لینے کے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ حکمران طبقے کی جانب سے ’سوشلزم‘، ’مارکسزم‘ ، ’کمیونزم‘ کی موت کا مسلسل راگ الاپے جانے کے باوجود انہیں یہ خوف لاحق ہے۔
منتخب نمائندگی کے چربوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن شا ید پاکستان کی حکمران اشرافیہ دنیا میں سب سے زیادہ بیہودہ ہے۔ ایک جانب وہ ’سوشلزم کی موت‘ کے رٹے ہوئے سبق کو دہرائے جا رہے ہیں اور دوسری جانب زیادہ تر دائیں بازو کے سیاست دان خوفزدہ ہو کر ایک خونی انقلاب کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ کچھ تو انتہائی اوچھے انداز میں انقلاب فرانس کو بحران کا حل بنا کر پیش کر رہے ہیں، نہ جانتے ہوئے کہ فرانس میں ہونے والا کون سا انقلاب۔ 1789ء سے 1968ء تک فرانس میں پانچ بورژوا اور دو پرولتاری انقلابات رونما ہو چکے ہیں۔ 1871ء کا فتح مند پیرس کمیون تاریخ کا پہلا انقلاب تھا جس میں محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ستر دنوں سے زیادہ اسے برقرار رکھاجبکہ فرانس میں مئی1968ء کی انقلابی تحریک 1917ء کے انقلاب روس سے بھی بڑی تھی لیکن فرانس میں محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں کے لیڈروں کی غداری کی وجہ سے اسے شکست ہو گئی۔ لیکن بالشویک انقلاب پر ایسی چپ سادھی جارہی ہے جیسے وہ وقوع پذیر ہی نہیں ہوا۔ اگر کوئی اس کا نام لینے کی جرات کر بھی لے تو آج کے سیاسی اکابرین اور ان کے ’’ذہین دانشور‘‘ فوراً کہتے ہیں ’’اوہ! جو روس میں ناکام ہو گیا‘‘۔ سماج میں سیاست کے اندر بہتان تراشی کے جبر کا تجزیہ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی سماجیات کا ماہر پیدا نہیں ہوا۔
اکتوبر1917ء کے انقلاب روس نے تاریخ کا رخ موڑ دیاتھا۔ انقلابی واقعات میں شریک اور عینی شاہد امریکی صحافی اور سوشلسٹ جان ریڈ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’دنیا کو جھنجوڑ دینے والے دس دن‘‘ میں لکھتا ہے ’’بالشوازم کے بارے میں کوئی جو بھی رائے رکھے، اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ انقلاب روس انسانی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویک دنیا بھر کے لیے اہم ہے ‘‘۔ قدیم روسی کیلنڈر کے مطابق انقلابی سرکشی اور بالشویکوں کا اقتدار پر قبضہ 26 اکتوبرکی شب ہوا جو جدید عیسائی کیلنڈر میں 7نومبر بنتا ہے۔
انقلاب کی فتح نے چھوٹی سی اقلیت میں موجود جابروں کے طبقے سے اقتدار چھین کر اسے سماج میں موجود محنت کش طبقات کی وسیع اکثریت کے ہاتھوں میں دے دیا۔ بورژوا ریاست کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر پرولتاریہ کی قیادت کرتی پارٹی کے قبضے کے عمل میں محنت کشوں کی وسیع اکثریت کی شعوری مداخلت اور شمولیت شامل تھی۔ یہ اب تک کا واحد انقلاب ہے جو کلاسیکی مارکسسٹ لینن اسٹ خطوط پر رونما ہوا۔ لینن نے اس انقلاب کی مطمع نظر حقیقی تبدیلی کی وضاحت کی۔ دسمبر 1917ء میں اس نے لکھا ’’آج اہم ترین فرائض میں سے ایک محنت کشوں کا آزادانہ طور پر آگے بڑھنے کے اقدامات اٹھانا ہے،بشمول تمام محنت کش اور استحصال زدہ عوام کے، او ر ایسا ہر ممکنہ حد تک وسیع پیمانے پر تخلیقی تنظیمی کام کے اندر۔ ہر قیمت پر ہمیں اس قدیم، بیہودہ، وحشی، گھٹیا، اور امتیاز پر مبنی تعصب کا خاتمہ کرنا ہے کہ ٖصرف نام نہاد بالائی طبقہ، صرف امیر اور وہ لوگ جو امیروں کے سکولوں میں پڑھے ہیں، سوشلسٹ سماج کی تنظیمی نشوونما اور ریاست کا انتظام چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں‘‘۔
بالشویک پارٹی کی سب سے نمایاں خاصیت یہ تھی کہ ان کے نزدیک موضوعی مقصد، یعنی محنت کش عوام کے مفادات کا تحفظ، انقلاب کی حرکیات کے تابع تھا جو معروضی طور پر کٹھن راستہ ہے۔ پارٹی کی حکمت عملی کی بنیاد، انقلابات اور تحریکوں کا تعین کرنے والے قوانین کی سائنسی دریافت پر تھی۔ مزحکوں(غریب کسانوں) نے لینن کو نہیں پڑھا تھا، لیکن لینن مزحکوں کی سوچ کو پڑھنا خوب جانتا تھا۔ مجبور اور استحصال زدہ عوام کی جدو جہد کا راستہ نہ صرف ان کے مطالبات ، خواہشات اور ضروریات متعین کرتی ہیں بلکہ ان سب سے بڑھ کر ان کی زندگی کے تجربات ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بالشویکوں نے کبھی بھی متکبرانہ تعصب یا جدو جہد کے اندر شامل عوام کے آزادانہ تجربات کی نسبت خود کو بر تر سمجھتے ہوئے تحقیر آمیز رویہ نہیں رکھا۔ بلکہ اس کے برعکس تنظیم کی تعمیر کے لیے یہ ان کے نزدیک نکتہ آغاز اور بنیاد تھی۔ جہاں اصلاح پسند اور جھوٹے انقلابی مشکلات، رکاوٹوں اور دشواریوں کا رونا روتے، وہاں بالشویک ان مصائب سے لڑتے ہوئے آگے بڑھے۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’انقلابِ روس کی تاریخ‘‘ میں ٹراٹسکی ان کے متعلق لکھتا ہے ’’بالشویک تاثر میں نہیں بلکہ عمل میں انقلابی تھے، ظاہر میں نہیں بلکہ اپنے جوہر میں انقلابی تھے۔ ان کی پالیسی طاقتوں کی حقیقی صف بندی کی روشنی میں طے پاتی، نہ کہ کسی ہمدردی یا مخالفت کے تحت۔ ۔ ۔ بالشوازم نے وہ سچے اور کھرے انقلابی تخلیق کیے جن کے نزدیک موجودہ سماج کے ساتھ متصادم تاریخی مقاصد ان کے انفرادی حالاتِ زندگی، خیالات اور اخلاقیات سے بالا تر تھے۔ ٹھوس عدم مصالحت کے ذریعے پارٹی میں بورژوا خیالات سے ضروری فاصلہ روا رکھا جاتا، جس میں بنیادی کردار لینن کا تھا۔ لینن نشترزنی سے کبھی نہ تھکتا، اور ان کڑیوں کو کاٹتا چلا جاتا جو ایک پیٹی بورژوا ماحول کی وجہ سے پارٹی اور عمومی سماجی رائے کے درمیان پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لینن نے پارٹی کو اپنی سماجی رائے تخلیق کرنا سکھایا، جس کی بنیاد ابھرتے ہوئے طبقے کے خیالات اور محسوسات پر تھی۔ چنانچہ چناؤ اور تربیت کے عمل اور مسلسل جدوجہد سے بالشویک پارٹی نے نہ صرف سیاسی بلکہ اپنا ایک اخلاقی راستہ بھی استوار کر لیا، جو کہ بورژوا سماجی رائے سے آزاد اور سختی سے اس کے خلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بالشویک اپنی تنظیم کے اندر مختلف سمتوں میں جھکاؤ اور پس و پیش پر قابو پاتے ہوئے اپنے عمل کے اندر وہ دلیری اور عزم پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے بغیر اکتوبر کی فتح نا ممکن تھی۔ ‘‘
فتح مند سرکشی کے بعد لینن نے ’’کل روسی سووتیوں کی کانگریس‘‘(All Russian Congress of Soviets) سے خطاب میں کہا ’’تاریخ کے کچرے کے صاف ہونے کے بعد خالی ہوئی زمین پر اب ہم سوشلسٹ سماج کی بلند اور شاندار عمارت کی تعمیر شروع کریں گے‘‘۔ انقلاب سے سماجی و معاشی تبدیلی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ جاگیریں، صنعتیں، کارپوریٹ اجارہ داریاں اور معیشت کے بڑے اور اہم حصوں کو نو زائیدہ محنت کش ریاست نے ضبط کر لیا۔ مالیاتی اشرافیہ کی آمریت کا خاتمہ کر دیا گیا، تمام خارجی تجارت او ر لین دین پر ریاست کی اجارہ داری قائم کر دی گئی۔ وزراء کی مراعات اور عیاشیوں کا خاتمہ کر دیا گیا اور انقلاب کے رہنماؤں کے حالاتِ زندگی انتہائی معمولی تھے۔ اپنی کتاب ’’ایک انقلابی کی یادداشتیں‘‘ (Memoirs of a Revolutionary) میں وکٹر سرج نے لکھا کہ’’کریملن میں لینن ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا جو ملازموں کے لیے بنایا گیا تھا۔ حالیہ موسم سرما میں باقیوں کی طرح اس کے پاس بھی کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ حجام کے پاس جا کر وہ اپنی باری کا انتظار کرتا اور کسی اور کے اپنی جگہ اسے دینے کو نا زیبا سمجھتا‘‘۔ ابتدا میں بالشویکوں، بائیں بازو کے سوشل انقلابیوں اور منشویک انٹر نیشنلسٹوں کی مخلوط حکومت تھی۔ صرف فاشسٹ ’’بلیک ہنڈرڈز ‘‘پر پابندی لگائی گئی۔ حتیٰ کہ کیڈٹ جوکہ بورژوا لبرل پارٹی تھی اسے بھی انقلاب کے بعد کام کرنے کی آزادی تھی۔ نئی حکومت تاریخ کے سب سے زیادہ جمہوری نظام پر مبنی تھی، یعنی سوویتوں پر جو معیشت، زراعت، صنعت، فوج اور سماج کا جمہوری طریقے سے کنٹرول اور انتظام چلانے کے لیے بنیادی سطح پر محنت کشوں ، کسانوں اور فوجیوں کی کونسلیں تھیں۔ سوویت نظامِ حکومت کے بنیادی اصول درج زیل تھے:
*سوویت ریاست کے تمام عہدوں کے لیے آزادانہ جمہوری انتخابات
*اہلکاروں کو واپس بلائے جانے کا حق(Right to recall)
*کسی ریاستی اہل کار کی اجرت ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی
*سماج کو چلانے کی تمام ذمہ داریاں بتدریج اور باری باری سب کو دینا۔
جان ریڈ نے ایک واقعہ رقم کیا ہے جس سے روس کے مجبور و محکوم محنت کش طبقات کے لیے اس انقلاب کے معنی واضح ہوتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے’’افق پر دارالحکومت کی جگمگاتی روشنیاں چمک رہی تھیں، جو رات میں دن کی نسبت کہیں زیادہ شاندار دکھائی دے رہی تھیں، جیسے کسی بیاباں میں جواہرات کا ڈھیر لگا ہو۔ ایک ہاتھ سے ریڑی کھینچتے اور دوسرے سے سڑک کے کنارے جھاڑو لگا تے بوڑھے مزدور نے دور شہر کی روشنیوں کو دیکھا اور انتہائی پر مسرت انداز میں چلایا، ’میرا!‘ اس کے چہرے پر خوشی کا نور تھا اور وہ چلایا ’اب سب کچھ میرا ہے! میرا پیٹرو گراڈ!‘‘۔