’’ذوالفقارعلی بھٹو کے ہئیر سٹائل اور باڈی لینگویج کی نقالی کر لینے سے پارٹی کو 1970ء کی طرح عوام میں مقبول نہیں بنایا جاسکتا۔ پارٹی کو ایک نئے جنم اور ازسر نو ابھار کے لئے ایک بار پھر انقلابی سوشلزم کا پروگرام اپنانا ہوگا۔‘‘
[تحریر: لال خان]
پیپلز پارٹی اور اس کے مختلف دھڑوں کی تمام تر سیاسی سرگرمیاں سالگراؤں اور برسیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ پارٹی قیادت کے سوشلسٹ نظریات سے انحراف اور سرمایہ دارانہ نظام سے مصالحت کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر نظریات اور سیاسی حکمت عملی کی بحث ماند پڑچکی ہے۔ پارٹی میں سے نظریات کے انخلا نے قیادت کی آمریت اور مطلق العنانیت کو جنم دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جلسے اور داخلی اجلاس قیادت کی خوش آمد اور تعریفوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
5جنوری 2014ء چئیر مین ذوالفقار علی بھٹو کی 86 ویں سالگرہ کا دن تھا جسے پیپلز پارٹی کے مختلف رہنمائوں نے حسب روایت کیک کاٹ کر منایا۔ ان میں بھٹو کے قاتل ضیا الحق کا ساتھ دینے والے اور بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے والے بہت سے سیاستدان بھی شامل تھے۔ شاید ہی بھٹو کی سالگرہ کی کسی تقریب میں ان کے نظریات کی بات ہوئی ہو گی۔ بھٹو نے عوام کے دل و دماغ جیتنے کے لئے جو پروگرام دیا تھا اسے موقع پرستی کے تحت بھلا دیا گیا ہے۔ پارٹی کے بنیادی منشور کو منسوخ اوران بنیادوں کو مسخ کر دیا گیا ہے جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی راتوں رات پاکستان کے محنت کش عوام کی سیاسی روایت کا درجہ اختیار کر گئی تھی۔ پارٹی کی نظریاتی اساس کو ذاتیات کے نیچے دبا کراصلیت کو صورت کے پیچھے چھپا دیا گیا ہے۔
1967ء میں قائم ہونے کے بعد کچھ ہی مہینوں میں پیپلز پارٹی کے سیاسی ابھار کی بنیادی وجہ اس عہد کا انقلابی کردار تھا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک اور عوام کی ریڈکلائزیشن نے بھٹو کی سوچ اور شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ بھٹو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر سماج کی معروضی کیفیت جانچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس وقت جب روایتی بایاں بازو بورژوا جمہویت اور مرحلہ وار انقلاب کی نظریاتی زوال پزیری میں غرق تھا، بھٹو نے انقلابی سوشلزم کا پروگرام دیا۔ انہیں تیسری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اور دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے سماجی اثرات کا بخوبی ادراک تھا۔ سب سے بڑھ کر بھٹوان حالات کو سمجھ رہے تھے جنہوں نے پاکستان کے نومولود مزدور طبقے کو طبقاتی شعور عطا کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عملی جدوجہد پر مجبور کر دیا تھا۔ ایک انقلابی طوفان کے پر انتشار معروض میں پارٹی کے قیام اور عوام میں تیز مقبولیت کی وجہ سے ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر پارٹی کارکنان کی تربیت نہیں ہوسکی۔ اس وقت کے زیادہ تر پارٹی رہنماؤں کے’’ سوشلزم‘‘ ایک سیاسی لائحہ عمل اور معاشی متبادل کی بجائے محض نعرہ تھا۔ یہ نظریاتی خلا پارٹی کارکنان کی نظریاتی اور سیاسی تربیت کی راہ میں رکاوٹ بن گیا جس کے باعث تنظیمی ڈھانچے مضبوط بنیادوں پر تعمیر نہیں ہوسکے۔ مختلف رجحانات اور دھڑوں کے مابین سیاسی اختلافات اور نظریاتی ابہام نے پارٹی اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے تمام تر اختیارات اور طاقتیں ایک لیڈر کے ہاتھوں میں مرتکز کردئیے۔ یہی وجہ ہے کہ 1971ء کی جنگی شکست کے بعد عدم استحکام کا شکار سرمایہ دارانہ ریاست پیپلز پارٹی کو اپنے ریاستی ڈھانچوں کے اندر قید کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس وقت ریاست اس حد تک کمزور تھی کہ اگر پیپلز پارٹی کھلی انقلابی بغاوت کا راستہ اپناتی تو ریاستی جبر کے ذریعے اسے کچلنا نا ممکن تھا۔ تمام تر اختیارات کے ایک شخصیت میں ارتکاز نے بھٹو کو اس قابل بنایا کہ وہ پارٹی کے اندر موجود مختلف دھڑوں اور متضاد سماجی رجحانات میں توازن قائم کریں۔ انہوں نے ایک طرف ریاست، اشرافیہ اور مذہبی بنیاد پرستوں جبکہ دوسری طرف مزدوروں اور کسانوں کو بیک وقت مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ بھٹو کو ادھورا انقلاب کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں بڑے پیمانے کی نیشلائزیشن سے حکمران طبقے کو گہرا گھاؤلگا تھا۔ ضیا الحق کے تحت جابرانہ فوجی آمریت کا نفاذ اور بعد ازاں بھٹو کا عدالتی قتل جہاں ایک طرف اس نظام کا عوام سے 1968-69ء کے انقلاب کا انتقام تھا وہاں عوام کو بڑے پیمانے پر متحرک کرسکنے کی اس صلاحیت سے حکمران طبقے کے خوف کا اظہار تھا جو پیپلز پارٹی میں موجود تھی۔ امریکی سامراج نے نہ صرف دانستہ طور پر بھٹو کے عدالتی قتل سے چشم پوشی اختیار کی بلکہ ضیا الحق کے مذہبی رد انقلاب اور ریاستی جبر کی مکمل پشت پناہی بھی کی۔
جیل میں اپنے آخری ایام کے دوران بھٹو نے ماضی اور حال کا ازسر نو تجزیہ کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کئے وہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ اپنی زندگی اورموت کے تجربے کا سب سے اہم سبق انہوں نے بالکل واضح انداز میں اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا؟‘‘ میں درج کیا کہ ’’طبقاتی جدوجہد ناقابل مصالحت ہے۔‘‘ یہ درحقیقت ان کی آخری وصیت تھی۔ بھٹو کے بعد آنے والی پارٹی قیادتوں نے نہ صرف ان کی وصیت کو جھٹلایا بلکہ پارٹی کے بنیادی منشور کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما عوامی حمایت کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہے۔ چند ایک نے تو دائیں بازو کی ہاں میں ہاں ملاکر سوشلزم کو یوٹوپیابھی قرار دے دیا۔ یوسف رضا گیلانی نے کھلم کھلا کہا تھا کہ ’’بھٹو کی نیشلائزیشن کی پالیسی غلط تھی۔‘‘
آج ایک بار پھر بلاول بھٹو زرداری سے امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اگرچہ انہوں نے جارحانہ لہجہ اختیار کیا ہے تاہم وہ بطور معاشی پالیسی نجکاری کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کا اعتراض صرف یہ ہے کہ قومی اساسوں کی فروخت سے چند مخصوص افراد کو مالی فائدہ نہیں ملنا چاہئے۔ اپنے ایک حالیہ مضمون میں بلاول نے آزاد منڈی کی معیشت اور سرمایہ داری کی حمایت کی ہے۔ مئی کے انتخابات میں بدترین شکست کے بعد بھی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت درست نتائج اخذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے ہئیر سٹائل اور باڈی لینگویج کی نقالی کر لینے سے پارٹی کو 1970ء کی طرح عوام میں مقبول نہیں بنایا جاسکتا۔ پارٹی کو ایک نئے جنم اور ازسر نو ابھار کے لئے ایک بار پھر انقلابی سوشلزم کا پروگرام اپنانا ہوگا۔ اس گلے سڑے نظام پر پردہ ڈالنے کی بجائے اسے اکھاڑنے کا منشور عوام کے سامنے رکھنا ہوگا۔ آج یہ نظام 1967ء کی نسبت کہیں زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے اور انقلابی تبدیلی زیادہ جارحانہ اقدامات کی متقاضی ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج اس حقیقت کو واضح کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی زیادہ عرصے تک وراثت میں ملنے والی عوامی حمایت پر انحصار نہیں کر سکتی۔ عوام کا اپنی سیاسی روایات کے ساتھ رشتہ متحرک اور متغیر ہوتا ہے۔ پرانی روایات جب گل سڑ جائیں تو محنت کش عوام نئی روایات تخلیق کرتے ہیں۔
دو متضاد طبقات کے درمیان مصالحت اور سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں معاشی، سیاسی اور سماجی اصلاحات کرنے کی ناکام کوششیں ذوالفقار علی بھٹو کے زوال کا باعث بنی تھیں۔ اس نظام کا خاتمہ کئے بغیر کوئی بہتری ممکن نہیں ہے اور بھٹو کے الفاظ میں ’’یہ بات پتھر پر لکیر کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘