[رپورٹ: حارث قدیر]
22 جون کو کشمیر ریجن کی سالانہ ریجنل کانگریس کا انعقاد راولاکوٹ میں کیا گیا۔ عمومی طور پر کشمیر میں ترقی پسند سیاست میں ایک گراوٹ اور زوال کے ماحول کے باوجود IMT کے کشمیر ریجن کی کانگریس اپنی کامیابی کا ثبوت خود ہے۔ 487 کامریڈز نے کشمیر کے تمام اضلاع سے بھرپور انقلابی جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کی۔ یونیورسٹیوں اورکالجز کے طلبہ، مختلف شعبوں کے محنت کشوں سمیت خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی کانگریس میں شریک تھی۔ کانگریس کا آغاز کامریڈ ابرار اور کامریڈ خلیق کے انقلابی ترانوں سے ہوا۔ کانگریس کو چیئر کامریڈ بشارت علی کر رہے تھے، عالمی تناظر پر سوات سے آئے ہوئے کامریڈ غفران احد نے لیڈ آف دی۔ کامریڈ غفران نے سرمایہ داری نظام کے عالمی سطح پر جاری بحران اور اس کے بے قابو ہو جانے سے جنم لینے والی حکمران طبقے کی مایوسی اور بے بسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک کے بعد دوسرا ملک اس بحران کی زد میں آتا جارہا ہے، دنیا بھر میں حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہورہی ہیں۔ دوسری جانب یونان سے لے کر ترکی اور برازیل تک محنت کش طبقہ بھی تاریخ کے میدان میں اتر رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک محنت کش طبقہ حتمی طور پر سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا لیکن محنت کش طبقے کی زیادہ بڑی تعداد پہلے سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقات کی پالیسیوں کیخلاف جدوجہد میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے جس میں کئی اتار چڑھاؤ عارضی فتوحات اور شکستوں کے مراحل آئیں گے اور ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے محنت کش طبقہ اس نظام کو اکھاڑنے کے لیے ضروری تمام اسباق اور تجربہ حاصل کریگا اور اسی دوران وہ اپنے لئے انقلابی قیادت خود تراشے گا۔ لیڈ آف کے بعد وقفہ سوالات ہوا جس میں ترکی، برازیل اور عرب انقلابات کے تناظر سمیت پاکستان تناظر، پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر، پاکستان پیپلزپارٹی کے تناظر اور پاکستان میں محنت کش طبقے کی تحریک کے ابھرنے کے امکانات کے حوالے سے بے شمار سوالات آئے۔ اس کے بعد کامریڈ ساجد نعیم شوریدہ، کامریڈ حلیم، کامریڈ ظہیر، کامریڈ آمنہ، کامریڈ خلیل بابر اور کامریڈ یاسر نے بحث میں حصہ لیا۔ کامریڈ راشد شیخ نے کشمیر ریجن کی تنظیم کی موجودہ کیفیت، مسائل اور اس کو مزید مضبوط کرنے کے طریقہ کار اور لائحہ عمل پر بحث کی اور نئی ریجنل سلیٹ پیش کی۔ اس کے بعد اس تمام بحث کو سمیٹنے اور سوالات کا جواب دینے کیلئے کامریڈ لال خان کو سٹیج پر بلایا گیا۔ کامریڈ لال خان کا کانگریس ہال میں موجود تمام کامریڈز نے کھڑے ہو کر پرتپاک استقبال کیا۔ سم اپ کرتے ہوئے کامریڈ لال نے عرب انقلابات کے بعد بننے والی اسلامی جمہوری حکومتوں کیخلاف ابھرنے والی محنت کش طبقے کی نئی مزاحمت اور جدوجہد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی تحریروں اور تقاریر میں یہ وضاحت کی تھی کہ عرب انقلاب کی نئی لہروں کو ابھرنے میں اب نصف صدی کا وقت نہیں لگے گااور ہم دیکھ رہے ہیں کہ نہ صرف مصر اور تیونس بلکہ ترکی میں ایک تازہ دم انقلابی طوفان اُمڈ رہا ہے۔ مشرق وسطی سمیت دنیا بھر میں اب سرمایہ داری نظام کے اندر کوئی مستحکم حکومت قائم ہونے کے امکانات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر نئی بننے والی حکومت اپنے قیام کے ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ اور بحرانوں کا شکار ہو جاتی ہے جو اس بات کی عکاسی ہے کہ سرمایہ داری نظام تاریخی طور پر متروک ہو چکا ہے۔ اسی طرح اگر ہم پاکستان میں بننے والی حالیہ حکومت کا جائزہ لیں تو یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ بحران زدہ حکومت ہے جس کو تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی خسارے کا سامنا ہے۔ کالے دھن پر مبنی معیشت پاکستان کی کل معیشت کے 66 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے اور کالے دھن کی معیشت کی سالانہ شرح نمو 9 فیصد ہے جو کہ سرکاری معیشت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کیفیت میں کالے دھن کے تیز پھیلاؤ کی وجہ سے اس ملک میں جاری دہشتگردی، خونریزی اور انتشار بھی تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کے ساتھ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ بڑھے گا۔ نواز حکومت مجبور ہو گی کہ وہ محنت کش طبقے پر شدید حملے کرے جس کیخلاف طبقاتی مزاحمت ابھرنے کے امکانات بھی بڑھتے جائیں گے۔ اسی طرح پاک بھارت تعلقات بھی جنگ اور امن کے درمیان پنڈولیم کی طرح جھولتے رہیں گے۔ یہ ممالک نہ تو جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ امن قائم رکھ سکتے ہیں۔ اس کیفیت میں طبقاتی اور قومی استحصال بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے لیکن کشمیر میں مارکسی نظریات کا تیز پھیلاؤ اورمارکسی قوتوں میں اضافہ اس خطے میں ابھرنے والی کسی بھی انقلابی تحریک کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ قومی مسئلے کا حل سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے اور کشمیر کا سوشلسٹ انقلاب برصغیر کے سوشلسٹ انقلاب کی نوید بنے گا۔
کانگریس کا اختتام انٹرنیشنل کے ساتھ کیا گیا۔ کانگریس کے اختتام پر نواز حکومت کی جانب سے پیش کیے جانیوالے عوام دشمن بجٹ کیخلاف PTUDC کے پلیٹ فارم سے ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔