| تحریر: لال خان |
جدید تاریخ کی سب سے خونی تقسیم، جس میں لاکھوں لوگ بے گھر اور ہجرت پر مجبور ہوئے، کے ذریعے وجود میں آنے والے پاکستان کو اپنی پر انتشار تاریخ میں حقیقی استحکام اور خوشحالی کے کم ہی ادوار نصیب ہوئے ہیں۔ سماجی معاشی نظام کے بحران کے ستائے ہوئے سماجوں میں عوامی ہجرت پہلے سے موجود بحرانوں، جنگوں اور انتشار کو شدید کردیتی ہے۔ پاناما لیکس کی وجہ سے موجودہ حکومت میں آنے والا بحران دراصل موجودہ جمہوری سیٹ اپ کی شکستگی اور ریاستی اداروں اور سیاسی نظام کی بوسیدگی کوظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ فی الحال محکوم طبقات کی کوئی وسیع عوامی بغاوت وجود نہیں رکھتی لیکن حکمران جماعتوں اور سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر منافقانہ الزام تراشی کے نیچے موجودہ نظام اور اس کے دم چھلوں کے خلاف ایک نفرت اور غم و غصے کا لاوا پک رہا ہے۔ یہ سماجی بے چینی مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتی ہے اور بظاہر متضاد مقاصد کی نمائندگی کرسکتی ہے۔
نظام کے پالیسی سازوں اور ریاست کی طبقاتی جدوجہد اور سماجی بغاوت کو کچلنے کے لیے تخلیق کردہ بنیادپرستی کا دیو اب اپنے ہی مالک پر چڑھ دوڑا ہے۔ سرمایہ دارانہ استحصال اور لوٹ مار کی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے مڈل کلاس اور سماج کی پسماندہ پرتوں کے جذبات کو استعمال کرکے وحشی اور مذہبی بنیادپرستوں کے ذریعے رجعت کو حاوی کرنا ایک جان لیوا عمل تھا۔ اب ریاست اس کینسر کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جو پہلے سے بوسیدہ نظام کے عدم استحکام میں اضافہ کر رہا ہے۔
چونکہ پاکستان کے بدعنوان اور رجعتی حکمران طبقات قومی جمہوری انقلاب کا کوئی بھی فریضہ انجام نہیں دے سکے، اس لیے یہ تمام مسائل اب ایک رستے ہوئے ناسور بن گئے ہیں جو معیشت اور سماج کی بیمار کیفیت کی غمازی کرتے ہیں۔ قومی جبر جاری ہے جبکہ موجودہ نظام اور ریاست کی حدود میں اس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔ محکوم قومیتوں کے بہت سے بورژوا لیڈران نے پاکستانی ریاست کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے جبکہ باقی سمجھوتے اور سودا بازی کے عمل میں ہیں۔ تاہم محکوم قومیتوں میں ایسے نوجوان بھی ہیں جو حقیقی بنیادوں پر اس جبر کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اپنے تجربات اور بورژوا لیڈروں کے کردار بے نقاب ہونے سے ان نوجوانوں اور طلبہ کی سب سے باشعور پرت اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ قومی آزادی کا راستہ طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ یہ کتنا بڑاالمیہ ہے کہ یہی وہ انقلابی نوجوان ہیں جنہیں ریاستی، نیم ریاستی اور غیر ریاستی عناصر (وحشی مذہبی بنیاد پرست اور تنگ نظر قوم پرست، بالخصوص بلوچستان میں، جو مختلف ریاستی اور سامراجی مفادات کے پراکسی ہیں) نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین، مذہبی اقلیتوں، کسانوں اور طلبہ پر جبر اور بنیادی سہولیات سے محروم بد ترین حالات زندگی کے خلاف بے شمار مظاہرے اور احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن سب سے سنجیدہ جدوجہد مزدوروں کی طرف سے ہوئی ہے اور کئی سالوں تک سرکاری اداروں میں نجکاری، لبرلائزیشن، ری سٹرکچرنگ اور جمہوریت کے نام پر محنت کشوں پر دوسرے حملوں کے خلاف ہڑتالیں ہوئی ہیں اور تحریکیں اٹھی ہیں۔ پی ٹی سی ایل، او جی ڈی سی ایل، پوسٹ، ریلوے اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ہونے والی کچھ ہڑتالیں بہت طاقتور تھیں اور ان میں سے کئی ایک کامیاب بھی ہوئیں۔ اگرچہ کارپوریٹ میڈیا نے ان کامیابیوں کی اہمیت کو چھپایا۔ اس سال پی آئی اے کی ہڑتال پرولتاریہ میں پنپتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کا واضح اظہار ہے، اس ہڑتال کی وقتی شکست کے دوسرے اداروں کے محنت کشوں پر اثرات بہرحال مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن مختلف اداروں، بالخصوص ریاستی سیکٹر میں تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ تاہم سماج کی موجودہ کیفیت میں 2007ء اور حالیہ سالوں میں محنت کشوں کی روایتی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادتوں کی مسلسل غداریوں کی وجہ سے ہونے والی شکستوں سے محنت کش عوام ابھی تک نہیں سنبھلے ہیں۔
لیکن موجودہ جمود عارضی ہے اور ابتدائی علامات سے واضح ہے کہ یہ طویل عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود عوام میں سیاسی بیزاری اور موجودہ نظام سے بے اعتنائی موجود ہے۔ ٹائم کے سروے کے مطابق صرف 12 فیصد لوگ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ اعشاریہ شاید دنیا میں سب سے کم ہے۔ نام نہاد فوجی سویلین تضادات اکثر ابھرتے رہتے ہیں اور پھر حیرت انگیز طریقے سے فوجی اور سویلین ٹولے میں بوسیدہ سمجھوتے ہوتے ہیں۔ جلد ہی یہ تنازعے دوبارہ ابھرتے ہیں جو اس توازن کی ناپائیداری کی غماز ی کرتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی ’’بھاری اکثریت کی حکومت‘‘ درحقیقت بہت ہی کمزور ہے اور ایک کے بعد دوسرے مسئلے پر پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ نواز شریف کی حکومت بعض اوقات سمجھوتے کرتی ہے اور پھر کبھی اپنے سیاسی، عدالتی اور فوجی مخالفین کو خریدتی ہے۔ لیکن یہ لڑکھڑاتی حکومت خطرے مول لینا نہیں چاہتی۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ انہیں میڈیا اور ان کے اپنے طبقے کے سیاسی مخالفین سے سیاسی حملوں کا سامنا ہے بلکہ اب نواز لیگ کے رہنماؤں اور پارلیمانی نمائندوں کے درمیان بھی دراڑیں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ شریف خاندان کے اپنے اندر دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ جیساکہ جنوب ایشیائی ٹی وی ڈراموں میں اکثر ہوتا ہے کہ بیگمات اور اولادوں کی باہمی دشمنی، نفرت اور رقابت ہی دراصل ان نودولتیے اور بدعنوان بورژوا کاروباریوں کے بیچ طاقت اور مالی لوٹ کھسوٹ کی خاندانی جنگ کو ہوا دیتی ہے۔ شہباز شریف کی بیوی تہمینہ درانی کے شریف خاندان کے بیرونی اثاثوں کے خلاف ٹویٹ اس معاملے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ محلاتی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔
اگرچہ نواز شریف کئی مرتبہ وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوتے ہوتے بال بال بچا ہے لیکن اس مرتبہ شاید ایسا نہ ہو۔ ساڑھے تین سال تک انتہائی نحیف کیفیت میں حکومت کے چلنے کی واحد وجہ تباہ کن سماجی و معاشی حالات ہیں جس کی وجہ سے ریاست کے دوسرے دھڑے کسی تبدیلی، بالخصوص فوجی حکومت، کے آنے سے خوف زدہ ہیں کہ مبادا فوج کی معاشی اور سماجی حالات میں بہتری لانے میں ناکامی سے عوامی بغاوت نہ امڈ آئے۔ یہ بات قطعاً یقینی نہیں ہے کہ موجودہ بحران سے نواز شریف کی حکومت چلی جائے گی لیکن اس بحران کی نزاکت اس بات کی غماز ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں میں تمام نام نہاد جمہوری حکومتیں برطرف ہونے کے خطرے کے مستقل خوف کا شکار رہی ہیں۔ بہت سی حکومتیں مدت پوری ہونے سے پہلے ہی برطرف کردی گئیں۔ حکمرانی کی یہ غیر یقینی صورتحال اور تذبذب اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان کس حد تک بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا شکار ہے۔
یہ ملک بے قابو امڈتے بحرانوں کے ساتھ تیزی سے حکمران ٹولے کے لیے ’ناقابل حکمرانی‘ بنتا جا رہا ہے۔ اس بد عنوان اور رجعتی ٹولے کی حکومت نے عوام کے لیے صرف محرومی اور خون خرابہ ہی چھوڑا ہے۔ کوئی دیو ہیکل واقعہ یا معاشی حالات میں ایک اچانک تبدیلی ان کے صبر کے پیمانے کو لبریز کرکے ایک عوامی بغاوت کو جنم دے سکتی ہے۔ وہ سیاسی نظام سے نفرت کرتے ہیں اور ریاستی اداروں سے کراہت محسوس کرتے ہیں جو صرف امیروں اور طاقتوروں کی خدمت کرتے ہیں۔ جب وہ سیاسی میدان میں ایک تحریک کے ذریعے اتر کر اپنی طاقت کا اظہار کریں گے تو وہ نہ صرف حکومت بلکہ پورے استحصالی نظام کے خاتمے کا آغاز ہوگا۔