| تحریر: لال خان |
کل یونان میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج کچھ بھی ہوں، اس بحران نے ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف یونان بلکہ پورے یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ویلفیئر ریاست اور معاشی ترقی کو برقرار رکھنا اب ممکن نہیں ہے۔
عمومی طور پر ’’نسبتاً ترقی پسند‘‘ سمجھے جانے والے یورپ کے حکمران طبقے کی رجعت، منافقت، لالچ، فریب اور ڈھٹائی کو 2008ء کے بعد یورپی عوام پر ہونے والے پے درپے معاشی حملوں نے خوب بے نقاب کر دیا ہے۔یونان میں برسر اقتدار پارٹی ’سائریزا‘ کی حکومت نے آسٹیریٹی کو جاری رکھنے یا مسترد کرنے کا سوال اس ریفرنڈم میں عوام کے سامنے رکھا ہے۔ آسٹیریٹی کا مطلب عوامی سہولیات پر ہونے والے ریاستی اخراجات (بشمول پنشن، علاج، تعلیم، تنخواہ) میں کٹوتی ہے جس کا مقصد ریاستی قرضوں کی ادائیگی کے لئے پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ یاد رہے کہ یونان کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 177 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے معیشت 25 فیصد سکڑ گئی ہے۔ اٹلی، پرتگال، سپین، برطانیہ جیسے یورپ کے کئی دوسرے ممالک میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے اور ریاستیں حسب ضرورت ’آسٹیریٹی‘ کے پروگرام جاری کر رہی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ مالیاتی بحران کے بعد ملنے والے ’بیل آؤٹ‘ کی 90 فیصد رقم یونان کے عوام کو نہیں بلکہ نجی بینکوں کو دی گئی ہے۔ یونان نے اپنے مجموعی ریاستی قرضے کا 78 فیصد ’ٹرائیکا‘ کو ادا کرنا ہے۔ ٹرائیکا در اصل آئی ایم ایف، یورپی یونین کمیشن اور یورپی سنٹرل بینک پر مبنی ٹھگوں کا ٹولہ ہے جس کی باگ ڈور جرمنی کے حکمران طبقے کے ہاتھ ہے۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو یونان دیوالیہ ہو چکا ہے اور 30 جون کو 1.6 ارب یورو کی قسط آئی ایم ایف کو ادا نہیں کی گئی ہے۔ یورپی مرکزی بینک نے یونان کو ہنگامی قرضوں کی ادائیگی بند کر دی ہے جس کے بعد حکومت نے پورے ملک میں 7 جولائی تک بینک بند کر دئیے ہیں اور تب تک اے ٹی ایم مشین سے بھی 60 یورو روزانہ سے زائد رقم نہیں نکلوائی جا سکتی۔ اس عرصے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ ختم کر دیا گیا ہے۔
قرض دہندگان اور آسٹیریٹی کے خلاف سائریزا حکومت کی نحیف سی ایجی ٹیشن بھی یورپ کے حکمرانوں اور عالمی سامراج کو قبول نہیں ہے کیونکہ یہ قرض در قرض کے اس خونی گھن چکر پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے جس میں پوری دنیا کو اس طفیلی طبقے نے پھنسا رکھا ہے۔سامراجی مالیاتی اداروں کے نمائندے اب کھل کر یونانی عوام کو دھمکیاں دینے پر اتر آئے ہیں کہ وہ ریفرنڈم میں آسٹیریٹی کے خلاف ووٹ نہ دیں۔ JP مارگن نے منافقت پر مبنی روایتی بیان بازی سے ہٹ کر، دھڑلے سے کہا ہے کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ ریفرنڈم میں قرض دہندگان کے حق میں ووٹ پڑے گا۔ ہمارا اصرار ہے کہ سپراس (سائریزا حکومت کا وزیر اعظم) استعفیٰ دے اور نئی حکومت قرض دہندگان سے مذاکرات کرے۔‘‘ ٹرائیکا کے نمائندے بھی یہی تاثر دے رہے ہیں کہ اگر یونان کے عوام نے آسٹیریٹی کو مسترد کیا تو زمین پھٹ جائے گی اور سب غرق ہو جائیں گے۔ کوشش کی جار ہی ہے یونان میں عدم استحکام پیدا کیا جائے، معیشت کا گلا گھونٹا جائے اور عوام کو خوفزدہ کر کے آسٹیریٹی مخالف ووٹ دینے سے باز رکھا جائے۔ اس سلسلے میں یونان کے کارپوریٹ میڈیا کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ وہ سامراجی حکمران کر رہے ہیں جو عام حالات میں ’’قومی خود مختیاری‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے گن گاتے نہیں تھکتے!
یہ ریفرنڈم درحقیقت اس نظام کے خلاف اس جنگ کا تسلسل ہے جو یونان کے عوام 2008ء کے بعد بڑی جرات مندی سے لڑ رہے ہیں اور جو صرف بیلٹ باکس کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی۔ گزشتہ کچھ سالوں میں یونان میں 30 سے زائد عام ہڑتالیں اور ان گنت بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ سپین کے ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ایک نوجوان یونانی لڑکی کا کہنا تھا کہ ’’مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں انقلاب میں داخل ہو رہی ہوں، ہم انہیں (ٹرائیکا) بتائیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ‘‘ تمام نوجوانوں اور محنت کشوں کے جذبات کم و بیش یہی ہیں۔ وہ اس معاشی وحشت کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں جس نے چند سال میں یونانی سماج کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف سپراس اور اس کی حکومت ابھی تک ’’آبرو مندانہ مصالحت‘‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں اور عوام کے غم و غصے کو استعمال کر کے قرض دہندگان سے کچھ چُھوٹ لینا چاہتے ہیں۔
یورپی حکمرانوں کے لئے یونان درحقیقت ایسی ہڈی بن چکا ہے جسے وہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں۔ یونان اگر اعلانیہ طور پر ڈیفالٹ ہوتا ہے تو ایک مثال قائم ہو گی اور اس کے پیچھے ڈیفالٹ ہونے والی ریاستوں کی ایک قطار لگی ہوئی ہے۔ یورو زون ہی ٹوٹ سکتا ہے اور یہ حالات پہلے سے بحران میں غرق عالمی سرمایہ داری کو کہیں زیادہ گہرے بحران سے دوچار کر سکتے ہیں۔ اگر یونان کو قرضوں میں کچھ چھوٹ یا معافی دی جاتی ہے تو قرضوں میں ڈوبی دوسری ریاستیں بھی اپنے لئے ایسی نرمی کا مطالبہ کریں گی جن کے قرضے حجم کے لحاظ سے یونان سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ سامراج کے پالیسی ساز خاٖصے متذبذب اور خوفزدہ ہیں جس کا اظہار انجیلا مرکل (جرمنی کی چانسلر) کے نام باراک اوباما کے اس پیغام سے ہوتا ہے کہ ’’ایسی کوششیں ناگزیر حد تک اہم ہیں کہ یونان کو اس راستے پر لایا جائے کہ وہ یوروزون کے اندر رہ کر اصلاحات اور معاشی ترقی بحال کر سکے۔‘‘
سائریزا کی حکومت ملک کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات کو قابو کر نے کے لئے تمام بینکنگ کو نیشنلائز کرتی ہے تو ریاست کا معاشی بحران مزید بگڑ جائے گا کیونکہ بینک پہلے ہی دیوالیہ ہیں۔ واحد حل یہ ہے کہ بینکنگ کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ داروں اور سامراجی کارپوریٹ کمپنیوں کے تمام مالیاتی اور صنعتی اثاثوں کو بھی نیشنلائز کیا جائے۔دوسرے الفاظ میں معیشت کے کلیدی شعبوں کو نیشنلائز کرنے کا مطالبہ کسی یوٹوپیائی نعرے کی بجائے حالات کا بنیادی تقاضا بن چکا ہے۔ اس نہج پر یورو سے علیحدگی نہ صرف ضروری بلکہ ناگزیر نظر آ رہی ہے لیکن سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس قدام کا مطلب یونانی معیشت کا مکمل انہدام ہو گا۔ سائریزا میں سرگرم ’کمیونسٹ رجحان ‘مسلسل وضاحت کر رہا ہے کہ سرمایہ داری کی حدود میں پرانی کرنسی (دراشما) کی طرف واپسی ہائپر انفلیشن یا انتہائی بلند افراط زر کو جنم دے گی اور سامراجی قوتوں کی اقتصادی پابندیاں حالات کو بد سے بد تر کر دیں گی۔ یورپی یونین کے ساہو کاروں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ بنیادوں پر یورو زون سے علیحدگی ہے۔ معیشت کو اشتراکی ملکیت میں لے کر ہی ان سود خور بھیڑیوں کے وار پسپا کئے جا سکتے ہیں اور عوام کے معیار زندگی میں تیز ترین بہتری لائی جا سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ ہے کہ سائریزا کی قیادت نظریاتی طور پرانقلابی نہیں بلکہ اصلاح پسند ہے۔وہ آسٹریٹی کے بغیر یورپی یونین میں رہنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ پانچ ماہ کے واقعات نے اس خیال کو دیوانے کا خواب ثابت کیا ہے اور بالخصوص گزشتہ پانچ دن ایسی خوش فہمیاں دور کرنے کو کافی ہونے چاہئیں!
سائریزا بائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹی ہے جس کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے۔ ایتھنز میں اس کا ہیڈ آفس کچھ سال پہلے ہی قائم ہوا تھا جس کی دیوار پر روزا لکسمبرگ کی تصویر آویزاں ہے۔ روزا لکسمبرگ انقلابی مارکسزم کی عظیم سپاہی تھی جسے 1919ء میں برلن میں اس کی اپنی پارٹی کی قیادت نے شہید کروا دیا تھا۔اپنے وحشیانہ قتل سے چند ماہ قبل 1918ء میں اس نے لکھا تھا کہ ’’اس یقین سے بڑا پاگل پن ہو نہیں سکتا کہ قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے سوشلسٹ فیصلوں کو سرمایہ دار بڑی عاجزی سے قبول کر لیں گے اور ملکیت، منافع اور استحصال سے پر امن طور پر دستبردار ہو جائیں گے۔ اگر (محنت کشوں کی) موجودہ قیادت ناکام بھی ہوگئی ہے تو نئی قیادت تیار کرنا ہو گی۔ عوام ہی فیصلہ کن عنصر ہیں؛ وہ چٹان ہیں جس پر انقلاب کی حتمی فتح تعمیر ہوگی… شہروں اور دیہاتوں میں محنت کش عوام کے شعوری عمل سے ہی یہ انقلاب تمام طوفانوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھے گا اور اس کی گرج حکمرانوں کو بتائے گی : میں تھا، میں ہوں اور میں رہوں گا۔ غرق تو تمہیں اور تمہارے نظام کو ہونا ہے۔‘‘
اصلاحات اور مصالحت کی ہر کوشش بری طرح نامراد ہوئی ہے اور ہو گی۔یونان کے عوام اپنا فیصلہ انقلاب کے حق میں بہت پہلے دے چکے ہیں۔سائریزا کی قیادت کے ہاتھوں سے وقت ریت کی طرح نکل رہا ہے۔ روزا لکسمبرگ کی تصویر دفاتر میں سجانے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا قتل انقلاب کو روکنے کے لئے اصلاح پسندوں نے ہی کیا تھا۔ لیکن پھر کس کے روکے رکا ہے سویرا!
متعلقہ: