کامریڈ منو بھائی کو سرخ سلام!

تحریر: قمرالزماں خاں

بہت کم لوگ زندگی جی کر گزارتے ہیں۔ منوبھائی زندگانی کی آخری گھڑی تک جیتے رہے۔ ایک دفعہ کسی نے کہا کہ ’بس کریں بہت لکھ لیا، اب کچھ آرام بھی کرلیں۔ ‘ منوبھائی نے لکھا، ’’میں آخری سانس تک کام کرونگا، میرے بوٹ کے تسمے کوئی اور ہی کھولے گا۔‘‘ پھر یہی ہوا، شدیدعلالت کے دوران گویا بسترمرگ پر بھی، بے ہوشی اور مدہوشی کے درمیانی وقفے میں بھی لکھنے بیٹھ گئے۔ زندگی بھر کے واقعات اور بیتے ادوار لکھتے رہے مگر اوروں کے برعکس ان تحریروں کو خودستائشی کے غلبے سے بچائے رکھا۔ ہر تحریر میں منڈی کی معیشت کی ہلاکت خیزی کوآڑے ہاتھوں لیا، ان کو اپنی خراب صحت اور زندگی کے عنقریب اختتام کا علم تھا مگر وہ اپنی تحریروں میں نسل انسان کیلئے طبقات سے پاک سماج کی خواہش کا باربار اظہارکرتے رہے۔
بہت سے لوگ لکھتے ہیں، کچھ لوگوں نے اتنا لکھا کہ انکے لکھے ہوئے لفظوں کوعمودی کھڑاکردیا جائے تو مریخ تک پہنچ جائیں۔ مگر ان تحریروں کو تاریخ سے حذف کردیا جائے توکوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ علمی، نظریاتی کثافت میں کمی ہی واقع ہوگی۔ دوسری طرف کچھ لوگوں کی لکھی گئی سطریں ایسی روشنی میں بدل جاتی ہیں جو سماجی تاریکی میں نئی راہیں دکھاتی ہیں۔ منوبھائی کی تحریریں روشنی کے ایسے ہی مینارے تھے۔ معاشرے اور انسانوں سے ماورا ا دب کے برعکس منو بھائی کے کالم، ڈرامے، نظم اور نثر نے ہمیشہ مقصدیت کوپیش نظر رکھا، ہر روزبامقصد لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتاہے مگر منوبھائی کا قلم ہمیشہ تیشہ ثابت ہوا۔ ایسا ہونابلاسبب نہ تھا۔ منوبھائی انقلابی نظریات سے مسلح تھے۔ الفاظ منوبھائی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ پاکستان کے بدترین فوجی آمرضیا الحق کے عہد ظلمت میں اپنے کالم کے عنوان سے مناسبت رکھتے۔ ضیاء الحق کا گریبان پکڑنے کی بات کی تو خونی ضیا نے ایک تقریب میں منو بھائی کو انکے گریبان سے پکڑنے کی دھمکی دی۔ اگلے دن منوبھائی نے لکھا کہ ’’ہماری نہ قمیض ہے نہ گریبان، کہاں سے پکڑو گے؟‘‘ ایسی جرا ت صرف انقلابیوں کا خاصا ہوتی ہے۔
منوبھائی بہت آغاز سے ہی جس معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلی کے خواہاں تھے، اسکے راستے کی تلاش میں انکو بہت طویل سفر کرنا پڑا۔ یہ ایک دقیق ارتقائی سفر تھا، خاص طور پرانقلابی رومانیت کے خطرات کی کھائیاں اور تباہی کے امکانات کے لئے فضا زیادہ سازگار تھی۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک، جس کی منزل کو کھوٹا کیا گیا تھا، کے بعد بددلی اور بے سمتی کی کیفیت میں ہزاروں انقلابی کیڈر، ادیب، شاعر اور سیاسی کارکنوں کو انقلاب کی پسپائی کابلیک ہول نگل گیا۔ بچنا محال تھا، مگر جستجو کا سفر منوبھائی کیلئے ڈھال بن گیا۔ منوبھائی کا ادبی شعور، تاریخی واقعات کا عینی گواہ تھا۔ انقلابی لہر میں ابھی دم خم موجود تھا جب منو بھائی اسی کار میں موجودتھے جس میں ذوالفقار علی بھٹو اور حنیف رامے پنڈی جا رہے تھے۔ گوجرانوالہ سے آگے جی ٹی روڈ پر لوگوں کاہجوم بے کراں سرخ پرچم لہراتے ہوئے ’’جیہڑا واوے اوہی کھاوے سوشلزم آوے ای آوے‘‘کے نعرے لگاتا کار کے آگے آگیا۔ بھٹونے مڑکرمنوبھائی اور حنیف رامے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ان کو دیکھو، جوہم نے لانا نہیں ہے وہ مانگ رہے ہیں۔‘‘ یہ گفتگو منو بھائی کے انقلابی خیالات اور نظریات کیلئے کسی دھچکے سے کم نہ تھی مگر کوئی متبادل رہ سجائی نہیں دے رہی تھی۔ منو بھائی ہمیشہ محنت کش طبقے تک رسائی کیلئے لچکدار طریقے کے حامی تھے۔ وہ ولادیمیر لینن کا حوالہ دیتے تھے، ’’جب مزدوروں کے کسی گروہ کو سڑکوں پر کسی بھی جدوجہد میں برسرپیکار دیکھو، ان میں شامل ہوجاؤ، انکو ہمدردانہ نقطہ نگاہ سے دیکھو، وہ انقلابی نہ ہوں تو کوئی بات نہیں، انکے نعرے غور سے سنو، انکی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاکر انکے نعروں کی گونج بلند کرو، آپ انکے مطالبوں اور نعروں کو کچھ غلط بھی پائیں تو بھی صبر اور استقامت سے انکے ساتھ رہو، جب انکی ریاستی اداروں سے مڈبھیڑ ہوجائے تو انکے شانہ بشانہ لڑائی میں شامل ہوجاؤ باوجود اسکے کہ آپ کے اعتراضات موجود ہیں۔ پولیس اور ریاستی اداروں کے نشانے پر محنت کشوں کے بہنے والے خون کیساتھ جب آپ کاخون بھی شامل ہوگا تو پھر آپ محنت کش طبقے کے ساتھ وہ رشتہ استوار کرسکو گے جہاں وہ آپ کی رائے کو اہمیت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرینگے۔‘‘
منو بھائی عمر کے کسی بھی حصے میں اس غلط فہمی کاشکار نہیں ہوئے کہ انکے سیکھنے کا عمل مکمل ہوچکاہے۔ اسی طرح شوبزنس اور ٹیلی وژن میں اعلیٰ درجے کی پذیرائی کے باوجود انہوں نے خود کو وہاں گم نہیں ہونے دیا۔ انکی نظریاتی اور انقلابی زندگی کا سب سے اہم بریک تھرو ٹیڈ گرانٹ کے انقلابی نظریات کوجاننے سے ہوا۔ ذریعہ ظاہر ہے کامریڈ لال خان تھے۔ انہوں نے سرمایہ داری نظام کے آخری مرحلے یعنی سامراجیت کی زوال پذیری اور اسکی فرسودگی کامطالعہ کرکے نتیجہ نکال لیا تھا کہ موجودہ نظام اپنے عہد میں رہنے والے اربوں لوگوں کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوکر صرف سرمایہ داروں کے منافعوں میں وسعت کا وسیلہ بن چکا ہے۔ انکی تحریریں جابجا اصلاحات کے ذریعے نظام کو درست کرنے کی فرسودہ سوچ کو مستردکرتی نظر آتی ہیں۔ یہ ایک دلچسپ عہد تھا جب منو بھائی کا روزنامہ جنگ کا روزانہ وار کالم’’گریبان‘‘ کرنٹ ایشوز کی وضاحت مارکس ازم اور اشتراکی نظریات سے کرتا تھا۔ وہ تیسری دنیا اور سابق نوآبادیاتی ممالک میں حکمران طبقے کی نااہلی، تاریخ سے پچھڑ جانے اور سامراجیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھنے جیسے اہم ترین نکتے کو سمجھ جانے کی بنا پر پاکستان کے انقلاب کو عالمی انقلاب کے ساتھ جوڑ کردیکھتے تھے۔ لیون ٹراٹسکی کے نظریات کو عہد حاضر کے مطابق وسعت دینے والے ٹیڈ گرانٹ کی تحریروں میں منوبھائی کی دلچسپی نے سات سمندر پار کا سفر کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ جب بھی اپنی اس ملاقات کا احوال بیان کرتے تو ٹیڈگرانٹ کی سرمایہ داری نظام کے عروج ( 1948-73ء) کے دوران اسکے زوال کی پیش بینی کرنے کی انقلابی بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتے۔
پاکستان میں ’طبقاتی جدوجہد‘کے ساتھ منوبھائی کا اشتراکِ عمل زندگی کاحصہ بن گیا تھا۔ منوبھائی نے اپنی صحت مند زندگی کا ایک لمبا عرصہ طبقاتی جدوجہد کی سرگرمیوں کا حصہ بن کرگزارا۔ ملک کے طول وعرض میں ہونے والی سرگرمیوں میں شرکت کیلئے ہزاروں کلومیٹرکا سفر طے کرنا پڑتا تھا لیکن منوبھائی بغیر کسی تامل اور پریشا نی سے ’طبقاتی جدوجہد‘ کی میٹنگز میں شرکت کرتے۔ لیون ٹراٹسکی کی کتاب ’میری زندگی‘ کا اردو ترجمہ معروف شاعر اور منوبھائی کے قریبی دوست جاوید شاہین نے انہی کے اصرار پر کیا تھا۔ کامریڈ لال خان کی تحریر کردہ کتابوں ’چین انقلاب کی تلاش‘، سوشلسٹ انقلاب اور پاکستان، ’Partition: Can it be Undone‘، پاکستان کی اصل کہانی سمیت متعدد پبلی کیشنز میں منوبھائی کا عملی اور مالی تعاون شامل رہا۔ اسی طرح ٹیڈ گرانٹ کی کتاب ’روس:انقلاب سے ردانقلاب تک‘ کی اشاعت ممکن نہ ہوتی اگر منوبھائی کے ایک اوردوست چوہدری یعقوب بھاری قرض مہیا نہ کرتے۔ طبقاتی جدوجہد کی متعدد کتابوں کے دیباچے اور فلیپ منوبھائی نے لکھے۔ 1997ء میں طبقاتی جدوجہد کی رحیم یارخاں کانگریس میں شریک ہونے آئے۔ تنظیم نے فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 150سے ہمایوں اختر کے خلاف قمر الیکشن لڑے گا تو میرے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کرانے منوبھائی خود گئے۔ 1999ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی کنونشن میں شرکت کیلئے رحیم یارخاں بطور خاص آئے۔ ہر سال طبقاتی جدوجہد کی سالانہ کانگریس کے انتظامی اور مالی معاملات میں انکی شمولیت رہتی۔ کامریڈ لال خان کے ساتھ انکی محبت کولفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ ستائیس سالوں پر محیط گہرا نظریاتی تعلق تھا جو بے لوث محبت میں تبدیل ہوچکا تھا اور منوبھائی کے آخری دم تک قائم رہا۔ کئی سال پہلے جب ان کوشدید ہارٹ اٹیک ہوا تو انکے اہل خانہ نے ڈاکٹر سے بھی پہلے کامریڈ لال خان کو فون کیا۔ کامریڈ لال خان کے ساتھ جانے والے کامریڈ ثقلین شاہ کا کہنا ہے کہ میں حیران ہوں کہ مال روڈ سے ریواز گارڈن تک کا سفراتنی سرعت سے کیسے طے ہوگیا۔ ایمبولنس یاڈاکٹر ابھی نہیں پہنچے تھے۔ کامریڈ لال خان نے گو پاکستان میں میڈیکل پریکٹس نہیں کی مگر منو بھائی کو انہوں نے زندگی بچانے والی ابتدائی میڈیکل امداد دیکر اسپتال تک پہنچادیا۔ جب منو بھائی کو ہوش آیا تو انہوں نے سب سے پہلے لال خان کالفظ منہ سے نکالا، کامریڈ پاس ہی موجود تھے تو منوبھائی نے کہا ’’مجھے یقین تھا کہ لال خاں آگیا تومیں بچ جاؤں گا۔‘‘
منوبھائی صبح پانچ بجے واک کے بعد کالم لکھا کرتے تھے۔ لکھتے لکھتے اعدادوشمار یا تاریخی حوالے کیلئے کامریڈ لال خان کو فون کرتے تو حالت نیند میں بھی دیئے ہوئے جواب کو بلادھڑک اپنے کالم میں لکھ دیتے۔ پھر اکثر گفتگو کے دوران کہتے ’’یارگہری نیند میں بھی (لال خاں) اعشاریے کی غلطی نہیں کرتے۔‘‘ مجھ سمیت پاکستان بھر کے کامریڈز کوسالہاسال ان محفلوں کا حصہ بننے کاموقع ملا جولاہور میں سرشام ایک طرح سے سٹڈی سرکل کی شکل اختیار کرجاتیں اور ہر روزآرٹ، کلچر، فلسفے، تاریخ وتہذیب کے ارتقا، عالمی اور پاکستان کے منظر نامے کے کسی نا کسی اہم حصے پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ انقلابی نظریات، عملی جدوجہد، لائحہ عمل اور طریقہ کارجیسے پیچیدہ اورنازک موضوعات کو اور زیادہ وسیع بنیادوں پر استوار کرنے والی بحثیں کی جاتیں۔ تنظیم کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاسوں میں جب بھاری بھرکم موضوعات پر بحثیں ماحول کواورزیادہ سنجیدہ بنا دیتیں تو منوبھائی کی بحث میں ہلکے پھلکے انداز میں مداخلت، لطائف اور تاریخی واقعات کی آمیزش سے ’سیشن‘ ہلکا پھلکا ہوجاتا۔
پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں منوبھائی کا ناقابل فراموش کردار ہے جو کالم نگاری، اردو ادب، ٹی وی ڈرامے اورشاعری میں ان کے بے مثال کردار سے بھی زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے۔ ساتھیو منوبھائی ہم سے آج جدا ہوگئے ہیں مگر اِس ملک، خطے اور پوری دنیا کو طبقات سے پاک کر کے اور سوشلزم کے سرخ پرچم کو سربلند کر کے ہی انہیں خراج تحسین پیش کیا جاسکتاہے۔ کامریڈ منوبھائی کو سرخ سلام!