جام ساقی کو سرخ سلام!

تحریر: لال خان

ہمارے ہردلعزیز انقلابی ساتھی اور دوست جام ساقی طویل علالت کے بعد 74 سال کی عمر میں سوموار کو انتقال کر گئے۔ وہ اپنی آخری سانسوں تک ایک پکے کمیونسٹ تھے اور سوشلسٹ انقلاب پر اُن کا یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ کامریڈ کی آخری سیاسی سرگرمی ایک تقریب میں شرکت تھی جس میں انہوں نے نسل انسان کے روشن مستقبل کی خاطر مرتے دم تک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور انقلابی مارکسزم کے نظریات کو ہی محنت کش طبقے کی راہِ نجات قرار دیا۔ 26 نومبر 2017ء کو طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین نے لیون ٹراٹسکی کی شاہکار تصنیف ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کے اردو ترجمے کی تقریب رونمائی حیدرآباد پریس کلب میں منعقد کی تھی جس کے مہمان خصوصی کامریڈ جام ساقی تھے۔ انہوں نے اس پروگرام میں ایسی کیفیت میں شرکت کی جب وہ انتہائی ضعیف اور بیمار تھے اور فقط وہیل چیئر کے ذریعے ہی حرکت کرسکتے تھے۔ وہ اپنی تمام تر جسمانی کمزوری کے باوجود اس پروگرام میں آئے اور ان کو وہیل چیئر میں حیدرآباد پریس کلب کی تیسری منزل تک آڈیٹوریم لے جانا پڑا۔

’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کی تقریبِ رونمائی کے دوران اپنی زندگی کی آخری تقریر کر رہے ہیں۔

کامریڈ جام ساقی سندھ کے ضلع تھرپارکر کے گاؤں جانجھی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد سچل شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور مشہور سماجی کارکن تھے۔ جام ساقی ان سے بڑے متاثر تھے اور انہوں نے بچپن میں اپنے والد کے کام اور تجربات سے سرمایہ دارانہ استحصال اور جاگیردارانہ جبر کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک ان واقعات اور جدوجہد کا ذکر جذبات سے بھرپور تاثرات اور دمکتی آنکھوں سے کیا کرتے تھے۔ کامریڈ نے 1962ء میں چھاچھرو سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے سچل سرمست آرٹس کالج حیدرآباد سے تعلیم حاصل کی اور پھر سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ماسٹرز کیا۔ کامریڈ جام ساقی انتہائی پرجوش انداز میں ایک ریٹائرڈ پرائمری ٹیچر عنایت اللہ دھمچر کا ذکر کیا کرتے تھے جس نے ان کو زیر زمین کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے روشناس کرایا۔
کامریڈ ساقی ان طوفانی ادوار میں ایک پرجوش طلبہ رہنما بن گئے جب اس سیارے کے مختلف حصوں میں تحریکیں پھوٹ رہی تھیں۔ انہوں نے 3 نومبر 1968ء کو سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی جو کمیونسٹ پارٹی کا سٹوڈنٹ ونگ تھا اور خود اس انقلابی طلبہ تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔ دہائیوں بعد ایک بڑے اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں ان ادوار کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پنجاب اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور سرحد (پختونخوا) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی جیت گئی۔ سب کا جھکاؤ سوشلسٹ نظریات کی طرف تھا۔‘‘ تاہم اسی انٹرویو میں جام ساقی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ بھٹو اور مولانا بھاشانی کھلے عام سوشلزم کی بات کرتے تھے لیکن کمیونسٹ کارکنوں کو انقلابی سوشلزم سے دور رہنے اور صرف قومی جمہوری انقلاب کے نعروں تک محدود رہنے کو کہا گیا۔ یہ انٹرویو کامریڈ جام ساقی کی ماسکو اور پیکنگ نواز کمیونسٹ پارٹیوں، جو طلبہ، مزدوروں اور سیاسی کارکنان میں اچھی خاصی حمایت رکھتی تھیں، کے نظریاتی مؤقف پر پہلی کھلی تنقید تھی۔
1971ء میں جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو انہوں نے نواب شاہ اور حیدرآباد میں فوجی جنتا کے ظلم و ستم کے خلاف ریلیاں منظم کیں۔ کامریڈ جام ساقی بائیں بازو کے اُن گنے چنے رہنماؤں میں شامل تھے جو بھارتی اور پاکستانی ریاستوں کے مسلط کردہ قومی شاونزم کو یکسر مسترد کرتے تھے۔ ریاست کے پالیسی ساز ان عوامی تحریکوں سے خوفزدہ ہوگئے جو اُس وقت برصغیر میں پھیل رہی تھیں اور سامراجی پشت پناہی سے طبقاتی جدوجہد کو کچلنے کے لئے جنگ کا راستہ اختیار کیا۔

فوجی عدالت میں پیشی کے دوران۔ بینظیر بھٹو بھی موجود ہیں۔

1983ء میں کامریڈ جام ساقی اور ان کی تنظیم کے دیگر ساتھیوں پر نظریہ پاکستان کے خلاف بات کرنے کی پاداش میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ فوجی عدالت میں جام ساقی کے اس مقدمے کو اس وقت تاریخی اہمیت حاصل ہوئی جب بڑے بڑے نام جیسے کہ بے نظیر بھٹو، بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالولی خان، طاہرہ مظہر علی خان، معراج محمد خان، فتحیاب علی خان، مولانا شاہ محمد امروٹی، منہاج برنا، شیخ علی محمد، شیخ عزیز اور کئی مشہور صحافی بطور گواہانِ صفائی پیش ہوئے۔ یہ مقدمہ ’کمیونسٹ کیس‘ یا ’جام ساقی کیس‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس سب کے باوجود جام ساقی کو نو سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ لیکن انہیں تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا اور اس حد تک بنایا گیا کہ اس کے بعد پوری زندگی کے لیے وہ جسمانی معذوریوں کا شکار ہوگئے۔لیکن انہوں نے وحشی ضیا آمریت اور اس کے رجعتی نظریات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا جنہیں ریاستی جبر اور بنیاد پرست پارٹیوں کے غنڈوں کے ذریعے سماج پر مسلط کیا جا رہا تھا۔ یہ ملاں ریاستی مشینری کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے تھے۔ 1980ء کی دہائی میں کامریڈ جام ساقی‘ ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے مشعل راہ بن چکے تھے۔ وہ تحریک کی ایسی عوامی شخصیت بن چکے تھے جس نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان میں ریاستی جبر کو للکارا۔ وہ ہندوستان میں بھی اسی طرح ہر دلعزیز اور مقبول تھے اور ایشیا کے دوسرے ملکوں سے کمیونسٹ پارٹیاں انہیں اپنی کانگریسوں میں شرکت کی دعوت دیتی تھیں۔
جام ساقی ایک لکھاری بھی تھے۔ انہوں نے سندھ کی طلبہ تحریک کے بارے میں ایک ناول ’’کاھوری کجن‘‘ لکھا جو ’’سندھ جی شاگرد تحریک‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ کنگرو کی فوجی عدالت میں مقدمے کے دوران تمام تر جبر اور دباؤ کے باوجود انہوں نے باغیانہ اور دلیرانہ بیانات دیئے جن کو اکٹھا کرکے دو کتابوں (’ تاریخ مونکھے نا وسریندی‘ یعنی ’تاریخ مجھے کبھی نہیں بھلائے گی‘ اور ’ضمیر کا قیدی‘) کی شکل میں سندھی اور اُردو میں شائع کیا گیا۔ قید کے دوران جام ساقی نے ریاست اور بالخصوص فوج کی ساخت اور کردار کے بارے میں گہرا تجزیہ تحریر کیا ۔
وہ فوج اور پولیس کے عام سپاہیوں کی طرف ایک ہمدردانہ رویہ رکھتے تھے اور انہیں وردی والے محنت کش ہی گردانتے تھے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ ’’یہ لوگ وردی والے پرولتاری ہیں جو ہمارے طبقے سے ہیں اور انقلاب کے وقت بالآخر ہمارے ساتھ جڑ جائیں گے۔‘‘ لیکن دیوار برلن کے گرنے، سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے واقعات نے بائیں بازو کے کارکنوں اور رہنماؤں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ بلاشبہ کامریڈ ساقی ان واقعات سے متاثر ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے انہیں اصلاح پسندی کی سیاست کی طرف لانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کبھی بھی ’’سوشلزم کی ناکامی‘‘ کے پراپیگنڈے کو قبول نہیں کیا۔

طبقاتی جدوجہد کی کانگریس 2008ء سے خطاب کر رہے ہیں۔

1990ء کی دہائی کے اواخر میں کامریڈ جام ساقی ’طبقاتی جدوجہد‘ کے کامریڈوں کے ساتھ رابطے میں آئے جنہوں نے نہ صرف سوویت یونین کے انہدام سے پہلے مارکسی تناظر میں اس کی ٹوٹ پھوٹ کی پیش گوئی کی تھی بلکہ سندھ اور پورے پاکستان میں سرگرم بھی تھے۔ کامریڈ جام ساقی نے ’طبقاتی جدوجہد‘ میں شمولیت اختیار کی اور ایک مرتبہ پھر مارکسزم کے نظریات کی ترویج اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل میں سرگرم ہوگئے۔ بڑھاپے کے باوجود وہ ہمیشہ چست نظر آتے تھے اور انقلابی سیاست میں مگن رہتے تھے۔تمام تر شہرت اور سیاسی ساکھ کے باجود وہ انتہائی عاجز انسان تھے۔ اپنے کامریڈوں کی طرف ان کا خلوص اور محبت اس بات سے واضح ہے کہ جب بھی وہ دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے ساتھیوں سے ملتے تو انہیں گرمجوشی سے گلے لگاتے اور بوسہ دیتے۔
26نومبر 2017ء کو ’انقلاب روس کی تاریخ‘ کی تقریب رونمائی میں کامریڈ جام ساقی نے اپنی آخری تقریر میں کہا: ’’تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے میں کمیونسٹوں نے ہمیشہ ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ جب کبھی بھی میں کامریڈوں سے ملتا ہوں تو میری ساری تھکن اور درد ختم ہوجاتی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کی طبقاتی جدوجہد کی فتح سے ہی اس استحصال اور جبر کا خاتمہ ہوگا۔‘‘
اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے سارنگ سے کہا کہ ’’اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں دوبارہ اسی راستے پر چلوں گا کیونکہ زندگی میں سماج کی انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسرا عظیم مقصد ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘