| تحریر: پارس جان |
لولی لنگڑی آزادی کا ریاکار جشن ابھی جاری ہی تھا کہ پٹاخوں کے شورکے بیچ میں ہی کہیں پھر زور دار دھماکوں کی بھیانک آواز کی شناسا گونج سنائی دینے لگی۔ گزشتہ چند ماہ سے اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پرمڈل کلاس کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی ایک وسیع کھیپ ’’ایک پر امن اور خوشحال پاکستان‘‘ کی خوش فہمیوں میں مبتلا اور سرشار افواجِ پاکستان کے قصیدے گاتی اور ڈھنڈورے پیٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کے بعد سے مبینہ امن کے نسبتی وقفے کو ریاست کی پالیسی میں ایک بڑی کروٹ قرار دیا جا رہا تھا۔ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ماضی کی غلطیوں اور جرائم کی تلافی کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ بدعنوان سیاستدانوں، ججوں، بیوروکریٹوں، پولیس افسروں اور بادلِ نخواستہ چند ایک جرنیلوں کو بھی سزائیں اور جرمانے کیے جا نے لگے ہیں۔ ایم کیو ایم جیسی غنڈہ گرد اور فاشسٹ تنظیموں اور بیرونی ایجنٹوں کے خلاف ریاست نے کمر کس لی ہے۔ سعودی عرب کے یمن بلاوے کووسیع تر قومی مفاد میں پارلیمانی قرارداد کے ذریعے مسترد کر کے ’جمہوری استحکام‘ کی مضبوط بنیادیں استوار کر دی گئی ہیں۔ ملک اسحاق جیسے دہشت گردوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ بنیاد پرستوں، منشیات فروشوں اور مذموم ایجنڈے کے تحت کام کرنے والی این جی اوز پر قانون کے ’’لمبے‘‘ ہاتھوں کی گرفت دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں سرکشی کو کنٹرول کر لیا گیا ہے اورگوریلوں نے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں امن بحال ہو رہا ہے۔ بہت جلد مملکتِ خداداد ’قائد‘ کے فرمان اور ’علامہ‘ کے خواب کی عملی تصویر بننے والا ہے وغیرہ وغیرہ۔
حکمران طبقے اور مڈل کلاس کے یہ دانشور اپنے خیالوں کے قلعے تعمیر کر کے ان میں مزے سے محوِ استراحت تھے کہ اچانک 16 اگست کی صبح کو اٹک میں وزیرِ داخلہ پنجاب کرنل (ریٹائرڈ) شجاع خانزادہ کے گھر پر ہونے والے حملے میں چند ایک پولیس افسران کے ہمراہ وزیر صاحب کی ہلاکت کی خبر نے ان کے طوطے اڑا دیئے ہیں۔ دہشت گردی کی حقیقی وجوہات اور محرکات کو سمجھے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ بھلا کیسے لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔ اگر دوا اسی عطار کے لونڈے سے ہی لینی ہے جس کے سبب بیمار ہوئے تو زخم کو ناسور بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
بوژوا طرزِ فکر کا المیہ یہ ہے کہ وہ اجزا کو اس کے کُل،افرادکے کردار کو عمومی سماجی ارتقا اور واقعات کو ان کے مربوط عوامل سے کاٹ کر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک سال سے زائد عرصے سے جاری آپریشن کے گرد خوش فہمیوں کے بڑے بڑے جال بُننے کا بنیادی سبب بھی یہی بیہودہ سوچنے کا انداز ہی ہے۔ 68 سال سے بالعموم اور 70 کی دہائی سے بالخصوص ریاستِ پاکستان کا عمومی ارتقا اور اسکی مالیاتی بنیادوں کو لگا کالے دھن کا دیمک ریاست کو اندر ہی اندر سے اتنا کھوکھلا کر چکا ہے کہ اب مصنوعی ملمع کاری سے اس عمل کو یک لخت الٹایا نہیں جا سکتا۔ راحیل شریف کی مبینہ مافوق الفطرت اور دیومالائی ’شرافت اور دیانت‘ بھی اس عمل پر کوئی فیصلہ کن اثرات مرتب نہیں کر سکتی۔ ملک بھر میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور ریاستی بے بسی، کراچی میں موسمی شدت سے ہزاروں جانوں کا ضیاع اور حکمران طبقے کی بے حسی نے درحقیقت یہ ثابت کر دیا ہے کہ بنیادی طور پر سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر مکمل منہدم ہونے کے قریب قریب پہنچ گیا ہے۔ پاک فوج کی امدادی کاروائیوں کی لمبی لمبی ویڈیوز اور پسِ منظر میں چلنے والے جوشیلے ملی نغموں کا شور شرابہ بھی متاثرین کی آنکھوں سے ٹپکنے والی گہری مایوسی اور اس نظام سے مکمل بیگانگی کی پردہ پوشی نہیں کر سکتے۔ اور ابھی حال ہی میں قصور میں ہونے والے واقعات نے بھی اس سرطان زدہ ثقافت اورعمومی نفسیاتی گراوٹ کی ایک جھلک عوام کے سامنے رکھی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اب اس معاشرے کو انسانی اقدار اور معیارات کے مطابق چلایا ہی نہیں جا سکتا۔ اس طرح کے واقعات ہر وقت اور ہر جگہ معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ایک پر انتشار سماج پر منظم اور مستحکم ریاست کیسے براجمان ہو سکتی ہے ؟ریاستی ادارے آخری تجزیے میں سماج ہی کی عکاسی تو کرتے ہیں۔ سینیٹر مشاہداللہ کے انٹرویو نے ایک دفعہ پھر ریاستی اداروں کے گھمبیر داخلی تضادات کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس انٹرویو میں کیئے گئے انکشافات میں اگر محض ایک فیصد سچائی بھی ہو تو اس سے صورتحال کی نزاکت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اتحاد، ایمان اور تنظیم کے جتنے بھی نعرے لگا لیے جائیں،زرخرید ٹی وی اینکرز سے افواجِ پاکستان کی جتنی بھی مدح سرائی کروا لی جائے،تصنع،ریاکاری اور خود فریبی کے جتنے بھی جتن کر لیے جائیں اس غیر فطری ریاست کو اس کے مکافاتِ عمل سے نہیں بچایا جا سکتا۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب عدالتی ایکٹوازم کے ذریعے سے عوام کا اس ریاست کی افادیت پر سے کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی تھیں۔ ہر روز ازخودد نوٹس اور مختلف افسران اور وزرا کی طلبیوں کے ذریعے سپریم اور ہائی کورٹس کو عوامی امنگوں کا نمائندہ اور ترجمان بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ پسماندہ ثقافتی معیارات کو استعمال کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری کو ’ابنِ مریم‘ کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ لیکن معمول کے ادوار میں ایک فرد کا کردار ایک ادارے کے عمومی کردار سے زیادہ مقوی اور حاوی نہیں ہو سکتا۔ آج چند سالوں کے بعد ہی محبوب ترین چیف جسٹس کے کردار پر انہی لوگوں کی طرف سے انگشت نمائی شروع ہو گئی ہے جو کل تک اسے ’وقت کا امام‘ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ابھی سنا ہے کہ موصوف اپنی پارٹی بھی بنا رہے ہیں۔ اس سے بچی کھچی ساکھ کے زائل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر راحیل شریف کے معاملے میں بھی افتخار حسین چوہدری کی مقبولیت کے عروج و زوال کی طرح تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو اس کے اثرات کس حد تک مہلک ہو سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مڈل کلاس بہت بے یقین اور جلد باز ہوتی ہے۔ وہ جہاں مٹی کے بتوں کو خدا بنانے میں دیر نہیں لگاتی وہیں وہ بتوں کو چکناچور کرتے وقت بھی زیادہ محتاط نہیں ہوتی۔ سرحدوں پر کشیدگی پیدا کرکے پاک بھارت دشمنی کا کھلواڑ آخر کتنی طوالت اختیار کر سکتا ہے۔ کب تک سیلاب سے لے کر دہشت گردی تک ملک میں ہونے والی ہر خرابی کی ذمہ داری را پر ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ تسلیم کروایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ابھی سانحہ اٹک کا نزلہ بھی انڈیا پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق چار گھنٹے تک لاشیں ملبے تلے دبی رہیں اور دو گھنٹے تک وزیرِ داخلہ صاحب کی آوازیں ملبے کے نیچے سے سنائی دیتی رہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بروقت کاروائی سے چند ایک زخمیوں کی جان بہت آسانی سے بچائی جا سکتی تھی۔ لیکن ریاستی لاجسٹکس اور انفراسٹرکچر کی خستہ حالی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی مکمل نا اہلی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جب ایک وزیر کی جان بھی نہیں بچائی جا سکتی تو عام آدمی کو دفاع کے نام پر خرچ کی جانے والی اتنی خطیر رقم سے کیا امیدیں اور توقعات وابستہ ہو سکتی ہیں۔ حملہ کرنے والے چاہے امریکی ہوں یا بھارتی لیکن ملک کو اس نہج تک لانے والے اور انفراسٹرکچر کی اس حد تک زبوں حالی کے ذمہ دار تو سب سے زیادہ پاکباز بنے ہوئے ہیں۔
آپریشن ضربِ عضب میں ہزاروں دہشت گردوں کی ہلاکت اور گرفتاریوں کے باوجود دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ کراچی میں بھی گزشتہ 23 ماہ سے زائد مدت سے جاری آپریشن میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 62 ہزار کے لگ بھگ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی دوران جرائم کی شرح، ٹارگٹ کلنگ اور خود کش حملوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی جڑیں ملکی معیشت کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہیں۔ امن کے وقفے جتنے بھی طویل ہو جائیں ایسے امن کی پائیداریت ہمیشہ مشکوک ہی رہے گی۔ دہشت گردوں کو پیدا کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ بیروزگاری ہے جس کی پیداواریت میں دن دوگنا اور رات چوگنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ موجودہ حکومت نجکاری کی عوام دشمن پالیسی پر سختی سے کاربند ہو کر مزید روزگار پیدا کرنے کی بجائے پہلے سے برسرِ روزگار لوگوں سے روزگار چھیننے کے درپے ہے۔ ایسی صورتحال میں آبادی کی بڑی اکثریت کا غیر قانونی معیشت پر انحصار کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ دہشت گردی کا وہ خام مال ہے جسے بنیاد پرستی، قومی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی شکل میں سیاسی ایندھن بھی دستیاب ہے۔ اس مکروہ عمل کی جڑیں معیشت اور ریاست کی جڑوں میں نا قا بلِ علیحدگی حد تک مدغم ہو چکی ہیں۔ آپریشن سے جتنے دہشت گرد مارے جاتے ہیں، اس سے زیادہ چند ماہ میں تیار ہو جاتے ہیں۔ ملک اسحاق جیسے بنیاد پرستوں کو مارنے والوں اور انکی پرورش کرنے والے ریاستی دھڑوں میں طاقت کا توازن متلاطم ہی رہے گا۔ ایران اور سعودی پراکسی، چین اور امریکی مفادات کا تصادم یہ سب عوامل داخلی محرکات کے ساتھ مل کر ریاست کو اس سمت میں دھکیل رہے ہیں جہاں وہ چوراہا زیادہ دور نہیں جہاں چاروں اطراف میں گہری کھائی کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ جاتا۔
موجودہ حکومت بظاہر جتنی مضبوط دکھائی دے رہی ہے عملاً اتنی ہی بے بس اور لاچار ہے۔ جوڈیشل کمیشن سے کلین چٹ مل جانے سے جہاں اقتدار کو وقتی طوالت نصیب ہوئی ہے وہیں داخلہ اور خارجہ امور پر پہلے سے زیادہ سمجھوتے کرنے پڑے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک نیم مارشل لائی دور ہے جہاں ایک کٹھ پتلی حکومت کا تکلف برتنا بھی حالات کے جبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کے بعدآزاد عدلیہ نے بھی فوجی عدالتوں کو آئینی قرار دے کر آئین کی مضحکہ خیزی کو بے نقاب کیا ہے۔ اور صحافیوں اورسیاستدانوں کی اکثریت نے اس فیصلے کو ’جمہوریت کی فتح ‘ قرار دے کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ باقی تمام پارٹیوں کی طرح حکومتی پارٹی میں بھی تناؤ موجود ہے جو آنے والے دنوں میں بڑھ سکتا ہے۔ فی الوقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تاریخی گراوٹ اور چینی اکنامک کوریڈور نے وہ معاشی بیساکھی فراہم کی ہوئی ہے جس کے بلبوتے پر حکومت اور ریاستی اداروں میں ایک قابلِ عمل مفاہمت ممکن ہو سکے۔ کسی بھی قسم کی سیاسی بے یقینی اکنامک کوریڈور سے وابستہ کمیشنوں اور لوٹ مار میں تعطل پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے سیاسی توازن کو جوں کا توں رکھنے کی ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور اس میں بار بار ہوا بھرنے کی گنجائش بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کے ناٹک بھی عوامی لاتعلقی کے باوجودجاری و ساری ہیں۔ عوام ابھی تک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن دانشوروں، سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کی سوچ کے برعکس یہ خاموشی کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
ایم کیو ایم کی طرف سے استعفوں کے ڈرامے کی ایک اور قسط حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے۔ مولوی ڈیزل ہمیشہ کی طرح مفاہمت کروانے میں پیش پیش ہیں۔ الطاف بھائی کی امریکہ میں کی جانے والی متنازعہ تقریر کے بعد ایم کیو ایم میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ ایک سابقہ وزیر سمیت کچھ لوگ پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو جبری طور پر عہدوں اور ذمہ داریوں سے برطرف کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ایم کیو ایم کی سماجی بنیادیں کمزور ہوئی ہیں مگر ریاست کو کراچی میں ایم کیو ایم کی آج بھی ضرورت ہے۔ اس لیئے ایم کیو ایم کومائنس ون یا تطہیر کی پالیسی کے ذریعے ایک نسبتاً کمزور اور زیادہ مفید اور قابلِ بھروسہ اور قابلِ استعمال کیفیت میں لانے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ رینجرز نے 172 ٹارگٹ کلرز کے ناموں پر مشتمل ایک خط فاروق ستار کے نام تحریر کیا ہے۔ یہ ان مجرموں کی فہرست ہے جو ماضی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشنوں میں شامل پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث رہے ہیں۔ تاہم اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ تمام تر تفصیلات اور اطلاعات کے باوجود اس سے قبل ان افراد کے خلاف کبھی کوئی بڑی کاروائی کیوں نہیں کی گئی۔ اس سے ایم کیو ایم کے ریاستی گٹھ جوڑ کے اتار چڑھاؤ کی وجوہات اور اثرات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ آفاق احمد کی لمبی خامشی بھی بالآخر اب ٹوٹنا شروع ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے اندر الطاف بھائی کے وفاداروں اور جیالوں کی وسیع تعداد بہرحال ابھی تک موجود ہے جو شاید ردِ عمل کے لیئے مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ مہاجر صوبے کے مطالبات کے بعد اب علیحدگی کی دھمکیاں بھی صحافتی سرگوشیوں کا حصہ بننا شروع ہو گئی ہیں۔ آپریشن کے تمام ترواویلے کے باوجود بہت سی کالعدم مذہبی جنونی تنظیموں کو منافرتوں کا کاروبار کرنے کی کھلی چھٹی بھی حاصل ہے۔ کراچی میں ریاستی متحارب دھڑوں کی کراس فائرنگ ذرا سی تھمی ضرور ہے ختم ہر گز نہیں ہوئی۔ آئندہ اس کی بھینٹ کسی نامور سیاسی شخصیت کی بلی بھی چڑھائی جا سکتی ہے۔ اس صورتحال میں کسی بھی ایسے واقعے کے نتیجے میں کراچی میں جاری حالیہ امن کا وقفہ جلد یا بدیر اچانک کسی شدید ہنگامہ خیز صورتحال میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
یوں آگ اور خون کا یہ کھیل سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کی ضرورت بن چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادں پر اس کا خاتمہ کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ سانحہ اٹک کے بعد سول اور عسکری قیادت کی طرف سے نیشنل ایکشن پلان کی تکمیل کے عہد کی تجدید اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر شدید جوابی کاروائیوں کے ذریعے نفسیاتی خجالت تو مٹائی جا سکتی ہے مگر یہ بربریت ختم نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح کے جوابی ردِ عمل میں بھی زیادہ تر عام معصوم لوگ ہی نشانہ بنتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کو ان کے ’محبِ وطن‘ خیر خواہ حملوں سے پہلے ہی آگے پیچھے کر دیتے ہیں۔ سول اور عسکری قیادتوں کی ’نیک نیتی ‘ پر اگر شک نہ بھی کیا جائے تب بھی معاملات ان کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ پانی بہت عرصے قبل ہی سر سے گزر چکا ہے۔ عشروں پہلے خود بوئی ہوئی فصل اب کاٹنی تو پڑے گی ہی۔ صرف اور صرف ایک عوامی شمولیت اور معاونت پر قائم انقلابی حکومت ہی دہشت گردی کے اس ناسور سے نجات کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔ تا حال ایسی انقلابی تحریک معدوم ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے مکمل طور پر نالاں اور بدگمان محنت کش عوام مایوسی کی دلدل میں غرق ہیں۔ ٹریڈ یونینوں کی قیادتیں چھوٹی چھوٹی تحریکوں کی نیلامی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چند ایک جگہ پر محنت کشوں کو وقتی فتوحات تو ملی ہیں مگر بالعموم یہ شکستوں اور پسپائی کا دور ہے۔ طلبا سیاست کے جمود نے اعصاب شکن سناٹے کو اور بھی گہرا اور المناک بنا دیا ہے۔ لیکن نوجوان مسلسل زوال پذیر ریاستی اداروں کی دگر گوں حالت کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی طرف سے تعلیمی اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد نوجوانوں میں اضطراب اور غم وغصہ زور پکڑ رہا ہے جو ابھی تک سیاسی افق پر اپنا اظہار تلاش کر رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس قسم کے سیاسی سکتے کو حتمی طور پر نوجوانوں کی تحریکیں ہی توڑتی ہیں۔ پاکستان میں ترقی پسند طلبا کی تحریکوں کی عظیم الشان روایات موجود ہیں۔ آج پھر مزدور تحریک میں نئی روح پھونکنے کے لیے ایک پر عزم اور ولولہ انگیز طلبا تحریک ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن طلبا سیاست میں قیادت کا فقدان مزدور تحریک سے بھی زیادہ شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں مارکسی قیادت پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایک طرف تو محنت کشوں پر ہونے والے نجکاری سمیت تمام تر حملوں کے خلاف مزدور تحریک کے دفاع کے لیے ایک سرگرم مزاحمت منظم کی جائے تو دوسری طرف نوجوانوں میں مسلسل بڑھتے ہوئے نفرت اور انتقام کے جذبے کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔ ان دونوں عوامل کا امتزاج ہی خوشحال معاشرے اور پائیدار امن کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔