پاکستان میں بائیں بازو کی تنزلی کے اسباب

تحریر: لال خان

پاکستان کی موجودہ سیاست میں بائیں بازو کے رحجانات اور نظریات ظاہری طور پر تو مٹادیئے گئے ہیں۔ مالیاتی سرمایہ کی لونڈی اس سیاست میں ہر طرف مفاد پرستی اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ لیکن بائیں بازو کے نظریات سے عاری سیاست کبھی بھی اس ملک کے کروڑوں محنت کشوں اور غریبوں کی نمائندہ نہیں ہوسکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں برصغیر میں بائیں بازو کی سیاست کا کلیدی کردار رہا ہے۔ قبل از تقسیم برصغیر کے بڑے سیاسی رہنماؤں کے ابھار میں مزدور تحریک کا اہم کردار تھا۔ محمد علی جناح ’آل انڈیا پوسٹل سٹاف یونین‘ کے منتخب صدر تھے جبکہ جواہرلال نہرو ’آل انڈیا ٹریڈیونین فیڈریشن‘ کے سربراہ رہے۔ انگریز سامراج نے سب سے زیادہ جبر بائیں بازوپر ہی روا رکھا، لیکن بائیں بازو کی تحریک کو وہ دبا نہیں سکا، بلکہ ان حملوں سے یہ زیادہ جرات اور طاقت حاصل کرکے ابھرتی رہی۔ آج ہندوستان اور پاکستان میں سرکاری او ر غیر سرکاری تاریخ میں سے بائیں بازو کی سامراجی تسلط کے خلاف مزاحمت، جدوجہد اور قربانیوں کو تقریباً حذف کردیا گیا ہے۔ لیکن تاریخ کے اس قتل سے تاریخی سچائیاں مر نہیں سکتیں، بلکہ دوبارہ نئی شدت کے ساتھ ابھر کر اس بالادست طبقات کے ادبی جبر ا ور تاریخی بددیانتی کو بے نقاب اور رسوا کرتی ہے۔
آج کی نسل اس امر سے شاید ناواقف ہوگی کہ 1936ء تک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، مسلم لیگ اور کانگریس دونوں سے زیادہ فعال، منظم اور سامراج دشمن جدوجہد کرنے والی حقیقی سیاست طاقت تھی۔ ریاستی جبر تو بائیں بازو کی اس تحریک کو کچل نہیں سکا لیکن سب سے زیادہ نقصان اسے نظریاتی غلطیوں نے پہنچایا۔ اس عہد میں سوویت یونین کی سٹالن اسٹ زوال پذیری کے بعد ماسکو سے افسرشاہانہ انداز میں چلائی جانے والی ’تیسری انٹرنیشنل‘ کے ذریعے یہاں کی کمیونسٹ قیادت کو مجبور کیا گیا کہ وہ ’’سوویت یونین‘‘ کے ’قومی‘ اور خارجہ مفادات کے مطابق اپنی پالیسیاں مرتب کریں۔ دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں سٹالن (سوویت یونین)، چرچل (برطانیہ) اور ٹرومین اور روزویلٹ (امریکہ) کے درمیان یالٹا، تہران اور پوٹس ڈیم میں جو معاہدے طے پائے ان کی بھینٹ دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں کو چڑھایا گیا۔ سٹالن کے برطانیہ سے معاہدے کے بعد یہاں کی کمیونسٹ پارٹی نے بھی برطانوی سامراج سے لڑتے لڑتے اچانک پینترا بدلا اور سامراج دشمن جدوجہد سے عملاً دستبردار ہو گئی۔ اس وجہ سے اس کی ساکھ تیزی سے گری اور 1946ء کے انقلاب میں کوئی ہراول کردار ادا نہ کر سکی۔ قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہی یہ انقلاب شکست سے دو چار ہو کر بر صغیر کے خونی بٹوارے پر منتج ہوا۔ درست نظریات اور انقلابی قیادت میسر آ جانے پر یہ انقلابی تحریک محض قومی آزادی کے مرحلے پر نہ رکتی بلکہ معاشی آزادی کی منزل کی طرف بڑھ کر ایک سوشلسٹ انقلاب تک چلی جاتی۔ لیکن سٹالن ازم کی نظریاتی غداری کے پیش نظر ایسا نہیں ہو سکا۔
پاکستان بننے کے بعد نئے حکمرانوں نے سرمایہ داری کے تحفظ کے لئے امریکی سامراج کی گماشتگی کی پالیسی اپنائی اور لیاقت علی خان نے روس کا دورہ منسوخ کرکے واشنگٹن کا رخ کیا۔ لیکن اس وقت کے حالات اور خصوصاً ایشیا بھر میں ابھرتی ہوئی انقلابی تحریکوں کی وجہ سے یہاں کے حکمران اور سامراجی طاقتیں ایک چھوٹی سی کمیونسٹ پارٹی سے بھی خوفزدہ تھے۔ 1950ء کی دہائی میں نامور کمیونسٹ رہنماؤں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، حسن ناصر اور بیشتر لیڈروں اور کارکنان کو قید و بند کی صعوبتوں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حسن ناصر کو ایسی ہی ایک سرکاری وار دات میں بعد ازاں قتل کردیا گیا۔ ایسے کئی گمنام شہیدوں کی طویل فہرست ہے۔
ایوبی آمریت کے پہلے اور دوران زیادہ تر تحریکیں طلبہ میں ابھریں، ان پر بے رحم ریاستی تشددڈھایا گیا۔ پھر اسی دور میں ہی ہونے والی پاکستان کی تیز ترین صنعتی ترقی نے ایک وسیع پیمانے پر تازہ دم مزدور تحریک کو بھی جنم دیا۔ یہ محنت کش طبقہ نوجوان اور نڈر تھا۔ ایوب خان کے دور میں ہونے والی معاشی ترقی معاشرے کو بحیثیت مجموعی سماجی ترقی دینے اور ایک بلند تر سطح پر پہچانے میں ناکام رہی اور طبقاتی تضادات شدید تر ہی ہوئے۔ لیکن اس عرصے میں بائیں بازو کی پارٹیاں زیادہ تر ماسکو یا پیکنگ نواز تھی، جہاں بیٹھے بیوروکریٹ ’قومی سوشلزم‘ اور ’مرحلہ وار انقلاب‘ کی سٹالن اسٹ پالیسیوں پر گامزن تھے۔ مارکسزم کے بنیادی اصول ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ‘‘ سے انحراف کی وجہ سے سوویت یونین اور چین کے آپسی اختلافات کا نتیجہ دنیا بھر کی کمیونسٹ تحریک میں پھوٹ کی شکل میں برآمد ہوا۔ یعنی طبقاتی جنگ کو قومی تضادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ یہاں بائیں بازو کی بربادی کا سب سے بڑا موجب ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کا فرسودہ نظریہ تھا جسے ماسکو اور پیکنگ سے مسلط کیا جاتا رہا۔ اس بیہودہ نظرئیے کے مطابق پسماندہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب سے قبل ’قومی جمہوری انقلاب‘ ضروری تھا۔ حالانکہ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ داری اتنی بوسیدہ اور تاخیر زدہ ہے کہ یہاں قومی جمہوری انقلاب کے فرائض بھی صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ادا ہو سکتے ہیں۔ محنت کش عوام کا شعور کہیں آگے نکل چکا تھا، لیکن بائیں بازو کے رہنما ابھی تک ’قومی جمہوری انقلاب‘ کی لکیر کے فقیر بن کر کہیں پاکستانی قوم پرستی یا دوسری قوم پرستیوں میں غرق تھے تو کہیں آمریت اور ’جاگیر داری‘ کے خلاف ’ترقی پسند سرمایہ دار‘ تلاش کرتے پھر رہے تھے۔
یہ تاثر غلط ہے کہ ان پارٹیوں میں تنقید اور جمہوریت کا فقدان تھا۔ یہ شاید ضرورت سے زیادہ موجود تھے۔ لیکن تنقید ذاتی اور تنظیمی پہلوؤں تک ہی محدود رہی۔ نظریاتی سوالات اور لائحہ عمل پر بہت کم بحث ہوتی تھی اور عام کارکنان میں اس تخلیقی عمل کی بہت کمی پائی جاتی تھی۔ ماسکو اور پیکنگ سے آنے والے لٹریچر کو ہی حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ یہ نظریاتی ابہام، انحصار اور کمزوری ہی بالخصوص سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کے بحالی کے بعد ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے یکسر انہدام کی بنیادی وجہ ثابت ہوئی۔
’قومی جمہوری انقلاب‘ یا’عوامی جمہوری انقلاب‘ کے مرحلہ وار نظریات نے بائیں بازو کی تحریک میں ’سوشلسٹ انقلاب‘ کے نظرئیے اور نام تک کو ممنوع بنائے رکھا۔ اس ’مرحلہ واریت ‘کی اساس یہ تھی کہ یہاں کے صنعتی سرمایہ دار طبقے کے ساتھ مل کر ایک صنعتی انقلاب برپا کرکے ایک پرولتاریہ پیدا کیا جائے جو کسی اور جنم میں ’اگلے مرحلے‘ پر سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ پورا کرے گا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ یہ من گھڑت اور فرسودہ نظریہ مارکسزم کی اساس، بالخصوص لینن کی شہرہ آفاق نظریاتی تحریر’اپریل تھیسس‘ اور 1917ء کے بالشویک انقلاب کو یکسر مسترد کرنے کے مترادف تھا۔ زمینی حقائق اس مرحلہ واریت سے بالکل متضاد تھے۔ اس کا اظہار تب ہوا جب پاکستان بننے کے 21 سال بعد نومبر1968ء میں طلبہ سے شروع ہو کر مزدوروں اور دہقانوں میں پھیل جانے والی تحریک ایک ملک گیر انقلاب میں بدل گئی۔ ان لمحات میں نومولود پیپلز پارٹی نے روایتی بائیں بازو کے قومی جمہوری پروگرام کے برعکس سوشلسٹ پروگرام دیا۔ یہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی امنگوں سے اتنا قریب تھا کہ پیپلز پارٹی راتوں رات ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن گئی۔ لیکن بھٹو کوئی لینن نہیں تھا اور بالشویک پارٹی کی طرح پیپلز پارٹی کوئی انقلابی پارٹی نہیں تھی۔ اس لیے انقلاب انتخابات، خانہ جنگی اور جنگ اور دوسرے کئی اتار چڑھاؤ کے بعد زائل ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی نے اسی نظام ریاست میں اقتدار قبول کر لیا۔ سرمایہ داری پر ضربیں لگائی گئیں لیکن اس کاخاتمہ نہیں کیا گیا۔ حکمران طبقات اور ریاست کے بالادست حصوں نے دوبارہ سنبھل کر امریکی سامراج کی ایما پیپلز پارٹی حکومت کا دھڑن تختہ اور بھٹو کا عدالتی قتل کیا۔
ضیا آمریت کی وحشت کا نشانہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور دوسری بائیں بازو کی پارٹیوں کے کارکنان ہی بنے۔ ضیا الحق کے جانے کے بعد جو پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی وہ ’مفاہمت‘ کی ڈگر پر چل کر سوشلسٹ کی بجائے رفتہ رفتہ ’جمہوری‘ اور سرمایہ دارانہ بنتی چلی گئی۔ ا س کا سامراج دشمن کردار سامراج دوستی میں بدلتا گیا۔ عوام اپنی اس روایت کی جانب بار بار لوٹتے رہے لیکن پارٹی نے انکو اتنا مایوس اور بدظن کیا کہ وہ سیاست سے ہی کنارہ کش ہوتے گئے۔ دوسری طرف سوویت یونین اور چین میں سوشلزم کی مسخ شدہ شکل کو ہی ’حقیقی سوشلزم‘ سمجھنے والے رہنما اپنے قبلوں کے ٹوٹنے کے بعد راتوں رات ’کمیونسٹ‘ سے لبرل اور سیکولر بن گئے۔
لیکن اگر حاوی سیاست میں سے بائیں بازو کے نظریات ختم ہوگئے ہیں تو محنت کشوں میں اس سیاست کی کسی پارٹی کی جانب کوئی امید، کوئی لگاؤ بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ سیاسی جمود اور بے حسی صدا نہیں چل سکتی۔ محنت کش عوام جب دوبارہ انقلابی تحریک میں اتریں گے تو ان کی قیادت بائیں بازو کی وہی تنظیم یا پارٹی کرے گی جس کے نظریات، طریقہ کار اور لائحہ عمل کو تاریخ کی کسوٹی نے کھرا ثابت کیا ہو گا۔

متعلقہ:

بُت ہم کو کہیں کافر!

جسے معراج کہتے تھے!