| تحریر: لال خان |
ان دنوں عراق کے شہر موصل پر عراقی فوجوں اور کرد ’پیشمرگہ‘ ملیشیا کی امریکی پشت پناہی اور منصوبہ بندی کے تحت پیش قدمی جاری ہے۔ عراق کے اس دوسرے سب سے بڑے شہر پر داعش نے 2014ء میں قبضہ کیا تھا۔ ظاہری طور پر اس کو داعش کا سب سے بڑا گڑھ قرار دے کر اس سے داعش کے انخلا کو اس کے خاتمے کے طو رپر پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن مغربی کارپوریٹ میڈیا کی یہ کہانی ادھوری بھی ہے اور یہ تجزیہ پرفریب بھی۔ اس پورے ’لیوانت‘ کے خطے میں ایک بڑی جنگ میں یہ ایک لڑائی ہے۔ لیکن اس جنگ میں صرف دو یا تین متحارب قوتیں نہیں ہیں۔ بلکہ اس میں کئی فریق ہیں جن کے مقاصد اور مفادات مختلف بھی ہیں اور متضاد بھی۔ ایک طرف روس، ایران اور حزب اللہ اس جنگ میں بشارالاسد کی حکومت اور شام کی سرکار کی حمایت کررہے ہیں۔ لیکن ان کی یہ حمایت نہ ہی بے مطلب ہے اور نہ ہی ان کا اصل مقصد بشارالاسد کی حکومت کو قائم رکھنا ہے۔ بلکہ روسی حاکمیت کے اپنے اور ایرانیوں کے اپنے مفادات ہیں، جن میں خطے پر اجارہ دارانہ عزائم سے لے کر اس علاقے کے تیل اور دوسرے وسائل کو قبضے میں کرنا شامل ہے۔ دوسری جانب امریکی اور یورپی طاقتوں کی اپنی سامراجی اجارہ داری جو زوال پذیر ہے، اس کو بحال اور خطے پر تسلط کو جاری رکھنا مقصود ہے۔ ایران کی طرح خلیجی بادشاہتوں یعنی سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات اور قطر کے شاہی خاندانوں کی حاکمیتوں کی جانب سے اپنی اجارہ داری کے لیے خطے میں مداخلت 2011ء سے مسلسل جاری رہی ہے۔
عملی طور پرشام کے علاوہ کوئی بڑی قومی فوج براہِ راست یہ جنگ نہیں لڑ رہی، بلکہ بہت سے اسلامی بنیاد پرستی کے فرقوں کے خونخوار دہشت گرد گروہ ہیں جو مختلف عالمی اور علاقائی سامراجی قوتوں کی پراکسیوں کے طور پر برسرپیکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قومی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی کی بے پناہ کاروائیوں اور حملوں پر مبنی جنگ ہے۔ لیکن شہروں پر قبضوں اور علاقوں کو فتح کرنے کی جنگیں بھی اس ہولناک تصادم میں جاری ہیں۔ اس خونریزی نے سارے خطے کو ہر طرح سے تاراج کر دیا ہے اور خون میں ڈبو دیا ہے۔ لاکھوں مارے جاچکے ہیں او ردرجنوں شہر اور بستیاں اجڑ گئی ہیں۔ قدیم تہذیبیں برباد کردی گئی ہیں، تاریخی نوادرات کو لوٹ لیا گیا ہے۔ یہاں انسانیت سسک رہی ہے۔ جہاں ریاستیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں وہاں معاشروں کے سماجی بندھن اور لڑیاں ریزہ ریزہ ہورہی ہیں۔ لیکن سامراجیوں کی وحشت، ہوس زرا وراجارہ داری کی حرص ہے کہ بڑھتی ہی جاتی ہے، چاہے نسل انسان سسک سسک کر ہی کیوں نہ مرجائے۔
جہاں داعش کو ایک ولن اور بربریت کی علامت بنا کر پیش کیا جارہا ہے، وہاں داعش کی مالی امداد اور اس کو اس نہج تک پہنچانے میں سامراجیوں کا بالواسطہ اور براہِ راست گھناؤنا کردار موجود رہا ہے۔ لیکن اگر موصل سے داعش کا صفایا بھی کردیا جاتا ہے تو نہ داعش ختم ہوگی اور نہ ہی یہ بربریت، جس میں بہت سے مذہبی گروہ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور ریاستیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا پر سرمائے کی آہنی گرفت کے باوجود ایسے جیالے صحافی بھی ہیں جو سچائی کو فریب کی گہرائیوں سے چیر کر باہر نکالنے کی جرات آج کے دور میں بھی رکھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک صحافی رابرٹ فسک نے 18 اکتوبر 2016ء کو اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’عراق میں موصل کے گر نے کے بعد شامی فوج اور اس کے اتحادی (حزب اللہ اور ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجو گروہ وغیرہ) داعش کے عراق سے آنے والے ہزاروں جنگجوؤں کی جارحانہ چڑھائی کامقابلہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ امریکہ کی منصوبہ بندی کے تحت بہت بلند وبانگ دعوؤں پر مبنی اس عراقی شہر کی ’’آزادی‘‘ کا اصل مقصد جس کا اندازہ شامی فوج نے لگایا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کے گروہ در گروہ عراق سے اپنے شام کے دارالحکومت ’رقہ‘ کی جانب بھاگیں گے۔ دوسرے الفاظ میں داعش کی ’خلافت‘ کی پوری فوج، شامی حکومت اور اسکے اتحادیوں کے خلاف استعمال کروائے جانے کا کھیل تیار کیا جارہا ہے۔ ایسا کھلواڑ جس سے واشنگٹن کو تشفی ملے گی‘‘۔ اسی سامراجی سازش کے منصوبے پر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’’امریکی ماضی کی طرح ایک عیار انہ منصوبہ موصل کے گرنے کے بعد بنا رہے ہیں تاکہ اسد کو شکست دلوا کر شام میں اسکی حکومت کا خاتمہ کیا جاسکے‘‘۔
دوسری جانب جہاں داعش سرگرم ہے وہاں القاعدہ اور اسکی ذیلی تنظیمیں خصوصاً’ النصرہ‘ جس نے اپنا نام پر بدل کر’’ جبہت فتح الشام‘‘ رکھ لیا ہے، بربریت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں (اگرچہ حال ہی میں النصرہ نے القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے)۔ مغربی سیاستدان ان کو ’’شام کے باغی‘‘ قرار یتے ہیں جبکہ ماسکو اور دمشق درست طور پر ان کو داعش سے بھی زیادہ زہریلی فسطائی تنظیم قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روسی اور شامی فوجی اور فضائی حملے زیادہ تر ان دہشت گرد تنظیموں پر کیے جارہے ہیں۔ جب کہ امریکہ نے ان دہشت گرد جنونی گروہوں پر حملہ کرنے کی بجائے شام کی سرکاری فوج پر حملہ کرکے پچھلے ہفتے 60 شامی فوجیوں کا قتل عام کیا۔ لیکن اگر امریکی سامراج کے داعش کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیں تو ’وکی لیکس‘ نے انکشافات کے ذریعے ان کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کردیا ہے۔ تاہم کئی مرتبہ حکمرانوں کے منہ سے بھی حادثاتی طور پر سچ نکل جاتا ہے۔ اسی سال امریکی صدر باراک اوباما نے ’دی اٹلانٹک‘ کے نمائندہ جیفری گولڈ برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’امریکہ کے سنی اتحادیوں کو امریکہ دشمن دہشت گردی ابھارنے کے خلاف مزاحمت کرنی ہوگی‘‘۔ ہیلری کلنٹن کی لیک ہونے والی ای میلز میں سے 17 اگست 2014ء کی میل میں امریکہ کی وزارت خارجہ (جب ہیلری وزیر خارجہ تھیں) نے یہ پالیسی جاری کی کہ داعش کی شمالی عراق اور مشرقی شام (پرچڑھائی)پر امریکہ مناسب ردعمل ظاہرکرے گا‘‘۔ اس سفارتی لفاظی میں داعش کی جارحیت پر امریکی پالیسی تشویش سے بالا تر نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شام، عراق او رپورے مشرقِ وسطیٰ میں جو یہ تباہ کاریاں ہیں اور پورا خطہ ایک انتہائی پیچیدہ تصادم اور ٹکراؤ میں برباد ہورہا ہے وہ وسائل پر تسلط اور اثرورسوخ بڑھانے کے سامراجی عزائم کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ جو ں جوں بین الاقوامی سرمایہ دارانہ اقتصادی اور معاشی نظام بحران زدہ ہوتا جا رہا ہے، سامراجیوں اور علاقائی ریاستوں کی جارحانہ یلغار اور پاگل پن بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہاں دوستیاں دشمنیاں، بدلتی وفاداریاں، فرقے، مذہبی تنازعات اور الحاق سب کے سب مطلب اور مفادات کے تابع ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ایران اور روس کی بشار الاسد حکومت کے ساتھ دوستی اور مغربی سامراجیوں اور عرب بادشاہتوں سے دشمنی کے اغراض ومقاصد آخری تجزیے میں ایک ہی ہیں۔ سامراجیوں کے درمیان کشمکش جب بحران کی وجہ سے بہت بڑھ جاتی ہے تو ان کے درمیان سفارتی، سیاسی اور فوجی تصادم بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہ اسی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی شدت ہی تھی جو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی اصل وجہ بنی تھی۔ آج پھر یہی شدت تصادم کو بھڑکا رہی ہے لیکن چونکہ آج طاقتوں کا توازن مختلف ہے اور ایٹمی اسلحہ اور دوسرے وسیع انسانی بربادی کے جنگی آلات اتنے زیادہ تباہ کن ہوچکے ہیں کہ براہِ راست سامراجی ریاستوں کا تصادم دونوں کو تباہ کرسکتا ہے۔ اس لیے سفارتی اور سیاسی میدانوں پر تو نئی ’’کولڈ وار‘‘ تیز ہوتی جارہی ہے لیکن براہِ راست جنگیں اب پراکسیوں اور پروردہ ریاستوں، مذہبی وفرقہ وارانہ دہشت گردی کی تنظیموں کے ذریعے لڑی جارہی ہیں۔ اس نظام کا یہ بحران نسل انسان کو یہی ہولناک مقدر دے سکتا ہے۔ اس سے چھٹکارا پا کر ہی تہذیب اور انسانی تمدن کو بربریت کی بربادی سے بچایا جاسکتا ہے۔
متعلقہ: