امریکہ: سامراجی ریاست کی نسلی قتل و غارت

| تحریر: PTUDC امریکہ |

5 جولائی کو ریاست لویزیانا کے شہر بٹان روج میں 37 سالہ سیاہ فام ایلٹن سٹرلنگ پولیس کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔ سٹرلنگ پانچ بچوں کا باپ تھا اور پیٹ پالنے کی خاطر ایک سٹور کے باہر سی ڈیز فروخت کر رہا تھا۔ موقع پر موجود افراد نے پولیس کی جانب سے اس وحشیانہ قتل کی موبائل فون ویڈیوز انٹر نیٹ پر شائع کر دیں جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دو پولیس والوں نے مل کر اسے زمین پر گرایا اور اس کے بعد اس کے سینے اور پیٹھ میں کئی گولیاں ماریں۔ ابھی سٹرلنگ کے خون کے دھبے بھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ اگلے ہی روز 6 جولائی کو ریاست منیسوٹا کے شہر سینٹ پال میں ایک اور سیاہ فام 32 سالہ فیلانڈو کاسٹیل کو گاڑی کی ٹوٹی ہوئی بتی کے جرم میں پولیس نے روکا۔ اس کے ساتھ اس کی گرل فرینڈ اورگرل فرینڈ کی چار سالہ بچی بھی گاڑی میں سوار تھیں۔ معمولی سوال جواب کے بعد اسے ڈرائیونگ سیٹ پر ہی پولیس افسر نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اس کی گرل فرینڈ نے یہ ساراواقع براہ راست انٹر نیٹ پر نشر کیا جسے اب تک لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ فیلانڈو ایک سکول میں ملازم تھا اور بچوں کو کھانا کھلانے کا سپروائزر تھا۔

alton-sterling-10
ایلٹن سٹرلنگ اور پولیس کے ہاتھوں اس کے قتل کا منظر

دو روز میں ان دو واقعات نے ایک مرتبہ پھر سے سارے ملک کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور ان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 7 جولائی کو سارے ملک میں پولیس کے نسل پرستانہ مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ریاست ٹیکساس کے شہر ڈلاس میں ہونے والے مظاہرے میں تقریباً آٹھ سو افراد شامل تھے اور ایک سو پولیس والے سکیورٹی پر تعینات تھے۔ پر امن احتجاج کے بعد پولیس پر فائرنگ ہونے لگی۔ اس کے نتیجے میں پانچ پولیس افسر ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔ کئی گھنٹوں کے مقابلے اور مذاکرات کے بعد حملہ آور کوپولیس کے روبورٹ سے بندھے بم کے دھماکے کے ذریعے مار دیا گیا۔ 25 سالہ سیاہ فام حملہ آور سابقہ فوجی تھا اور افغانستان میں ڈیوٹی کر چکا تھا۔ اس نے مرنے سے قبل بتایا کہ وہ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کے قتل پر بہت بر ہم ہے اور سفید فام لوگوں خصوصاً پولیس والوں کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ کچھ عرصے سے ایسے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا لیکن گزشتہ دو روز کے واقعات کی بنیاد پر وہ فوری کاروائی کرنے پر قائل ہو ا تھا۔ واضح رہے کہ افغانستان اور عراق میں لڑنے میں ایسے ہزاروں سیاہ فام (اور سفید فام بھی) سابقہ فوجی ہیں جو اعلیٰ فوجی تربیت اور تجربہ رکھتے ہیں اور جن میں سے بیشتر انتہائی غربت اور بیگانگی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
ان واقعات کے بعد سے پورے ملک احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ اٹلانٹا، نیو یارک، شکاگو، سینٹ پال، بٹان روج اورکئی بڑے شہروں میں ہر روزمظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے خلاف پولیس حسب معمول جبر اور طاقت کا استعمال کر رہی ہے اور سی این این کے مطابق اب تک سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ امریکہ سے باہر لندن اور برلن میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ حکمران طبقے کے سیاست دان حسب روایت ’تحمل‘ کا پرچار کر رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلے سیاہ فام صدر کے بیان کے مطابق ’’امریکہ اتنا منقسم نہیں جتنا دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ اوباما کے دور حکومت میں سیاہ فام عوام پر پولیس کے جبر و تشدد اور قتل و غارت میں درحقیقت اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ صدر کے رنگ و نسل کا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پورے ریاست کے کردار کا ہے۔
نسلی اقلیتوں خصوصاً سیاہ فام افراد پر ریاست اور پولیس کا جبرو تشددکوئی نئی بات نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی اور انٹر نیت وغیرہ کی وجہ سے اب ایسے واقعات فوراً منظر عام پر آ جاتے ہیں ، ورنہ یہ سلسلہ تو صدیوں سے جاری ہے۔ صرف 2015ء میں 346 سیاہ فام افراد پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور ان میں سے 69 فیصد نہتے تھے یا خطرے کا باعث نہیں تھے۔ 97 فیصد کیسوں میں پولیس والوں کوجرم سے بری الزمہ قرار دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2016ء میں اب تک 187 سیاہ فام افراد پولیس کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ یہ اس امریکی ریاست کا حال ہے جو پوری دنیا میں ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کی ٹھیکیداری کرتی ہے۔

امریکہ میں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ریاست کے نسلی تعصب اور تشدد کے خلاف تحریکوں میں تیزی آئی ہے۔

پولیس کے اس تشدد کے پیچھے ریاست کا کردار، سماج کی نسلی تقسیم اور سماجی و معاشی نا ہمواری بڑی وجوہات ہیں۔ امریکی سرمایہ داری اور سماج کی بنیاد وں میں ماضی کی غلام داری آج بھی پیوست ہے۔ کئی سو سالوں تک افریقہ سے کڑوروں غلاموں کو شمالی اور جنوبی امریکہ میں لایا جاتا رہا جہاں ان کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر تھی۔ جہاں عمومی طور پر یورپی نو آباد کاروں نے اپنے قبضوں کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے سفید ’نسل‘ کی برتری کا جھوٹ گھڑا وہیں امریکہ میں انسان کی انسان کے ہاتھوں ملکیت کے لیے سیاہ فام غلاموں کو دوسرے انسانوں سے کمتر بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ اس کا ایک اور مقصد غریب سفید فام کسانوں (جن کی حالت غلاموں سے کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی) اور سیاہ فام غلاموں کو آپسی جڑ ت قائم کرنے سے روکنا تھا۔ 1865ء میں ختم ہونے والی خانہ جنگی کے بعد جنوبی ریاستوں میں غلامی کا خاتمہ تو کر دیا گیا لیکن جنوبی ریاستوں کی تعمیر نو (در حقیقت جنوب کی کاشت کار اشرافیہ کی طاقت کے خاتمے) کے بعد ’جم کرو قوانین‘ (Jim Crow Laws) کی شکل میں نسلی تعصب اور تفریق کو قانونی شکل سے دی گئی اور سابقہ غلاموں اور ان کی نسلوں کو پھر سے غربت ، ذلت اور جبر میں جکڑ دیا گیا۔ اس دور میں سفید نسل پرست جنونیوں کے ہاتھوں ہزاروں سیاہ فاموں کو تشدد سے ہلاک کیا جاتا رہا۔ 1910-30ء کے صنعتی عروج کے دوران لاکھوں سیاہ فام جنوب سے ہجرت کے بڑے صنعتی شہروں میں محنت کش طبقے میں شامل ہوئے۔ لیکن یہاں بھی انہیں نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑ اوران کی سماجی اور ثقافتی طور پر ایک علیحدہ شناخت موجود رہی۔ انہیں عملی طور شہروں کے مخصوص اور پسماندہ علاقوں تک محدود کر دیا گیا اور تعلیم ، روزگار اور کاروبار میں مساوی مواقع نہ ملنے کے باعث یہ علاقے اور کمیونٹی غربت، محرومی اور منشیات کا گڑھ بنتے گئے۔
ایک طبقاتی نظام میں محنت کش عوام کا تعصب (مذہب، قوم، نسل، رنگ وغیرہ) کی بنیاد پر منقسم رہنا حکمرانوں کے مفاد میں ہے اور حکمران طبقہ شعوری اور لا شعوری طور پر اس تعصب اور تقسیم کو قائم رکھنے اور ہوا دینے کی مسلسل کوشش میں رہتا ہے۔ اس طرح کے نسلی تعصب اور جبر کا شکار محنت کشوں کاکم تر اجرتوں پر دوسروں سے زیادہ استحصال کر کے شرح منافع کو بلند اور دیگر محنت کشوں کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
فریڈرک اینگلز کے مطابق آخری تجزئیے میں ریاست مسلح افراد کے جتھوں پر مشتمل ہوتی ہے جو ذاتی ملکیت کا دفاع کرتی ہے۔ پولیس اس ریاست کے سب سے جابر اداروں میں سے ایک ہے اورسماج کے مختلف حصوں اور طبقات پر جبر مسلط رکھنے کے لیے تشدد کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ سرمایہ دارانہ سماجوں کی جدید شکل میں پولیس کا قیام انیسویں صدی کی دوسری چوتھائی کے دوران محنت کشوں کی ہڑتالوں، شہروں میں ہنگاموں اورغلاموں کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ خصوصاً امریکہ میں پولیس کا سلسلہ فرار شدہ غلاموں کو پکڑنے والے اداروں سے جا ملتا ہے۔ ماضی میں پولیس اس سے کہیں زیادہ ظالمانہ اور سفاکانہ کاروائیوں میں ملوث رہی ہے اور موجودہ عہد میں کئی ریاستی ایجنسیاں شہریوں کی نجی زندگیوں میں ہر طرح کی جاسوسی کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں سے پولیس کی ’ملٹرائزیشن‘ میں بہت اضافہ ہو ا ہے۔ اب پولیس بکتر بند گاڑیوں سے لے کر کمانڈو یونٹس اور بھاری فوجی اسلحے سے لیس ہے۔ 2014ء میں فرگوسن میں 18 سالہ مائیکل براؤن کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں میں پولیس کا فوجی اسلحے سے عوام پر تشدد اس کی صرف ایک مثال ہے۔
نسلی اقلیتیں اس کے جبر کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہیں۔ مزدور یونین اور تحریک میں سیاہ فام محنت کش بہت اہم کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ امریکہ کی خانہ جنگی سے لے کر 1960ء کی دہائی کی سول رائٹس تحریک تک، اس جدوجہد نے حکمران طبقے کو کچھ رعائتیں دینے پر مجبور کیا اور قانونی اور آئینی طور پر نسل پرستی کا خاتمہ ہوا۔ اسی عہد میں میلکم ایکس (Malcom X) کا سیاہ فام اسلامی نیشنل ازم، بلیک پینتھر پارٹی کے سوشلزم سے لے کر گوریلا جہدوجہد تک کے نظریات اور جدوجہد کا ملغوبہ اور مارٹن لوتھر کنگ کی عدم تشدد سے لے کر طبقاتی پوزیشنز نظر آتی ہیں۔ اسی دوران سیاہ فام اشرافیہ کا ابھار بھی ہوا جو حکمران طبقے میں شامل ہوکر اپنے ہی لوگوں کے استحصال میں شریک ہو جاتے ہیں۔ باراک اوباما اسی سیاہ فام اشرافیہ کا ایک نمائندہ ہے۔ موجودہ احتجاج اور مظاہرے ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ (سیاہ فاہوں میں زندگیاں بھی قیمتی ہیں) کے پرچم تلے ہو رہے ہیں جو 2013ء میں سیاہ فام نوجوان ٹریون ماڑن کے سفید فام قاتل کے بری ہو جانے کے بعد شروع ہوئی۔ یہ منظم تنظیم سے زیادہ ایک تحریک ہے اور اس میں مرکزیت کے قابل ذکر ڈھانچے نہیں ہیں۔

United against police brutality
’’نسل پرستی سرمایہ داری کے بغیر نہیں رہ سکتی‘‘

لیکن محض نسلی بنیادوں پر جدوجہد سیاہ فام لوگوں کو غربت اور جبر سے آزاد نہیں کروا سکتی۔ میلکم ایکس کے الفاظ میں ’’نسل پرستی منافع بخش ہے۔ اگر یہ منافع بخش نہ ہوتی تو یہ موجود ہی نہ ہوتی‘‘۔ منافع خوری پر قائم اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر نسل پرستی اور اسکے کے جبر و تشدد کا خاتمہ ممکن نہیں۔ عظیم سیاہ فام رہنما مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا ’’نسل پرستی سرمایہ داری کے بغیر نہیں رہ سکتی‘‘۔ سیاہ فاموں ، لاطینی امریکہ کا پس منظر رکھنے والوں، مقامی امریکیوں اور تمام تر نسلی اقلیتوں کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کی طبقاتی جہدوجہد کے ساتھ جوڑ کر ہی یہ لڑائی لڑی اور جیتی جاسکتی ہے۔

متعلقہ:

امریکہ: ڈوبتے نظام میں ابھرتی بغاوت کے آثار

امریکی سامراج کا داخلی جبر