[تحریر: لال خان]
دیوار برلن کے گرنے اور بعد ازاں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے لبرل، سیکولر اور سابقہ بائیں بازو کے دانشور ’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘کا راگ مسلسل الاپتے رہے ہیں۔ ان خواتین و حضرات کی اکثریت ’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو سیاسی، معاشی اور سماجی ’’آزادی‘‘ کی معراج تصور کرتی ہے۔ امریکی سامراج ان کا ’’رول ماڈل‘‘ ہے۔ ’’دہشت کے خلاف جنگ‘‘ کے لبادے میں عراق اور افغانستان میں سامراجی قتل عام اور لوٹ مار کی بالواسطہ یا کھلی حمایت یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ سامراجی استحصال، ڈاکہ زنی، سیاسی مداخلت اور خونریز جنگوں کی طویل تاریخ بھی ان کے لئے بند کتاب ہے۔
امریکی سامراج کی جارحیت دوسرے ممالک کے محنت کش عوام تک ہی محدود نہیں ہے۔ خود امریکہ کے نوجوان اور محنت کش بھی اس سامراجی عفریت کے متاثرین میں شامل ہیں۔ امریکی سماج میں بدترین معاشی ناہمواری مسلسل بڑھ رہی ہے، ریاستی مشینری کے لسانی تعصبات گزشتہ کچھ عرصے میں پھر سے عیاں ہوئے ہیں، اجرتیں کئی دہائیوں سے منجمد ہیں، جرائم بڑھ رہے ہیں، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی سہولیات عوام کی پہنچ سے دور ہور ہی ہیں۔ فرگوسن اور دوسرے شہروں میں سیاہ فام نوجوانوں کے امریکی پولیس کے ہاتھوں قتل نے سامراجی ریاست کے اپنے شہریوں کی طرف رویے کو بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ میں محنت کش طبقے کی سیاسی قوت کی تعمیر میں سرگرم انقلابی مارکسسٹ جان پیٹرسن اپنے تازہ مضامین میں لکھتے ہیں کہ امریکی عوام میں حکمران طبقے کی دونوں سیاسی جماعتوں اور ان کے جعلی ’’اختلافات‘‘ سے بیزاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اوباما سے وابستہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ مائیکل براؤن، ایرک گارنر اور 12سالہ تامیر رائس کے ماورائے عدالت قتل نے جس غم و غصے اور احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا ہے اس کی مثال گزشتہ لمبے عرصے میں نہیں ملتی۔ عدلیہ کی جانب سے قتل کرنے والے پولیس افسران پر مقدمے چلانے سے انکار نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ایرک گارنر کے قتل کی ویڈیو نے نہ صرف امریکہ پر پوری دنیا کو لرزا دیا ہے جس میں وہ بار بار چلا رہا ہے کہ’ ’مجھے سانس نہیں آرہا‘‘اور پولیس سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ ‘‘
اس ریاستی جبر کے خلاف پوری دنیا میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ پورے امریکہ میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں جن میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ شریک تھے۔ مظاہرین نے اس پولیس گردی کو اسرائیل اور ڈرگ مافیا پر مشتمل میکسیکو کی ریاست کے رویے سے تشبیہہ دی ہے۔ یاد رہے کہ 26 ستمبر کو میکسیکو کی پولیس نے 43 طلبہ کو گرفتار کر کے منشیات سے وابستہ ایک خونخوار گینگ کے ہاتھوں قتل کروا دیا تھا جس کیخلاف پورے ملک میں لاکھوں افراد کے پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔ امریکہ اور میکسیکو میں بیک وقت ریاستی دہشت گردی کے خلاف ہونے والے مظاہرے عوام، خاص کر نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا اظہار ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں پولیس گردی کی ویڈیوز کروڑوں لوگوں کی پہنچ میں ہیں اور ریاست کی جانب سے پولیس کے بارے میں دیا جانے والا ’’خدمت ‘‘ اور ’’حفاظت‘‘ کا تاثر بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کے اصل کردار سے بھی عوام واقف ہورہے ہیں۔ امریکی میڈیا پر امن مظاہروں اور مظاہرین کے موقف سے کئی گنا زیادہ کوریج پولیس ایجنٹوں اور شر پسندوں کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کو دے کر تحریک کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس دوران مظاہرین نے سادہ کپڑوں میں ملبوس کئی پولیس اہلکاروں کو توڑ پھوڑپر اکساتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔ موجودہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ امریکی سماج کروٹ لے رہا ہے اور عوام سامراجی ریاست کے طبقاتی کردار کو جان رہے ہیں۔ سیاہ فام شخص کو ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر صدر بنا کر یا لسانی تعصبات کے ذریعے عوام کو آپس میں لڑاکر بغاوت کو زائل کرنا امریکی حکمران طبقے کے لئے اب آسان نہیں رہا ہے۔
مارکس نے کہا تھا کہ ’’ضرورت اپنا اظہار حادثے کی شکل میں کرتی ہے۔ ‘‘پولیس کی قتل و غارت گری کے خلاف ابھرنے والی تحریک درحقیقت ریاست اور نظام سے نفرت اظہار ہے جو سطح کے نیچے لمبے عرصے پک رہی ہے۔ خاص کر 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے امریکی محنت کشوں اور نوجوان نسل کو اس احساس نے جھنجوڑ دیا ہے کہ معیشت، سیاست اور ریاست کی باگ ڈور کسی اور طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ ’’آکو پائی وال سٹریٹ‘‘ تحریک کا نعرہ ہی ’’ہم 99فیصد ہیں‘‘ تھا۔ ’’عدلیہ کی غیر جانب داری‘‘ اور ’’جمہوری اقدار‘‘ سے وابستہ خوش فہمیاں چکنا چور ہورہی ہیں۔ عوام کی اکثریت یہ نتیجہ اخذ کر رہی ہے ان مسائل کی جڑیں نظام کے اندر پیوست ہیں۔
امریکہ میں حکمران طبقے کی نسل پرستی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1676ء کی بیکن بغاوت کے بعد سفید فام باغیوں کی نسبت سیاہ فاموں سے مختلف برتاؤ کیا گیا۔ 1831ء میں سیاہ فام غلاموں کی بغاوت کو کچل دیا گیا جس کے بعد 250 سے زیادہ غلاموں کو اذیت ناک طریقوں سے قتل کیا گیا، بغاوت کی قیادت کرنے والے ناٹ ٹرنر کو پھانسی دینے کے بعد اس کی کھال کھینچی گئی اور سر کاٹ دیا گیا۔ غلام داری کے عہد میں سیاہ فام غلاموں پر ڈھائے جانے والے اندوہناک مظالم کی یہ صرف ایک جھلک ہے۔ 1963ء میں مظاہرین پر پولیس نے کتے چھوڑ دئیے۔ 1985ء میں سیاہ فاموں کے حقوق کی تنظیم MOVE سے وابستہ افراد کے گھروں پر فلاڈیلفیا پولیس نے ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی جس میں پانچ بچے بھی ہلاک ہوگئے۔ 1999ء میں 23 سالہ نہتے سیاہ فام نوجوان اماڈو ڈلاؤ کو نیویارک پولیس نے 19 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ دنیا بھر میں ’’انسانی حقوق‘‘ کی ٹھیکیداری کرنے والی ریاست کی اپنے عوام کے خلاف یہ وحشت آج تلک جاری ہے۔
FBI کے اپنے ریکارڈ کے مطابق امریکی پولیس ہر سال 400 شہریوں کو قتل کرتی ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی تازہ تحقیق کے مطابق پولیس کی جانب سے کئے جانے والے سینکڑوں قتل ایسے ہیں جن کا حکومتی ریکارڈ میں ذکر ہی نہیں ہوتا۔ نسلی امتیاز پر مبنی ریاستی قوانین کا خاتمہ اگرچہ عوامی مزاحمت اور تحریکوں کے نتیجے میں دہائیوں پہلے ہو گیا تھا لیکن عملی طور پر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ سیاہ فام آبادی میں غربت، تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محرومی اور معیار زندگی میں گراوٹ کی شرح زیادہ ہے۔ غربت اور ریاست کا ’’ادارہ جاتی نسلی امتیاز‘‘ سیاہ فام آبادی کو مخصوص علاقوں تک محدود رکھتے ہیں جہاں پہلے سے موجود پسماندگی اور جرائم کا رجحان، نئی نسل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
سماجی حالات ہی سماجی شعور کا تعین کرتے ہیں۔ قلت کے حالات میں محدود وسائل پر تصرف کی جدوجہد ناگزیر طور پر افراد کے درمیان مقابلہ بازی اور عناد کو جنم دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں آبادی کی اکثریت انہی حالات سے دوچارہوتی ہے۔ دوسری طرف ذرائع پیداوار اور سماجی دولت پر تسلط رکھنے والی حکمران اقلیت کے لئے ضروری ہوتا کہ اکثریتی محنت کش طبقے کو ’’قابو‘‘میں رکھنے کے لئے بوقت ضرورت ننگے ریاستی جبر کو استعمال کرے۔ لیکن صرف تشدد ہی کافی نہیں ہوتا۔ محنت کش عوام کو نفسیاتی طور پر مطیع رکھنے اور تقسیم کرنے کے لئے کئی مکروہ طریقے استعمال کئے جاتے ہے۔ ’’تقسیم کر کے حکومت کرنے‘‘ کے لئے رنگ اور نسل کے تعصب حکمرانوں کا آزمودہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے محکوموں کو آپس میں دست و گریبان کروا کے حقیقی مسائل اور ان کی وجوہات سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔
نسلی تعصب سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں موجود ہے۔ یہ طبقاتی نظامِ حاکمیت کے ڈھانچے کا ہی ایک حصہ ہے۔ امریکہ کی طرح کم و بیش ہر ریاست کے جبر میں نسلی تعصب کا عنصر واضح نظر آتا ہے۔ لیکن آخری تجزئیے میں ریاست اور اس کا جبر بذات خود طبقاتی سماج کی پیداوار ہیں۔ بہتات پر مبنی سماج میں طبقات کے ساتھ ساتھ ریاست بھی غیر ضروری ہوجاتی ہے۔ قلت کے ساتھ چھینا چھپٹی اور جرائم بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ منافرت نسلی ہو یا مذہبی، اس کا کوئی دورس علاج سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ حکمران طبقے کا اوزار ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر کے محنت کش اس نظام کے خلاف جدوجہد کے دوران ہی یہ ادراک حاصل کریں گے کہ اصل لڑائی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بلکہ اس حکمران طبقے کے ساتھ ہے جس کے ساتھ محنت کش طبقے کی کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔
متعلقہ: