27دسمبر کے زخم کا مرہم؟

| تحریر: قمرالزماں خاں |
10 اپریل 1986ء کے اکیس سال بعد اکتوبر 2007ء میں ایک دفعہ پھر پاکستان بھر کے محنت کش عوام بڑی اکثریت سے میدان عمل میں اترے۔ یہ کراچی میں بے نظیر بھٹو کے استقبال کے مراحل تھے۔ قبل ازیں خود بے نظیر بھٹو سمیت پارٹی کی لیڈر شپ اس قسم کے استقبال کی امیدکئی برس پہلے ہی ختم کرچکی تھی۔ نواز شریف کو پہلا ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ دلانے والے 1997ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بدترین شکست سے یہ نتیجہ نکال لیا گیا تھا کہ پارٹی اپنی مقبولیت حتمی طور پر کھو بیٹھی ہے۔ بہت سے زوال پذیر بائیں بازو کے فرقہ پرستوں کی طرح، پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ بھی ظاہری واقعات سے متاثر اور بورژوا تجزیہ نگاروں کی رائے سے متفق تھی کہ پیپلزپارٹی عوامی حمایت سے مکمل طور پر محروم ہوچکی ہے اور اسکے بعد پارٹی کو ’’عالمی دوستوں‘‘ اور فوجی بیوروکریسی کے کچھ حصوں کی طرف سے باور کرایا گیا کہ ’’بدلتے حالات کے مطابق، عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔‘‘ ان کے مطابق فوجی جنتا کے ساتھ شراکت اقتدار ہی وقت کی ضرورت تھی ،اس ’’مفاہمت‘‘ سے ایک تو روبہ زوال فوجی جنتا کو آبرومندانہ قبولیت ملے گی تو دوسری طرف پیپلزپارٹی کی قیادت پر لگے الزامات،مقدمات،سزاؤں اور بندشوں کا تدارک ہوسکے گا۔ اس ’’سودے بازی‘‘ سے قبل دباؤ ڈالنے کے تمام حربے، نفسیاتی اور سیاسی تدابیر کواستعمال کیا گیا۔
ظاہریت پسندوں کا المیہ ہوتا ہے کہ وہ ’’موجودہ حالات‘‘ اور فوری واقعات کے بوجھ کو اپنے شعور پر حاوی کرکے اسکی’’ حقانیت ‘‘کے سامنے سرنگوں ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ یہی ہوا۔ امریکی سامراج کے فراہم کردہ ’’مفاہمت‘‘ کے نظریات کوپہلے سوویت یونین کی زوال پزیری اور انہدام کے عہد میں پارٹی کے بنیادی نظریات کی بیخ کنی اور دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ ’’مفاہمت‘‘ اور ’’مصالحت‘‘ کی اسی ’’عملی‘‘ سیاست سے اب فوجی جنتا کے ساتھ شرکت اقتدار کا نسخہ اخذ کیا گیا۔ اس نئے مفاہمتی فارمولے میں تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی طرح شریک اور ہمنوا تھیں جس کے تحت وطن لوٹنے والی بے نظیر بھٹو، ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے تک سامراجی قوتوں اور پاکستان کی فوجی بیوروکریسی کی طاقت کو ہی فیصلہ کن سمجھنے پر مجبور رہیں۔ انکی ساری حکمت عملی اس ظاہری طاقت کی مطیع اور پیروکار رہی۔ مگر اس ’’سچ‘‘ کا ایک اور پہلو بھی تھا ،جس کو سارے فریقین اور’’ مفاہمت کندگان‘‘ نے یکسر فراموش کیا ہوا تھا۔ یہ وہ کروڑوں غریب محنت کش ،مزدور اور کسان تھے جو اپنی روایتی پارٹی اور قیادت کو کسی اور نقطہ نظر سے دیکھ رہے تھے۔ نسل در نسل اس نظام کے گھاؤ اپنے جسم اور روح پر سہنے والے یہ محنت کش عوام، طبقات کے مابین ’’آبرومندانہ مصالحت‘‘ کو کسی طور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ محلات میں بیٹھے حکمرانوں کی ’’عملیت پسندی‘‘ کے برعکس جھونپڑ پٹیوں کے یہ ’’ان پڑھ‘‘ اپنی بھوک اور افلاس سے ’’مصالحت‘‘ کی بجائے ذلتوں کے اس نظام کے خلاف فیصلہ کن بغاوت برپا کرنا چاہتے تھے۔ وہ فوجی جنتا کی وحشت کو عوام کی طاقت کے سامنے کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں تھے،انہوں نے روس سے لے کر چین، ویتنام اور کیوبا تک… عالمی استعمار اور اس کے مقامی گماشتوں کو اپنے جیسے نہتے اور لٹے پٹے لوگوں کے ہاتھو ں کئی بار شکست کھاتے اور رسوا ہوتے دیکھا تھا۔ نجات کی اسی امید میں یہ محروم اور بے کس لوگ گھروں سے نکلے اور اپنی روایتی قیادت کا استقبال کرنے چل پڑے۔ آج کے ’’سپانسرڈ لانگ مارچوں‘‘ اور ’’وی آئی پی دھرنوں‘‘ کے برعکس لٹے پٹے کسان اور مزدور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ،ذاتی کرائے اور خرچے پر کراچی ائیرپورٹ تک پہنچے۔
18 اکتوبر کو کراچی کی سڑکوں نے جو منظر پیش کیا وہ کارپوریٹ میڈیا کے ہر ’’تجزیہ نگار‘‘ کی فہم و فراست سے بالاتر اور متضاد تھا۔ ’’ڈیل‘‘ پر پانی پھرنے لگا اور ’’پلاننگ‘‘ ہوا میں معلق ہوگئی۔ چند ہزار لوگوں کے استقبال کی توقع کرنے والوں نے جب چند لاکھ سے دس لاکھ اور پھر بیس لاکھ سے تیس لاکھ کا جم غفیر دیکھا تو انکے اوسان خطا ہوگئے۔ سارے حساب کتاب اور ان پر استوار کی گئی سیاسی بساط کے مہرے الٹ کر منہ کے بل جاگرے۔ جن کا استقبال ہورہا تھا وہ خود حیران سے زیادہ پریشان تھے۔ کراچی ائیر پورٹ کے گردونواح میں میل ہا میل تک پھیلے مضطرب انسانوں کے اس ہجوم بے کراں کی پیش گوئی تو ان کے ذہین و فطین ’’ماہرین‘‘ نے کی ہی نہیں تھی۔ حالات قیادت کے قابو سے باہر تھے، تحریک کی شدت ہر ’’ڈیل‘‘ کی زنجیروں کو پگھلا رہی تھی جو روایتی قیادت زیور کی طرح سجا کر وطن واپس لوٹی تھی۔ اس امڈتی تحریک کے بے نظیر بھٹو پر ممکنہ اثرات نے ’’ڈیل‘‘ کے دوسرے فریق پر بھی خوف کا لرزاطاری کردیا۔ اسی خوف اور بدگمانی، بلکہ مایوسی اور فرسٹریشن نے کارساز کے قریب بے نظیر بھٹو کے قافلے پر خود کش بم حملوں کا راستہ ہموار کیا۔ وہ اپنے خوف کو پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کی طرف منتقل کرنا چاہتے تھے۔ اس حملے میں ٹوٹی ہوئی چپلوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں والے سینکڑوں سرفروشوں کے چیتھڑے اڑنے کے باوجود مجمع نہ ٹوٹا اور قافلہ آگے بڑھتا رہا۔ یہ قیادت کے لئے ایک اور سبق تھا۔ پھر انتخابی مہم کے دوران بے نظیر بھٹو کے جلسے اس تحریک کو ملک کے طول و عرض میں لے گئے۔ بڑھتی ہوئی ریڈیکلائیزیشن نے ’’مفاہمت‘‘کی لکیر کے دوسری طرف کھڑے فریقین پر تلخ اثرات مرتب کئے۔ حکمران طبقے کے داخلی تضادات پر مشتمل مختلف دھڑوں کے مابین بداعتمادی بڑھنے لگی،عالمی طاقتوں کی طرف سے فراہم کی گئی تحفظ کی گارنٹیاں بے معنی ہوتی گئیں ، مملکت اور فوج کا سربراہ سرعام بے نظیر بھٹو کو حفاظت کی گارنٹی دینے سے مکر گیا ،اسکی طاقت اپنے متحارب ریاستی دھڑوں کے سامنے’’ ہوا‘‘ ہوچکی تھی۔

حکمران طبقے اور سامراج کے انہی تضادات کے خلفشار نے 27 دسمبر کے اس حملے کو جنم دیا جس میں ابھرتی ہوئی تحریک کے مرکزو محور کو مٹا دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے رد عمل میں سرکشی اپنی پوری طاقت سے ابھرکو ملک کے کونے کونے میں جا پہنچی اور ریاست مفلوج ہوگئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا وجود عنقا ہوچکا تھا۔ ساری طاقت بپھرے ہوئے مگر غیر منظم عوام کے ہاتھوں میں تھی۔ اس عوامی بغاوت کو انارکی اور لوٹ مار کی طرف دھکیلنے کے لئے جیلوں کے دروازے کھول دئیے۔ ریاستی ایجنٹوں کے ذریعے قیادت سے محروم اس بے سمت بغاوت کو جلاؤ گھیراؤ کے راستے دکھائے گئے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی میں کسی متبادل قیادت کی عدم موجودگی اور نام نہاد’’ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی‘‘کی تاریخی نااہلی اوربانجھ پن سے فائدہ اٹھا کر ’’زرداری اینڈ کمپنی‘‘ کو مشکوک ’’وصیت‘‘ سمیت نازل کرادیا گیاجنہوں نے خود رو تحریک کوسوگ،دعاؤں،ماتم اور ’’جمہوریت بہترین انتقام ‘‘ کی بھول بھلیوں میں زائل کردیا۔
’’جمہوریت کا انتقام‘‘ 2008ء میں شروع ہوا اور پیپلز پارٹی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے پر دائیں بازو کی عوام دشمن لیگی حکومت میں اب تک جاری ہے۔ بے نظیر کے قاتل تو خیر کس کیاملنے تھے اور کس نے ان سے بدلا لینا تھاالٹا پوری پارٹی کو ہی سالگراؤں اور برسیوں کی تقاریب تک محدود کردیا گیا۔ پانچ سالہ دور حکومت میں ’’بھٹوازم‘‘ کے نام پر بھٹو کے نظرئیے اور پارٹی کے بنیادی منشور کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ عوام دشمن سرمایہ داروں، جاگیرداروں، مفاد پرستوں، ضمیر فروشوں اور ضیا باقیات کو پارٹی کارکنان پر مسلط کرنے کا عمل تیز تر کر دیا گیا۔ اس حکمرانی میں محنت کش عوام کو حقوق دلوانے کی بجائے پارٹی قیادت کے تمام درجوں پربراجمان مافیا نے اپنی جیبوں کو بھرنے کو ہی ’’بھٹوازم‘‘ ،بھٹو کی فکر اور ’’بھٹو کا فلسفہ ‘‘ قرار دے کر بھٹو اور پارٹی کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس تنظیمی زوال اور نظریاتی غداریوں کا نتیجہ مئی 2013ء میں پارٹی کی بدترین انتخابی شکست کی شکل میں برآمد ہوا۔
اب ’’نئے بھٹو‘‘ کی باربار رونمائی کی تمام کوششوں کو بری طرح ناکامی کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ لوگ جعلی اور کھوکھلے نعروں اور روسٹم پر ’’باڈی لینگویج‘‘ کی جعل سازی سے تنگ آچکے ہیں اور قیادت پر براجمان مافیا کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی جرائم سے مکمل طور پرآگاہ ہوکر ان سے بیزار ہیں۔ تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان پیپلز پارٹی کسی دبنگ اور سحر انگیز ’’شخصیت‘‘ سے محروم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بنیادی پروگرام اور منشور کا تمسخر اڑانے والی قیادت پارٹی سے باہر تو رسوا ہے ہی مگر ان کے خلاف سب سے زیادہ نفرت اور حقارت خود پیپلز پارٹی کے اندر ہے۔

پارٹی کے اندر خاموش اکثریت نے اگر پارٹی کو نظریاتی بنیادوں پر ازسر منظم اور متحرک کرنے میں ٹھوس کردار ادا نہ کیا تو پھر پارٹی کا زوال زیادہ گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ اس صورت میں بطور عوامی روایت پارٹی کے مٹ جانے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ 27 دسمبرکا دن پارٹی کارکنان کو ’’سوگ‘‘ کی بجائے موجودہ پارٹی قیادت کی موقع پرستی، نظریاتی انحراف اور ڈھٹائی کے خلاف یوم احتجاج کے طور پر منانا چاہئے۔ 27 دسمبرکے گھاؤ بھرنے اور 4 اپریل کابدلہ لینے کے لئے،بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقاریب میں پارٹی کے بنیادی پروگرام کی بحالی کا مطالبہ کھل کر کیا جائے۔ اس بنیادی پروگرام اور دستاویزات میں شامل سرمایہ داری اورجاگیر داری کے خاتمے، تمام ذرائع پیداوار کو نیشنلائز کر کے مشترکہ ملکیت میں لینے،سامراجی اطاعت سے انکار،تعلیم اور علاج کے بیوپار کے خاتمے اورسوشلزم کے ذریعے روٹی، کپڑا، مکان سمیت تمام بنیادی ضروریات کی عوام تک رسائی کے نکات کو قراردادوں کی شکل میں پاس کرکے پارٹی کو بچانے کی تحریک کا آغاز کرنا چاہئے ورنہ ’’چپ‘‘ رہنے والے بھی پارٹی قیادت کے ہمنوا اور تاریخ کے کٹہرے میں مجرم تصور ہوں گے۔

متعلقہ:

30نومبرکے جنم کا رشتہ

پیپلز پارٹی کا احیا: نظریات یا شخصیات؟

18اکتوبر کی جستجو مٹ نہیں سکتی!

بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں!