[تحریر: قمرالزماں خاں]
اس وقت پاکستان کے قومی اثاثوں اور وسائل پر ’’نج کاری‘‘ کا بھوت منڈلا رہا ہے۔ یہ بھوت خاصا توانا ہوچکا ہے، اسکی رگوں میں ڈی نیشنلائیزڈ کیے گئے پاکستانی بنکوں، سیمنٹ فیکٹریوں، گھی ملوں، روٹی پلانٹ، ملک پلانٹ، گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں سمیت ماضی میں سینکڑوں’’نج کاری‘‘ شدہ اداروں کے وسائل دوڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں ’’نج کاری‘‘ کا آغاز سامراجی مالیاتی اداروں کی ہدایات اورسامراجی ڈائن کہلانے والی مارگریٹ تھیچر کی نقالی کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی 1988-90ء کی حکومت کے دوران کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ بینکنگ سیکٹرکے مزدوروں کی زبردست مزاحمت کے بعد ناکام ہوگئی۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران150 ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے جنرل سعید قادر کی سربراہی میں 68 صنعتی ادارے دوبینک، سوئی نادرن گیس کے دس فیصد شیئرزکو 12 ارب روپے میں بیچا گیا، یوں انتہائی قیمتی اثاثوں کو تو گنوادیا گیا مگر خسارہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا۔ ان میں مسلم کمرشل بینک کی ’’نج کاری‘‘ بھی تھی جس کے 65ارب روپے کے اثاثوں کو اپنے عزیز، دوست اور فرنٹ مین اور نشاط گروپ کے سربراہ میاں منشا کو محض ستاسی کروڑ روپے میں دے دیا گیا تھا، اس بینک کا سالانہ منافع ٹیکس ادا کرکے قیمت خرید سے دگنا تھا جبکہ حکومتی پراپیگنڈہ تھا کہ بیمار یونٹس کو بیچا جارہا ہے۔ اس ’’نج کاری‘‘ کو اسحاق خاں نے بھی کرپشن زدہ قرار دیا تھا جسکے خاندان کا دامن ’’نج کاری‘‘ کے ذریعے حاصل کردہ دولت سے بھرا ہوا تھا۔ ’’نج کاری‘‘ ہو اور کرپشن نہ ہو! ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ’’نج کاری‘‘ کی دنیا بھر کی تاریخ اسی حقیقت سے بھری ہوئی ہے۔ مثلاََ سرمایہ داروں کی ہیرو اور موجودہ عہد میں’’نج کاری‘‘ کی بانی آنجہانی مارگریٹ تھیچر کی ساری کی گئی ’’نج کاری‘‘ ملکی اثاثوں کی لوٹ سیل پر مبنی تھی جس میں برطانوی تیل، ریل ویز، کوئلے کی کانوں، ہوائی جہاز کے ادارے سمیت چالیس اداروں کو دولت مندکمپنیوں اور افراد کے ہاتھوں اونے پونے دے دیا گیا تھا۔ مثلاََبرطانوی مواصلاتی ادارے (برٹش ٹیلی کام) کو چار ارب پاؤنڈ میں دے دیا گیا جبکہ اسکی مالیت بیس ارب پاؤنڈ تھی۔ نواز حکومت میں میاں منشاء گروپ کو پاکستان کا سب سے بڑا گروپ بنوادیا گیا جو پاکستان کے قومی اثاثوں کی لوٹ سیل اور من مانی کے اظہار کا نتیجہ تھا۔ بدعنوانی کے چارجز کے نتیجے میں نواز حکومت کے خاتمے کے بعد پہلے سے زیادہ مصلحتوں اور سامراجی یقین دہانیوں سے دائیں جانب بالکل ہی موڑ کاٹ جانے والی بے نظیر کی حکومت نے بیس سے زائد اداروں کی ’’نج کاری‘‘ کی جن میں بجلی بنانے کا ایک کارخانہ بھی شامل تھا، ملک کی معاشی صورتحال کی بہتری ’’’’نج کاری‘‘ ‘‘ کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے‘ کا نعرہ لگانے والی بے نظیر حکومت کا جب خاتمہ ہوا توکہا گیا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ اسی حکومت میں ایک مجرمانہ معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں آئی پی پیز کی آمد ہوئی اور توانائی کے سیکٹر میں نہ ختم ہونے والے بحران، خساروں اور لوڈ شیڈنگ کی بنیاد رکھ دی گئی۔ بجلی بنانے والی عالمی ایجنسیوں نے منافع کمانے اور ان کو بیرون ملک منتقل کرنے کے ریکارڈ بنائے‘ جس سے مقامی سطح پر میاں منشا، خواجہ آصف اور دیگران کی بھی رالیں ٹپکیں اور وہ بھی نجی شعبے میں بجلی بنانے کے دھندے میں کود پڑے۔ یہ عذاب اب عالمی اور مقامی بنیادوں پر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان ’’ پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز‘‘ کو ضبط نہیں کیا جاتا۔ نجی کمپنیوں نے بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے ساتھ شراکت کرکے ایسے فارمولے وضع کردیے ہیں جس سے’’ گردشی قرضوں‘‘ کا نا ختم ہونے والا شیطانی دائرہ بنتا رہے گا، لوڈشیڈنگ ہوتی رہے گی اور پھر نرخ بھی بڑھیں گے اور نام نہاد’’گردشی قرضوں ‘‘ کی مد میں سینکڑوں ارب روپے ہر کچھ ماہ کے بعد ادا ہوتے رہیں گے۔ ۔ اس بدترین صورتحال کے نتائج آج پاکستان کے غربت زدہ عوام بھگت رہے ہیں، اسی وجہ سے اب ن لیگ کی حکومت پبلک سیکٹر کے پاور ہاؤسز کی ’’نج کاری‘‘ کرنے جارہی ہے تاکہ نجی لوٹ مار کا دائرہ مزید وسیع کیا جاسکے۔ عالمی سامراجی ادارے کے سابق اور موجودہ ملازم شوکت عزیز نے تیز ترین ’’نج کاری‘‘ کی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن جیسے ادارے کو تقریباََ مفت میں ’’اتصالات‘‘ کودے دیا گیا‘ جس کا ٹیکس کی ادائیگی کے بعدسالانہ منافع 37 روپے سے زائد تھا جو‘ اب نجی شعبے میں سات ارب روپے سالانہ کی سطح پر گر چکا ہے۔ اسی طرح قومی ائیر لائنز کے بارہ فی صد شیئر کی ’’نج کاری‘‘ بھی اسی دور میں کی گئی۔ سابق تمام ’’نج کاریوں ‘‘سے ملکی معیشت ٹھیک ہوئی نہ قرضے اترے اور نہ ہی خسارہ کم ہوا۔ اب پھر ’’نج کاری‘‘ کی تیاری ہوچکی ہے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ دوکانیں اور کاروبار چلانا حکومت کا کام نہیں ہے اسلئے ’’نج کاری‘‘ ہوگی، اسکا کہنا ہے کہ بھٹو کی نیشنلائزیشن نے ملک کا بہت نقصان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ 1977ء سے لیکر 2013ء تک کے چھتیس سالوں میں جب کہ نیشنلائیزیشن کی بجائے ڈی نیشنلائیزیشن یا پرائیویٹائیزیشن کا عمل جاری تھا تو کہاں اور کس شعبے میں فائدہ ہوا ہے؟حالانکہ ریاست اپنی تمام بنیادی ذمہ داریوں کو نبھانے سے انکاری ہوچکی ہے۔ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی اورناگزیر شعبے درحقیقت پاکستان کے لالچی اور نااہل نجی شعبے کے حوالے کئے جاچکے ہیں جہاں کاروباری سکول، کالجز، یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجز کی بہتات کے باوجودخواندگی کی شرح سرکاری طور پر ابھی تک 42 فی صد ہی ہے اور30 فی صد آباد ی ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض میں مبتلاہے۔ ایک طرف نجی ڈاکٹرز کی ایک تعداد کروڑ پتی بن چکی ہے مگر امراض بڑھتے جارہے ہیں، نجی علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’عطائی‘‘ سٹی رائیڈ سے علاج کرکے مریضوں کو لاعلاج کررہے ہیں۔ پینے کا پانی کل آبادی میں سے صرف 25 فی صد آبادی تک پنسٹھ سالوں میں پہنچا ہے اور وہ بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ نہ ہونے کے قریب بنیادی فزیکل انفراسٹرکچر بھی نہ سنبھالنے کی وجہ سے تقریباِِ زمین بوس ہوچکا ہے۔ ریاست امن و امان قائم رکھنے میں بری طرح ناکام ہوکر دنیا کی خطرناک ترین سرزمین بن چکی ہے جہاں ماضی بعید کی طرح نجی مسلح جتھوں کا راج ہے جو طالبان، القاعدہ، برگیڈز، سپاہ، لشکر، حذب، حرکت اور درجنوں مختلف ناموں پرجہاد، حقوق اور سیاسی مقاصد کی آڑمیں پر منشیات، ممنوعہ اسلحہ کی فروختگی اور سپلائی، اغوا برائے تاوان، پلاٹوں، پلازوں اور جائیدادوں پر قبضوں کادھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں، ریاست کہاں ہے؟ سبسڈیز کے خاتمے اور نجی سرمایہ داری کے فروغ کے باوجودغیر ملکی قرضوں کا حجم ستر ارب ڈالر کے قریب پہنچ گیا ہے جو بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ جن اداروں کو قوم پر بوجھ قراردیا جارہا ہے ان کو جان بوجھ کر نااہل اور کرپٹ عناصر کے حوالے کرکے بوجھ بنادیا گیا ہے تاکہ نج کاری کے ذریعے ان کی کھربوں روپے کی جائیداد نجی شعبے کے حوالے کی جاسکے۔ ان میں سرفہرست پی آئی اے ہے۔ اس فضائی سفر کے ادارے نے کئی دہائیاں تک دنیا بھر میں بہترین ائیر سروس کے طور پر نام کمایا، منافع حاصل کیا اور چار درجن کے قریب غیر ملکی فضائی کمپنیوں کی تشکیل اور تربیت کی، یہ سب پبلک سیکٹر میں رہتے ہوئے کیا گیا۔ آج اسکی زبوں حالی ایک ’’پالیسی‘‘ کے تحت ہے۔ یہی حال پاکستان اسٹیل کا ہے، بجلی کے شعبے کی بدحالی آئی پی پیز کی وجہ سے ہے یا پھر ماضی کی وہ تمام حکومتیں جنہوں نے جان بوجھ کر پانی، دھوپ اور ہوا کی بجائے درآمدی تیل سے بجلی بنانے کو ترجیح دی اور اب تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ فرانس کا صحت کاشعبہ، نیوزی لینڈکا تعلیم کا شعبہ، جرمنی میں واٹر سپلائی اور سیوریج کے شعبے اور چین میں سالانہ 1.68 ارب لوگوں کو ریل کا سفر کرانے والا، جدید، تیز اور مشکل ترین راستوں پر قائم ریلوے سسٹم‘ سرکاری شعبے میں دنیا کے اولین درجے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی نج کاری میں مشترکہ وصف چھانٹیوں کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ (برطانیہ میں پہلے مرحلے میں ہی بیس لاکھ، پاکستان میں پہلی نوازحکومت کے دوران تیرہ لاکھ)، مصنوعات اور سروسز کے مہنگا ہونے، نجی کمپنیوں کی اجارہ داری اور من مانیاں، مہنگائی کی وجہ سے غربت میں اضافہ اور غریب آبادی کا تعلیم، صحت، صاف پانی، سفری سہولیات، یوٹیلیٹی سروسز، حفاظتی نظام سے باہر نکل جانا ‘ جیسے مہلک سماجی معاملات فروغ پاتے ہیں جبکہ سماج کے اقلیتی حصے کو اربوں، کھربوں روپے کے اثاثے بنانے اور منافعے کمانے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ نج کاری سے محنت کا استحصال شدید تر ہوجاتا ہے، مزدوروں کی اجرتوں میں سائنٹیفک طریقوں سے کٹوتی اور اوقات کار میں بغیر معاوضے کے اضافہ ہوجاتا ہے۔ اقربا پروری کو فروغ ملتا ہے اور قومی اثاثے اپنے رشتے داروں میں باٹنے کے ساتھ ساتھ بھاری مراعات اور تنخواہیں پانے والے بورڈ آف ڈائریکٹرزاور انتظامیہ کی عیاشیاں’’لاگت پیدوار ‘‘ میں اضافے کا باعث بنتی ہے، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ نج کاری کی پالیسی کے دوران پبلک سیکٹر کو ایک منصوبے کے تحت برباد کیا جاتا ہے تاکہ اس کو ’’بوجھ‘‘ دکھا کرخریدا جاسکے۔ کٹوتیوں کی معیشت اورنجی شعبے میں ملازمین کو مستقل بنیادوں پر رکھنے کی بجائے مراعات سے محروم کرکے عارضی بنیادوں پر رکھا جاتا ہے اس طرح ’’شرح روزگار‘‘ کے اعداد وشمار اصل حقیقت کو چھپائے رکھتے ہیں۔ اگر سرمایہ دارانہ ریاست(سرمایہ داروں، جاگیر داروں، مراعات یافتہ حصوں سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے) عام لوگوں سے ہر سطح پردہرے تہرے بلواسطہ ٹیکس وصول کرتی ہے اور اسکے برعکس انکو صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی، تحفظ، پارکس، سڑکیں اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم نہیں کرتی تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ریاست کی ضرورت ہی کیوں ہے۔ اگر سب کچھ بے رحم سرمایہ دار بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جانا ہے توپھرریاست اور حکومتوں کی کیا ضرورت ہے اور ان کا آخرکیا کردار ہے؟یہ تجزیہ تومارکسسٹ بہت پہلے ہی کرچکے ہیں کہہ (بالخصوص)سرمایہ دارانہ ریاست استحصال کرنے والے اداروں کے مجموعے کا نام ہے جو طبقاتی تضادات کو قائم رکھتا ہے، اسلئے اسکے خاتمے کے بغیر طبقات کی بالا دستی اور جبر کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف اگر نجی شعبہ قابل، باصلاحیت ہوتا تو وہ پاکستان کی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی اور چھ دہائیوں سے مسلسل تعمیرکیا جانے والے انفراسٹرکچر پر قبضہ کرنے کی بجائے خود کچھ تعمیر کرکے دکھاتا۔ ایوبی دور میں بھی (کینشنزم کی پالیسی کے تحت) نجی صنعتوں اور ادارو ں کو ریاست کے پیسوں اور وسائل سے تعمیر کرکے انکے حوالے کیا گیا اور اب بھی ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ یہ وسائل پاکستان کے محنت کشوں کے خون پسینے اور روزوشب کی محنت سے تعمیر ہوئے ہیں اور ان پر خون چوسنے والی جونکوں کا کوئی حق نہیں۔ اسلئے پاکستان کے محنت کشوں پر فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے روزگار، مستقبل اور املاک کو بچانے کے لئے میدان عمل میں آئیں اور نج کاری کی پالیسی کو شکست فاش دیں۔
متعلقہ:
لوڈ شیڈنگ کا عذاب، گردشی قرضے کا گرداب
پاکستانی معیشت اور سرمائے کا گھن چکر
مزدور انجمنوں کی زوال پذیری اور لائحہ عمل
نجکاری کی بربریت
گھر کے برتنوں کی نیلامی
لاہور: واسا کی نجکاری، 1500 ملازمین جبری برطرف، بلوں میں 3 گنا اضافہ