18اکتوبر کی جستجو مٹ نہیں سکتی!

کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل . . . کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل

[تحریر: قمرالزماں خاں]
جلسوں کی سیاست کا میدان گرم ہے۔ جلسوں کے شرکا کی تعداد کا تعین کرنے کے لئے ماہرین کا وجود عمل میں آچکا ہے۔ زیادہ تر تجزیات مبالغہ آرائی اور طے شدہ سوچ کے مطابق کئے جارہے ہیں۔ رائے عامہ بنانے کا عمل جاری ہے۔ کئی متحارب عالمی طاقتوں اور پاکستان میں طاقت کے اجارہ داری کا مقابلہ کرنے والی، اور دھرنوں کے میٹرنٹی ہوم کہلانے والی قوتوں کی ’’پراکسی جنگیں‘‘ جاری ہیں۔ ان جنگوں کا محور رہنے والے ’’دھرنے‘‘ اب جلسوں میں تحلیل ہوتے جارہے ہیں۔ جلسوں سے وہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو انتخابی شکست، دھاندلی روکنے میں ناکامی، وسیع پیمانے پر عوامی حمائت سے محرومی، کا بدل بن سکیں۔ طاقتوں کے اس نام نہاد مظاہروں کا ہر روز نیا ایجنڈا دیا جاتا ہے، ان میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے پاکستان کے کروڑوں محنت کش عوام کے مسائل کے حل کے۔
پاکستا ن پیپلز پارٹی 18 اکتوبرکو اسی تناظر میں کراچی میں بڑا جلسہ عام کرنے جارہی ہے۔ پارٹی قیادت ’سانحہ کارساز‘ کو 18 اکتوبر کو موجودہ سیاسی حالات میں استعمال کرتے ہوئے اپنے تیزی سے گرتے ہوئے سیاسی وقاراور قد کاٹھ کو سنبھالنے کے لئے استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ 18 اکتوبر 2007ء پاکستان کا ایک تاریخی دن تھا، جس نے پاکستان کے ریڈی میڈ تجزیہ نگاروں کی پوری کھیپ کے تمام تجزیات اور دانشوروں کے تمام تناظر غلط ثابت کردئے تھے۔ موجودہ دور میں دھرنوں اور جلسوں میں ہزاروں اور زیادہ سے زیادہ دوڈھائی لاکھ کے ہجوم کو تاریخی کہنے والوں کی یادداشت یا اخلاقی معیاراتنا خراب ہے جنہیں 2007ء میں بیس سے تیس لاکھ کے درمیان بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لئے جمع ہونے والا فقید المثال مجمع یا د تک نہیں ہے۔ یہ لنچ باکسز والے شرکاء نہیں تھے اور نہ ہی دیہاڑی پر لائے گئے ’’سیاسی ونگارو‘‘۔ اسکے باوجود کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے الیکشن 2008ء کے امیدواران نے پارٹی کارکنان کو کراچی پہنچانے میں کوئی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا مگراس کے باوجودملک بھر سے مفلوک الحال، بھوک زدہ اور سرمایہ داری نظام کی چکی میں پستے، ہانپتے کانپتے تیس لاکھ لوگ اس کراچی میں پہنچ گئے تھے جو ان دنوں بھی’’ مقتل گاہ ‘‘ بنا ہوا تھا اور ’’کارساز‘‘ پر بے نظیر کی ریلی پہنچنے پر ’’قاتلوں‘‘ نے اس شناخت کو ثابت بھی کیا۔ بے نظیر بھٹو کے بے مثال استقبال نے ثابت کیا تھا کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کے دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ ایک لمبی جلاوطنی کاٹ کرآنے والی پارٹی کی چیئرپرسن، جس پر ’’ڈیل‘‘ کی درست تہمت بھی لگی ہوئی تھی، نے خود اتنے بڑے استقبال کے بارے میں سوچنا تک چھوڑ دیا تھا۔ اسکے ملک کے اندر موجود سیاسی نمائندگان نے اس کو وثوق سے باور کرادیا تھا کہ ملک میں پارٹی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور محنت کش اس سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔ مگر بے نظیر بھٹو نے دبئی سے روانگی سے قبل ٹیلی وژن پر اور خود کراچی کے فضائی جائزے سے جو کچھ دیکھا اسنے اسکے پچھلے تمام خیالات کو بدل کر رکھ دیا۔ بے نظیر بھٹو نے اس ’’ڈیل‘‘ کی ضرورت کی نفی اپنے دل کے ہر خانے میں موجود پائی جس کی ضرورت کو پارٹی کے دائیں بازو اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام کرنے والے ہرکارے ہرصورت ضروری قرار دیتے آرہے تھے۔ لوگوں کے اس انبوہ اور انکے جذبوں نے ایک نئی بے نظیر بھٹو کو جنم دیا جس نے اپنے گرد بندھی تمام زنجیروں کو توڑنے کا عزم کیا ہوا تھا۔ اسی تیس لاکھ لوگوں کے بے نظیر ہجوم نے اسٹیبلشمنٹ اور عوام دشمن قوتوں کو لرزا کررکھ دیا۔ اس آغاز اور جذبے کو بم دھماکوں کے ذریعے کارساز میں چیتھڑوں میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے نے پھر ریاست اور پیپلز پارٹی (خواہ وہ ڈیل اور مفاہمت کے بندھنوں میں بندھی ہو) کے باہمی تعلق کو ایک بار پھر ’’ناقابل مصالحت‘‘ ثابت کیا۔ سانحہ کارساز سے راولپنڈی میں بے نظیر کے قتل تک کی داستان اسی قضیے کی خونی دلیلوں سے بھر ی پڑی ہے۔ جس سے پھر کسی نے نہیں سیکھا تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہی تھی۔ جس کو مصالحت اور مفاہمت کی علت نے ریاست کی فونڈری میں بننے اور پلنے والی ’’ مسلم لیگوں اور تحریکوں‘‘سے بھی نچلے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ اس گراوٹ نے پارٹی قیادت کو جس ہذیانی کیفیت سے دوچار کیا ہے وہاں پھر غلطیوں اور غلط حکمت عملیوں کا تکرا ر نظر آتا ہے۔ ہر حکمت عملی سے پہلے وہ نظریات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جس پر حکمت عملی کو وضع کیا جاتا ہے۔ اگر نظریات غلط ہوں تو ہر وضع کی گئی حکمت عملی غلط نتائج سے دوچارکرے گی۔ پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول کے پارٹی کارکنوں سے معافی کے بیانات، بائیں بازو کے لفظ کا استعمال اور بانی چیئرمین کی باڈی لینگوئج کا استعمال ان مضمرات کا تدارک نہیں کرسکتا جو پارٹی کو حکمران طبقے کے مفادات کا آلہ کار بنانے پر منتج ہوئے تھے۔
نیت پر شک کرنیکی بجائے ہمیں عمل کی طرف دھیان رکھنا چاہئے۔ عمل کے میدان میں ہمیں کسی رو رعایت کی ضرورت نہیں۔ یہاں کڑی نظریاتی بنیادوں پر جانچ پڑتال جاری رکھنی چاہئے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پہلے بلاول بھٹو زرداری یہ تو واضح کریں کہ وہ نظریات پر یقین بھی رکھتے ہیں یا اپنے پیشرو چیئر پرسن کی طرح ان کو پچھلی نشست پر ہی دھکیلے رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ بلاول کا ناراض کارکنوں کو راضی نہ ہونے کی شکل میں دائیں بازو، آمریت کی کوکھ میں پلی یا فوجی ایجنسیوں کی چھتری تلے سیاست کرنے والی پارٹیوں کی بجائے بائیں بازو کی پارٹیوں میں جانے کے مشورے کو کئی پہلوؤں سے سمجھنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں بایاں بازو کہلانے والی کوئی قوت نظر نہیں آتی۔ ادغام پے ادغام کرتے چلے آنے والے گروپوں نے پچھلے تیس سالوں میں ’’بائیں بازوکی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونے چاہئے‘‘ کے شوق میں اختلافات کی رکاوٹ کو ایک ہی اصول سے ختم کردیا ہے کہ اتحاد بنانے کے لئے ’’نظریات‘‘، طریقہ کار اور لائحہ عمل کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا جائے حتیٰ کہ پرچم بھی ایسا وضع کیا کہ اس میں سرخ رنگ کے طبقاتی اظہار کو سفید، پیلے اور گلابی رنگوں کی ’’مفاہمت‘‘ کے ذریعے زائل کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ سوشلزم اور کمیونزم کے لفظوں سے حتیٰ الامکان گریز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سردست سوشلسٹ انقلاب کی بجائے اصلاحات اور نام نہاد ’’قومی جمہوری انقلاب یا عوامی جمہوری انقلاب‘‘ کی متروک اصطلاحات کا سہار ا لیا جاتا ہے۔ ان پارٹیوں کے منشور اور پروگرام خود پاکستان پیپلز پارٹی کے (نظرانداز کئے جانے والے) بنیادی پروگرام اور منشور کے مقابلے میں مصالحت اورتذبذب کے آئینہ دار ہیں، یہ نظریاتی پختگی کی بجائے طبقاتی رواداری اور متضاد مفادات پر مبنی بھائی چارے کی خصوصیات سے مرصّع نظر آتے ہیں اور نظریات پر ناقابل مصالحت یقین کو وہ اب بائیں بازو کی بنیاد پرستی گردانتے ہیں۔ متذکرہ گروہ جو لبرل اور ترقی پسند کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ سوشلزم کی بجائے منڈی کی معیشت کی طرف زیادہ دوستانہ رجحانات رکھتے نظر آتے ہیں۔
یہ ساری کیفیات ایسی نہیں ہیں جن سے بلاول بھٹوزرداری آگاہ نہ ہوں یا ان کے سیاسی مشیران سے کوئی امر اوجھل ہو۔ اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بلاول بھٹو تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کی مدد اور وسائل سے ’’میڈیائی ابھار‘‘ اور پراپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اپنے ناراض کارکنان کو وہاں جانے سے منع کررہے ہوں، یہ خوف ایک طرف تو اس وجہ سے بھی انکے شعور میں پنپ سکتا ہے کیوں کہ ان دنوں واردات کی حد تک لیفٹ کی لفاظی کرنے والے چند ایک شکست خوردہ پارلیمنٹیرینز کی بات چیت تحریک انصاف سے چل رہی ہے۔ سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ، پی ٹی آئی میں مرکزی عہدے کے معاملات اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ کا انتظار باقی ہے۔ پیپلز پارٹی کے یہ متوقع لوٹے ’’راہنما‘‘ ایک درست دلیل کو اپنے مذموم مقاصد، لوٹاازم اور موقع پرستی کے لئے استعمال کررہے ہیں کہ اگر ’’نظریات‘‘ اہم نہیں ہیں تو پھر کسی بھی پارٹی کو چھوڑ کر کسی بھی دوسری پارٹی میں جایا جا سکتا ہے۔ ان کی دلیل میں لفظ ’’نظریات ‘‘ اسی طرح اصطلاحوں کی تذلیل کی سیریل کا حصہ ہے جس طرح ’’آزادی‘‘، ’’انقلاب‘‘، ’’تبدیلی ‘‘، اور’’ ترقی‘‘ کے لفظوں کی بے حرمتی کا بازار گرم ہے۔ یہ سارے کے سارے ’’لوٹے ‘‘سرمایہ داری اور اسکی غلاظتوں پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ انکا‘ ماضی قریب کا اقتدارمیں رہتے ہوئے کردار، اس غلاظت سے لتھڑا پایا جاتا ہے جہاں کرپشن، ذاتی مفادات کے لئے سیاست کا استعمال‘ ان کے لئے عام سی بات تھی۔ مگر دوسری طرف حقیقت یہی ہے کہ جب نظریات سے ناطہ توڑ لیا جائے اورپارٹی کے تاسیسی پروگرام اور انقلابی منشور کو چھوڑ کرفوج کی نرسری سے نکلنے والی دائیں بازو کی پارٹیوں کے نظریات اور نقطہ نظر کو اپنا کر اس پر فخر کرنا شروع کردیا جائے تو پھر وہ ’’سیفٹی والو‘‘ ختم ہوجاتا ہے جو پارٹیوں کے کارکنوں اور راہنماؤں کو لائین کے ایک طرف رکھنے کا کام دیتا ہے۔ 2002ء کے الیکشن کے فوری بعد  ’’پیٹریاٹ‘‘ کے نام پر غداروں کے ایک ٹولے کا وفاداریاں بدلنا اور پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی بنائی گئی مسلم لیگ میں چلے جانا، اسی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ قبل ازیں پارٹی کی قیادت کی طرف سے امریکی مفادات کی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ اسٹیٹ بنانے کی ضیاء الحق کی قابل نفرت پالیسی کو ’’اپنا‘‘ کر فخر کرنا پارٹی کی نظریاتی زوال پذیری کی انتہاؤں کو ثابت کرتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو 1967ء میں سرمایہ داری، سامراجیت اور اسٹیبلشمنٹ کے جن نظریات اور فلسفے کے خلاف بنایا گیا تھا اسی سوچ اور منشور نے عوامی پذیرائی حاصل کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کو مزدوروں، کسانوں اور پچھڑے ہوئے طبقے کی نمائندہ پارٹی بنا کر وہ طاقت عطا کی تھی جس کی بہت کم مثالیں تاریخ میں ملیں گی۔ اسی طاقت نے دو فوجی جرنیلوں کے زعم کوشکست دی تھی۔ میلے کچیلے بدبودار کپڑوں والے انہی محنت کشوں نے ساٹھ کی دہائی کے آخری حصے میں یہ ثابت کردیا تھا کہ زمین پر حقیقی طاقت بندوق والوں کے پاس نہیں محنت کشوں کے پاس ہے۔ یہ طاقت اور اسکی فتح یابی کسی طلسماتی اور کرشمہ سازشخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ سماج کا پہیہ چلانے اور روک دینے کی صلاحیت رکھنے والے طبقے کے تاریخ کے میدان میں اترنے کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ بعد میں جب محنت کش طبقے سے بے وفائی کی گئی اور پارٹی کے تاسیسی پروگرام سے انحراف کرکے سوشلسٹ انقلاب کی بجائے الیکشن‘ اور منڈی کی معیشت کے خاتمے کی بجائے (ابھی تک تاریخی مگر) چند ادھوری اصلاحات پر ا کتفا کیا گیا، جن سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے خلاف مزدوروں اور کسانوں نے جدوجہد کرکے انکو شکست دی تھی‘ کو چور دروازوں سے پارٹی میں مسلط کرکے اسکے طبقاتی تشخص کو تبدیل کرنے کی شعوری کوشش کی گئی اور محنت کش طبقے کی عطا کردہ ساری طاقت انکے دشمن طبقے کو لوٹا دی گئی۔ اس صورتحال سے محنت کش طبقہ شدید مایوس ہوکر پارٹی سے لاتعلق ہوگیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ردانقلابی قوتوں نے پارٹی پر حملہ کرکے پارٹی چیئرمین کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔
بلاول بھٹوزرداری کا موجودہ بحران، سیاسی زوال پذیری، لوٹا ازم کی حالیہ بلیک میلنگ اور حقیقی کارکنان اور کروڑوں محنت کشوں کے مابین تعلقات کے معاملے پر تمام تر سیاق و سباق کے ساتھ جائزہ لے کر (نئی غداری کے خواستگاروں سے) معافیاں مانگنے کی بجائے نتائج اخذ کرنا چاہئے تاکہ پارٹی کو نواز لیگ کی بی ٹیم یا حکمران طبقے کے مفادات کی باندی بنانے کی بجائے محنت کش طبقے کے مفادات کی جنگ لڑنے والی پارٹی بنایا جاسکے۔ تھوڑی سی محنت کرکے بلاول کو اپنے نانا کے دنوں والی پارٹی کے منشور اور تاسیسی دستاویزات کی گرد کو جھاڑکر اسکا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، بے نظیر کامیابیوں کے تمام راستے اسی پروگرام میں درج ہیں۔ پھر اس بنیاد پر واپس آنا ہوگا جن پر پاکستان پیپلز پارٹی بنی اور کچھ ہی عرصہ میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ اس واقعہ کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی کہ وہ کیا امر تھا کہ جس کے تحت ’’منصورے‘‘ اور اسکے عالمی اور مقامی سرپرستوں کا مقابلہ کرنے والی پارٹی‘ کامیاب اور کامران تھی، اور اب منصورے کی یاتراؤں کے طوق ڈال لینے کے بعد سبکی اور بے توقیری میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ پارٹی راہنماؤں کو خوشامد اور حقیقی عزت کے فرق کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ تحصیل باڈیوں سے لیکر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ڈھانچوں میں ’’یس مین‘‘ روبوٹس بٹھا دینے سے اصلاحی تنقید، مختلف نقطہ نظر، ارتقاء اور سمجھ بوجھ کے دروازے بند کردئے گئے ہیں۔ جو جتنا بڑا خوشامدی ہوتا ہے اسکو اتنا بڑا عہدہ دے دیا جاتا ہے۔ پارٹی قیادت نے بہت سالوں سے یہ فرض کرلیا ہے کہ اقتدار کا سرچشمہ اسٹیبلشمنٹ ہے تو پھر کارکنوں کی کیا ضرورت ہے، موجودہ پارٹی بحران اور تنزلی اسی نقطہ نظر کی وجہ سے ہے۔ پارٹی کارکن بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ اگر پارٹی قیادت قربانیاں دینے والے اوراکثریتی طبقے کی نمائندگی کرنے والے کارکنوں کی بجائے انتخابات میں نام نہاد ’’وننگ ہارس‘‘ کہلوانے والوں کو پارٹی امیدوار بنائے گی تو ’’لوٹا ازم ‘‘ فروغ پاتا رہے گا۔ ان مانگے تانگے، بے ضمیر اور پارٹیاں بدلنے والے’’ کرائے کے ٹٹوؤں‘‘ کے لئے کارکن خود کوکسی آزمائش میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی ان اڑن پنچھیوں کی کمپئین میں اپنی توانایاں صرف کرنے پر آمادہ ہیں۔ ایک طرف نظریاتی طور پر پہچان کھودینے پر کارکن مایوس اور بے چین ہیں دوسری طرف رسوائے زمانہ، بے ضمیر اور حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے پنجاب اور جنوبی پنجاب کے صدور اور دیگر عہدیدار کسی طور کارکنوں کو قابل قبول نہیں ہیں، وڈیرے اور سکہ بند لوٹے اپنے ذاتی مفادات کے علاوہ کسی کے نمائندہ نہیں ہیں۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو تعمیر کرنے کی بجائے اسکو ختم کرنے کے لئے ہر حربہ اختیار کیاگیا حتیٰ کہ مخبوط الحواس قسم کے لوگوں کوپارٹی کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا۔ سندھ میں تو پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ظالم اور کردار سے عاری وڈیروں کے رحم وکرم پر چھوڑ کرفراموش کردیا گیا ہے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں یہی ہوتا جیسے گھوٹکی میں‘ ہر الیکشن میں وڈیرہ بدل جاتا ہے۔ کبھی لنڈ کبھی مہر سردار جو صدیوں سے محنت کشوں کا خون چوس رہے ہیں‘ کے سامنے پیپلز پارٹی کے ووٹراور حامی کی حیثیت کسی طور پر ’’انسان ‘‘ کی نہیں ہے۔ جنوبی پنچاب میں وہ ’مخادیم‘ جن کے خلاف پیپلز پارٹی بنائی گئی تھی ان کو پیپلز پارٹی کے نحیف جسم پر لاد دیا گیا ہے۔ یہ سب ایسے حالات میں کرنا ممکن تھا جب پارٹی کو نظریات سے دور کرکے حکمران طبقے کے مفادات کی لونڈی بنا دیا گیا۔ آج ایک سانس میں چیئرمین بلاول بائیں بازو کی تعریف کرتے اور مداح محسوس ہوتے ہیں مگر شریک چیئرپرسن زرداری نے منصورے کی یاتراؤں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ کیا لوگ دیکھنے، سوچنے اور فیصلہ کرنے سے معذور ہوچکے ہیں۔ ایسا سوچنا قیادت کی خام خیالی ہے۔ عام کارکن اور ووٹر کی کمٹمنٹ کو اسکی کمزوری سمجھ کر اسکی خواہشات اور طبقاتی مفاد کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کارکن کہاں جائے گا؟ کسی دشمن پارٹی کو تو ووٹ ڈالے گا نہیں لوٹ کر پھر اپنی پارٹی کی طرف آئے گا مگر پارٹی قیادت 1997ء اور 2013ء کے انتخابات کے نتائج سے یہ اخذ کرنے میں ناکام رہی ہے کہ ووٹر اور کارکن کے پاس تیسرا آپشن بھی ہے کہ وہ پارٹی کی عوام دشمن پالیسیوں، نظریاتی غداری اور لوٹوں کو ٹکٹ دینے پر اپنے گھر بیٹھ کر خود کو انتخابی عمل سے لاتعلق کرلے۔

یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری رہا تو لاتعلقی لوگوں کی عادت بن سکتی ہے اور وہ اسی ستر سے اسی فیصد کا حصہ بن سکتے ہیں جو سرمایہ داری نظام کی ظلمت سے بے گانگی کا شکار ہوکر انتخابات میں رائے دینے کے عمل سے نکل چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی بحالی اور بحران کاحل معافی نہیں بلکہ کئے گئے کی تلافی کرنے سے ہے۔ پارٹی قیادت کو باڈی لینگوئج کی بجائے عمل کے ذریعے اس منزل کی طرف بڑھناہوگا جس کا وعدہ پارٹی کوبناتے ہوئے کیا گیا تھا ’’ایک طبقات سے پاک سماج کی تعمیر!‘‘ جو ذوالفقار علی بھٹو کے بقول ’’صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘‘

متعلقہ:

۔18اکتوبر کا ادھورا سفر

اداریہ جدوجہد: 18 اکتوبر کی شکست

دھرنے، پیپلزپارٹی اور مفاہمت کی سیاست