تحریر: حسن جان
جمعرات 28 دسمبر کو ایران کے شہر مشہد میں مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدعنوانیوں کے خلاف ایک چھوٹے سے مظاہرے کا اہتمام کیا گیا۔ بعض رپورٹوں کے مطابق اس مظاہرے کا اہتمام ایرانی ملاؤں کے سخت گیر دھڑے سے تعلق رکھنے والے سابق صدارتی امیدوارابراہیم رئیسی کے حامیوں نے کیا تھا جو پاسداران انقلاب اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے قریب تصور کیے جاتے ہیں۔ مظاہرے کا مقصد مبینہ طور حسن روحانی کی ’اصلاح پسند‘حکومت پر سخت گیروں کی جانب سے دباؤ بڑھانا تھا۔ اس چیز کے لیے انہوں نے عوام کے انتہائی حقیقی مسائل جیسے بیروزگاری، مہنگائی اور پے در پے کرپشن کے اسکینڈلز کا سہارا لیا اور مظاہرے کے آغاز میں صرف حسن روحانی اور اس کی حکومت کے خلاف ہی نعرے لگ رہے تھے۔ لیکن شاید مظاہرے کے منتظمین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کا یہ اقدام معاشی تنگ دستی اور سیاسی جبر سے تنگ آئے ہوئے عوام کے لیے اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہوگا جو بعد میں ان کے اپنے قابو سے باہر ہوجائے گا۔
جمعرات کے مظاہرے میں لگنے والے نعرے فوری طور پر معاشی نعروں سے سیاسی نعروں میں تبدیل ہوگئے اور ان کا فوری ہدف حسن روحانی کی حکومت سے تبدیل ہوکر پوری ملاں اسٹیبلشمنٹ اور تھیوکریٹک ریاست بن گیا۔ مظاہرین کے نعروں سے واضح ہوتا ہے کہ ایران میں موجودہ صورت حال عوام کے لیے کس حد تک ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔پہلے نعرے صرف حسن روحانی اور اس کی حکومت پر مرکوز تھے جیسے ’’مرگ بر روحانی‘‘،’’عوام جاگ اٹھی ہے، لوٹ مار سے تنگ آچکی ہے‘‘، ’’پولیس جاؤ چوروں کو پکڑو۔‘‘ جبکہ بعد میں لگنے والے نعرے پوری ملاں اشرافیہ اور مذہبی جبر کے نظام کے خلاف تھے: ’’ ملاں اسلام کا سہارا لیتے ہیں، عوام کو برباد کرتے ہیں۔‘‘ سب سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے خلاف نعرے تھے: ’’مرگ بر دیکتاتور (آمر مردہ باد)۔ ‘‘ یہ نعرہ 1979ء کے انقلاب کے دوران شاہ ایران کے خلاف لگنے والا سب سے مقبول نعرہ تھا۔ لیکن شاہ ایران کے جانے کے بعد اب عوام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ خامنائی بھی شاہ ایران کی طرح کا ہی ایک ’دیکتاتور‘ (آمر) ہے۔ اس کے علاوہ خامنائی مسلح افواج، پاسداران انقلاب، بسیج اور عدلیہ کا مختار کل اور پوری ملاں ریاست، بالخصوص اس کے سخت گیر اور قدامت پرست دھڑے کا چہرہ ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف نعرہ لگنے کا مطلب یہ ہے ایرانی عوام اب ملاؤں کے اس اصلاح پسند اور سخت گیردھڑوں کے ڈراموں سے تنگ آچکے ہیں۔
مشہد کے مظاہرے اگلے دن ایران کے دوسرے شہروں میں پھیل گئے۔ کرمانشاہ (ایران میں حالیہ زلزوں میں کرمانشاہ میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی اور حکومتی نااہلی پر سب نالاں ہیں)، رشت، قم، ساری، اصفہان، ہمدان اور قزوین میں بھی مظاہرے ہوئے۔ حسب معمول پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں اور آنسو گیس کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ مشہد کے مظاہروں کے برخلاف بعد کے مظاہروں میں نعرے زیادہ ریڈیکل اور واضح تھے۔ مثلاً مشہد میں شاہ ایران کے حق میں بھی کچھ نعرے لگے اور کچھ ایسے نعرے بھی لگے جیسے ’’چی اشتباہی کردیم، کہ انقلاب کردیم‘‘ (ہم نے انقلاب کرکے بڑی غلطی کی) جو دراصل 1979ء کے انقلاب کے نتیجے میں شاہ ایران کے جانے کے بعد ملاؤں کے برسراقتدار آنے پر غم و غصہ کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نسل پرست نعرے بھی لگے جیسے ’’ما آریائی ہستیم، عرب نمی پرستیم‘‘ (ہم آریائی ہیں، عربوں کی غلامی نہیں کریں گے) تحریک کی شروعات میں اس طرح کے نعروں کا لگنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ عوام کسی تیاری کے بغیر ہی تحریک میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پہلے سے طے شدہ کوئی پروگرام یا نعرے نہیں ہوتے بلکہ وہ معاشی حالات اور جبر سے تنگ آکر آخری امید کے طور پر سڑکوں پر آتے ہیں۔ان میں حکمرانوں کی جانب سے مسلط کیے گئے روزمرہ زندگی کے تعصبات تحریک کے آغاز میں موجود ہوتے ہیں۔ پھر تحریک میں داخل ہونے کے بعد اپنی غلطیوں اور تجربات سے سیکھتے ہوئے اپنے نعروں اور حکمت عملیوں میں نکھار لاتے ہیں۔
اسی وجہ سے جمعہ کے دن ہونے والے مظاہروں میں زیادہ سیاسی شعور کی حامل نعرے لگے جیسے ’’ زندانی سیاسی آزاد باید گردد‘‘ (سیاسی قیدیوں کو آزاد کیا جائے)، ’’نہ غزہ ، نہ لبنان، جانم فدای ایران‘‘ (نہ غزہ، نہ لبنان ، میری جان ایران پر قربان)، ’’شام کو چھوڑو، ہماری فکر کرو۔‘‘ بنیادی طور پر یہ نعرہ ایران کی خطے میں اپنی بالادستی کے لیے مداخلت اور اس کی خارجہ پالیسی سے عوام کی بیزاری کا اظہار ہے کیونکہ ایران اربوں ڈالر عراق، شام، لبنان، غزہ ، یمن اور دوسرے ملکوں میں اپنی عسکری اور سیاسی مداخلت کے لیے خرچ کرتا ہے جبکہ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی سے تنگ عوام کے لیے کوئی پیسے نہیں۔
ایران کے تمام بڑے شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں نے ایرانی ملاں ریاست کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ آغاز میں تو کچھ حکومت مخالف سخت گیر ملاؤں نے عوام کی معاشی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان مظاہروں کو برحق قرار دیالیکن اب جبکہ یہ مظاہرے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئے ہیں اور حسن روحانی کو پس پشت ڈالتے ہوئے پورے مُلائی نظام کو للکار رہے ہیں تو سب نے چپ سادھ لی ہے۔ نام نہاد اصلاح پسند اور سخت گیر قدامت پسند دھڑے سب گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ حکومت مخالف ملاں موجودہ مظاہروں کو حکومت کی عوام کی معاشی حالت سدھارنے میں ناکامی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں جبکہ صدر حسن روحانی کے نائب صدر اسحاق جہانگیری حکومت مخالف ملاؤں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ غلام علی جعفرزادہ ایمن آبادی، جو رشت سے پارلیمنٹ کا ممبر ہے، نے حالیہ مظاہروں کے حوالے سے کہا، ’’ہم سب ایک کشتی پر سوار ہیں۔ جو کوئی بھی اس میں چھید ڈالے گا تو ہم سب غرق ہوجائیں گے۔ اس لیے مجھے امید ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عوام کو ( روحانی کی) حکومت سے بد ظن کیا جائے انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ عوام حکومت، اقتدار اور (مُلائی) نظام میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔ اگر وہ بدظن ہوگئے تو ہم سب سے بدظن ہوں گے۔اسی لیے کوئی کوشش نہ کرے کہ اس (نظام کی) کشتی میں چھید ڈالا جائے۔‘‘
اسی طرح پاسداران انقلاب سے منسلک اخبار ’جوان‘ نے شہ سرخی دی، ’’عوام کی معاشی مطالبات کے لیے مظاہرہ اور اس پر ردانقلاب کی سواری‘‘ (ایران میں ریاست ہر اس شخص کو ردانقلابی کہتی ہے جو ایرانی ملاں نظام کا مخالف ہوکیونکہ ریاست اپنے آپ کو انقلابی سمجھتی ہے)۔ مشہد سے شائع ہونے والے قدامت پسند اخبار’خراسان‘ نے لکھا، ’’عوام کے معاشی مظاہرے اور موقع پرستوں کی مداخلت۔‘‘ ایران میں نماز جمعہ کے اجتماعات میں خطبہ دینے والے ملاں عام طور پر سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے مؤقف کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جمعہ کے اجتماعات میں ان مظاہروں کو عوام کی معاشی مشکلات کی وجہ سے برحق قرار دیا گیا لیکن ساتھ ہی مظاہروں میں ایرانی ریاست کی مشرق وسطیٰ میں عسکری مداخلت کے خلاف نعروں کو دشمنوں کی مداخلت قرار دیا گیا۔
لیکن ابھی تک خامنائی نے ان مظاہروں کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ خامنائی ماضی میں حسن روحانی کی حکومت پر اس کی معاشی کارکردگی کے حوالے سے سخت تنقید کرتا رہا ہے۔ 2009ء کے عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے خامنائی نے اس وقت کے نومنتخب صدر محمود احمدی نژاد کی بھرپور حمایت کی۔ لیکن اس بار فی الحال اس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سب سے حیرت کی بات تو احمدی نژاد کی خاموشی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے کرپشن اور عوام کی معاشی مشکلات کے خلاف ایک مہم کا آغاز کر رکھا تھا۔ اس مہم کے دوران اس نے سوشل میڈیا میں اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعے طاقتور لاریجانی برادران کے خلاف کرپشن کے الزامات لگائے اور عدلیہ کے موجودہ سربراہ صادق لاریجانی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاتھا۔ میڈیا میں اس جنگ نے اتنی شدت اختیار کرلی تھی کہ مجبوراً سپریم لیڈر خامنائی کو مداخلت کرنا پڑی اور احمدی نژاد کو خاموش رہنے کو کہا۔ لیکن جب سے مظاہروں کی موجودہ لہر شروع ہوئی ہے احمدی نژاد بھی خاموش ہوگیا ہے۔
حسب توقع امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کی ’’حمایت‘‘ میں بیان داغتے ہوئے کہا، ’’ایرانی عوام حکومت کی بدعنوانی اور کرپشن سے تنگ آچکے ہیں جو ان پیسوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرتی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایرانی قیادت عوام کی طاقت سے خوفزدہ ہے۔‘‘ دوسری طرف ہیلری کلنٹن نے بھی حکومت کو مظاہرین کے مطالبات کی طرف توجہ دینے کو کہا ہے۔ درحقیقت مظاہرین کے خلاف سب سے کاری وار اِن سامراجی حکمرانوں کے ایسے ’’ہمدردانہ‘‘ بیانات ہیں، جو ایرانی ریاست کو جبر کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ سامراجی ممالک کے ان وحشی نمائندوں کے یہ بیانات دراصل ایرانی ملاؤں کے حق میں جاتے ہیں اور انہیں یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس شاندار تحریک کو امریکی مداخلت قرار دے کر مزید بے رحمی سے کچلیں۔ دائیں بازو کے اخبارات بالخصوص ’کیہان‘ جیسے اخبار پہلے ہی ان مظاہروں کو بیرونی مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا ایرانی عوام کو دوہرے دشمن کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو ایرانی تھیوکریٹک ریاست ہے جو واضح طور پر انہیں کچل رہی ہے لیکن دوسری طرف سامراجی ممالک ہیں جو اپنی منافقانہ سفارتکاری، معاشی اور سیاسی فوائد اور بالادستی کے لیے ان مظاہرین کے حق میں بیانات دے کر تحریک کو کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایرانی عوام کو ٹرمپ اور اس جیسے دوسرے سامراجی نمائندوں کے بیانات کو مسترد کر دینا چاہیے اور ایرانی مُلاؤں کے ساتھ ساتھ ان سامراجیوں کو بھی اپنے نعروں اور تحریک کا ہدف قرار دینا چاہیے۔
دوسری طرف بیرون ملک مقیم سامراجی سرپرستی میں چلنے والے گروہ بھی وجود رکھتے ہیں جو سامراجی پشت پناہی سے ایران میں ’جمہوریت‘ لانا چاہتے ہیں۔ ایسے سامراجی دلال بھی آج کل بڑے سرگرم ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک مجاہدینِ خلق کی رہنما مریم رجوی ہے۔ جو امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور سعودی عرب کے پے رول پر ہے۔ مضحکہ خیزی یہ ہے کہ مجاہدین خلق کے جلسوں میں ہر بار امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ یا آل سعود کے نمائندے آکر جمہوریت کے بارے میں لیکچر دیتے ہیں۔ مجاہدین خلق نے ایران عراق جنگ کے دوران مکمل طور پر صدام حسین کا ساتھ دیا تھا۔ اس لیے یہ لوگ عوام کے سامنے ننگے ہوچکے ہیں اور مظاہروں کے حق میں ان کے بیانات فریب اور دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں۔
ایرانی عوام نے حسن روحانی کی حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ 2013ء میں پہلی دفعہ صدر منتخب ہونے کے بعد حسن روحانی نے عالمی اقتصادی پابندیوں کی جکڑ میں آئی ایرانی معیشت کو سدھارنے اور ایران کو عالمی تنہائی سے نکالنے اور سماجی اور ثقافتی آزادی کے وعدے کیے تھے۔اس نے سامراجی ممالک کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی اقتصادی پابندیوں کو ایرانی عوام کی معاشی مشکلات کی وجہ قرار دیا۔ جولائی 2015ء میں عالمی قوتوں کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد جنوری 2016ء میں ایران پر عائد بیشتر اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئیں۔ دو سال گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک عوام کی زندگیوں میں کوئی ریلیف نہیں آیا۔ جیسا کہ ہم نے جولائی 2017ء میں لکھا تھا، ’’2013ء میں نام نہاد ’اصلاح پسند‘ حسن روحانی ’تدبیر اور امید‘ کے نعروں کے ساتھ ایران کا صدر بن گیا۔ عالمی میڈیا میں اس کی پرجوش پذیرائی سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی معاشی پالیسیاں کیا گل کھلائیں گی… وہ بیرونی سرمایہ کاری کو ہی آخری آسرا سمجھتے ہیں… اگر یہ ہو بھی جاتا ہے تو اس سے عام ایرانی محنت کشوں کو ان بڑی سرمایہ کاریوں سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ سماجی اور معاشی تضادات مزید تیز ہوں گے اور محنت کشوں کی تحریکیں جنم لیں گی جو ایرانی ملاں ریاست کے وجود پر ہی سوالیہ نشان ڈالیں گے۔‘‘اِس سے قبل جنوری 2016ء میں واضح کیا تھا، ’’ عوام کو اتنی بڑی اور اتنے طویل عرصے سے امیدیں لگوا کر ان کو پورا نہ کرسکنا حکمرانوں کی حاکمیت کے لیے بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اب یہی امیدیں کھل کر عملی مطالبات کی شکل اختیار کریں گی۔ پہلے شاید جمہوری حقوق اور ریاستی جبر کے خاتمے کے مطالبات پر خصوصاً نوجوان نسل کی جانب سے آواز اٹھے گی جو اس سے گھٹن کا شکار ہے۔ بدعنوانی اور منافقت ایران کی موجودہ حاکمیت میں رچی بچی ہوئی ہے اور عوام میں اس کے خلاف نفرت بھی پائی جاتی ہے… اگر تھوڑی سی اصلاحات کا چھوٹا سا دروازہ بھی کھلتا ہے تو وسیع انقلابی تحریک کے راستے ہموار ہو سکتے ہیں۔ پابندیوں نے طبقاتی تفریق کو مدہم کرکے بیرونی دشمن کے خلاف ایک قوم کی کیفیت کو قائم کر رکھا تھا لیکن اب طبقاتی کشمکش کھل کر سامنے آئے گی۔ اسی طرح ایران کی ملاں اشرافیہ نے سامراجی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے ایشو پر عوام پر اپنا تسلط لمبے عرصے تک برقرار رکھا ہے لیکن اب تو اسی ’’شیطان‘‘ سے مصالحت ہوچکی ہے اس لیے یہ نفسیاتی اوزار بھی حکمرانوں کے لیے اب زیادہ کارگر نہیں رہے گا۔‘‘ اِسی طرح اِس سے بھی قبل جولائی 2015ء میں لکھا تھا، ’’ایران اور امریکی سامراج کا معاہدہ اگر عملی شکل اختیار کرتا ہے اور ایران کی معیشت عالمی سرمایہ کاروں کے لئے کھلتی ہے تو بھی غربت، مہنگائی، بیروزگاری کم نہیں ہو گی۔ ملاں اشرافیہ، ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی کمیشن ایجنٹ بنے گی اور لوٹ مار کا وسیع سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ امریکہ اور چین کی جیسی معیشتیں ڈوب رہی ہیں، یورپی یونین ٹوٹنے کے آثار واضح ہیں۔ ایسے میں ایران کی خستہ حال سرمایہ داری بھلا کیا ترقی کر سکتی ہے؟‘‘
اگرچہ آج ایرانی حکومت کے مطابق معاشی نمو کے اعداد و شمار حوصلہ افزا ہیں لیکن عملی طور پر عوام کی زندگیاں اجیرن ہوتی جا رہی ہیں۔ مہنگائی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔ تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے حکومتی آمدنی میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں روزافزوں بڑھ رہی ہیں۔ ماہانہ ملنے والی کیش سبسڈی کو مزید محدود کیا جا رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حسن روحانی کا معاشی پروگرام معیشت کو عالمی اجارہ داریوں کے لیے کھولنے اور اسے ڈی ریگولیٹ کرنے کا ہے۔ نجکاری اور نجی شعبے کو زیادہ سے زیادہ کردار دینے اور سبسڈیز کا خاتمہ ہے۔ اس پروگرام نے پہلے ہی عوام پر قہر نازل کررکھا ہے۔ اس صورت حال میں صرف معاشی اعشاریے ہی بہتر ہوسکتے ہیں عوام کی معاشی حالت نہیں۔
موجودہ احتجاجی تحریک فی الحال مختلف شہروں میں خودرو مظاہروں تک محدود ہے اور کوئی سیاسی پارٹی یا گروہ اس کی قیادت کرنے سے گریزاں ہے۔ لیکن ایرانی ملاؤں کی باہمی چپقلش، معاشی مشکلات اور امارت اور غربت کی بڑھتی ہوئی خلیج کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ آنے والے دن ریاست کے لیے حوصلہ افزا ہوں گے۔ ایرانی ریاست پورے خطے میں اپنی عسکری مداخلتوں کی وجہ سے جتنی طاقتور اور ناقابل تسخیر نظر آتی ہے اتنی ہے نہیں۔مشرق وسطیٰ پہلے سے ہی دھماکہ خیز بحرانوں اور تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ سعودی عرب میں سعود خاندان آپس میں دست و گریباں ہے۔ ایسے میں ایران کے اندر انقلابی تبدیلی اور ملاؤں کے دھڑن تختے سے پورے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ جنوب ایشیائی برصغیر پر بھی اس کے اہم اثرات مرتب ہوں گے اور یہاں انقلابی تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔