| تحریر: لال خان |
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حالیہ سرکشی کے اہم مرکز کلگام سے مسلسل پانچویں بار منتخب ہونے والے ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)‘ کے رہنما اور رکن کشمیر اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے ہندوستان کے کثیرالاشاعت اخبار اور میڈیا نیٹ ورک ’دی وائر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے 19 جولائی کو کہا تھا کہ ’’کشمیر میں پہلے بھی تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن حالیہ سرکشی کی جو شدت ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی‘‘۔آج تقریباً 65 دن گزر گئے ہیں لیکن یہ بغاوت تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس میں جان دینے والی کشمیریوں کی تعداد 80 تک پہنچ چکی ہے اور اب تک 7550 افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں کئی ایک کی بینائی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کے استعمال کی وجہ سے جا چکی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر کی پوری نسل بغاوت پر اتر آئی ہے۔ یہ کارپوریٹ میڈیا کے زور پر چلنے والے ارب پتی سرمایہ داروں کے گماشتہ سیاستدانوں کے دھرنے اور ریلیاں نہیں ہیں جن میں شرکا کو صبح کا ناشتہ اور دوپہر اور شام کا پرتکلف کھانا پیش کیا جاتا ہے اور تمام تر جعلی بیان بازیوں کے باوجود ریاست میزبان بنی ہوتی ہے۔ یہ ایک دیوہیکل اور جابر ریاست کے ساتھ کشمیری عوام کا بے رحم ٹکراؤ ہے۔ ننگے جبر سے ٹکرا جانے والی تحریک ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لئے زندگی موت کی لڑائی ہے۔ آگ اور خون کا کھیل ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جبر و استحصال کے خلاف جب عوام کی بغاوت پر مبنی ایسی وسیع تحریکیں ابھرتی ہیں تو بظاہر ناقابل شکست نظر آنے والی ریاستیں اور حکمران بھی بوکھلاہٹ، ذلت اور شرمناک پسپائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عزم اور قربانیوں کے جذبے سے سرشار چھوٹی سی وادی کی تحریک نے ’دنیا کی سب سے بڑی جمہویت‘ اور اس پر براجمان ہندو بنیادی پرستی کی سرکار کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ مودی سرکار کی ساری شان و شوکت، امریکی سامراج سے گہرے یارانے، بیرونی دوروں کی ’’سیلفی سفارتکاری‘‘ اور چمک دمک، سب کچھ ماند پڑ گیا ہے۔
مودی سرکار کے برے دن آ گئے ہیں۔ کشمیر بھڑک اٹھا ہے اور اسی دوران 18 کروڑ محنت کشوں کی عام ہڑتال نے طبقاتی جدوجہد کا ایک نیا آغاز کر دیا ہے۔ کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کے تمام ہتھکنڈے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ جبر جب کام نہ کر سکا تو آئینی، قانونی اور سیاسی فریب سے تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ واردات بھی ناکام رہی۔ جو پارلیمانی وفد کشمیر بھیجا گیا اس کا سربراہ کٹر ہندو بنیاد پرست اور کرپشن کے لئے بدنام زمانہ راجناتھ سنگھ تھا۔ یہ پارلیمانی فریب اپنے آغاز سے ہی ناکام تھا۔ عوام نے جب دہائیوں تک ستم برداشت کئے ہوں، نسلیں قربان ہوئی ہوں تو ایسے میں مصالحت بھلا کیسے ہو سکتی ہے اور مفاہمت کون برداشت کر سکتا ہے؟ اس لئے کشمیر میں جہاں پی ڈی پی کی حکومت کو عوام کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے وہاں ’’علیحدگی پسند‘‘ رہنماؤں کے لئے بھی مذاکرات سیاسی خود کشی سے کم نہ تھے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس تحریک میں کشمیر کے عام باسیوں کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟
اس سرکشی کو ہندوستان کا کارپوریٹ میڈیا اور دائیں بازو کے سیاستدان پاکستان کی تخریب کاری قرار دے رہے ہیں۔ پچھلے ستر سال کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بیرونی تخریب کاریوں سے تحریکیں نہیں ابھرتیں۔اس کے برعکس حکمران آپسی لڑائی میں جب قومی آزادی کی تحریکوں کا استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے تحریک کمزور ہی ہوتی ہے۔ گھاگ ترین خفیہ ایجنسیاں بھی بٹن دبا کر تحریکوں کو چلا اور بند نہیں کر سکتیں۔علاوہ ازیں کسی کی گماشتگی میں پنپنے والی سیاست، تنظیم یا جعلی تحریک میں اتنی سچائی، جرات اور ہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ اتنی دیوہیکل ریاست سے ٹکرا سکے اور وسیع حمایت حاصل کر سکے۔
ہندوستان اور پاکستان کے کئی ملاں اور دائیں بازو کے رجحانات کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک کو مذہبی رنگ بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی مذہب کے لوگوں کے عقیدے اور آسرے کی تضحیک کی جائے یا زچ کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اس کے خلاف رد عمل ضرور کرتے ہیں۔ لیکن کشمیر کی تحریکوں میں حصہ لینے والوں کے مطالبات دیکھیں، ان کے لباس اور گفتگو دیکھیں، ان کی ثقافت کی تاریخ اور موجودہ کیفیت کا جائزہ لیں تو کہیں بھی اس کے مذہبی ہونے کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ اسی طرح جو اس کو صرف سیکولر قوم پرست تحریک سمجھتے ہیں وہ بھی کشمیر کے موجودہ بحران، معاشی اور سماجی گھٹن اور محرومی سے نابلند دکھائے دیتے ہیں۔
حریت کانفرنس کا جائزہ لیا جائے تو اس میں متضاد نظریات اور افکار رکھنے والے لیڈر ہیں جو اسلامی بنیادپرستی سے لے کر سیکولر قوم پرستی تک کے رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کو کس نے، کب اور کیسے ’لیڈر‘ بنا دیا ہے یہ سوال غور طلب ہے۔ جہاں تک انتخابات میں ووٹ دینے کا تعلق ہے تو اس تحریک میں بھی بہت بڑی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں جو اپنے فوری مسائل اور مطالبات کے پیش نظر ووٹ دے کر رائج الوقت سیاست سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔لیکن یہ نظام جہاں اس پورے خطے کو بھوک، بیروزگاری اور محرومی کے سوا کچھ نہیں دے پایاوہاں کشمیر میں عام لوگوں کے مسائل بھلا کیسے حل ہو سکتے ہیں۔روٹی، کپڑا، مکان اگر لوگوں کو باعزت طور پر مل پاتا اور روزگار، تعلیم، رہائش، بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ وغیرہ کے مسائل حل ہوئے ہوتے تو شاید ’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہی حل ہو جاتا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کشمیر کی حالیہ تحریک کے پیچھے کوئی ایک وجہ کارفرما نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت کی سرپرستی یا شہ میں ہندو بنیاد پرستوں کا باقی ماندہ ہندوستان میں مذہبی جبر اور مسلمانوں سمیت مذہبی اقلیتوں کے خلاف منافرت پھیلانے کی زہریلی مہم اس تحریک کو بھڑکانے کا عامل تھا۔ لیکن زیادہ اہم اور بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور معاشی مسائل ہیں۔ لائن اور آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے کشمیری نوجوانوں کا دوسرے خطوں میں روزگار کے لئے انخلا سارے برصغیر سے زیادہ ہو گیا ہے۔ لیکن دنیا بھر میں معاشی بحران کی وجہ سے اب یہ راستے بھی بند ہو رہے ہیں۔ اس لئے لوگوں کی معاشی محرومی، سماجی و ثقافتی بیگانگی اور ریاستی جبر اس بغاوت کے محرکات ہیں۔ بہت سے تاریخی عوامل بھی کارفرما ہیں لیکن تحریک کو مذہبی قرار دینا اس تحریک کی تضحیک کے مترادف ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بالفرض حق خود ارادیت مل جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ کشمیری دونوں میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کا ووٹ دیں گے۔ زیادہ امکانات ہیں کہ وہ ایک علیحدہ کشمیر چاہیں گے۔ لیکن نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ اور اقوام متحدہ جیسے لاٖغر، بے معنی اور عالمی طاقتوں کے گماشتہ ادارے محض سراب اور فریب ہیں۔کارپوریٹ میڈیا، حکمران اور بعض اوقات قومی آزادی کی تحریکوں کی قیادتیں بھی ایسے اداروں سے جو امیدیں وابستہ کرواتے ہیں وہ تحریک کے خلاف ایک جرم ہے۔ آج تک ایسا کون سا سنجیدہ یا کلیدی مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ حل کروا پائی ہے۔ آج تو یہ ادارہ ماضی کی نسبت بھی کہیں زیادہ نحیف ہو چکا ہے۔
10 ستمبر کو بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے کشمیر کا دورہ کر کے وہاں مزید افواج بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام طاقت کی بجائے بھارتی ریاست کی کمزوری اور خوف کی غمازی کرتا ہے۔کشمیر میں پہلے ہی چھ لاکھ سے زیادہ فوجی موجود ہیں۔ لیکن موجودہ تحریک کو اگر انقلابی قیادت، واضح پروگرام اور برصغیر کے دوسرے خطوں سے عملی یکجہتی اور حمایت حاصل نہیں ہوتی تو یہ تحریک بھی بکھر سکتی ہے۔ تاہم اس سرکشی نے صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کے نوجوانوں کو جبر اور استحصال کے اس نظام سے ٹکرا جانے کا پیام دیا ہے اور درخشاں مثال قائم کی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ احساس شکتی حاصل کرے گا اور بڑھے گا۔ طبقاتی جدوجہد اور ٹکراؤ پھر کہیں نہ کہیں جلد ابھرے گا۔ کسی بھی خطے میں انقلابی فتح پورے جنوب ایشیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے مشعل راہ بنے گی اور عالمی منظر نامہ تبدیل کر ڈالے گی۔
متعلقہ: