[رپورٹ: کامریڈ مجید]
رسوائے زمانہ کالونی ٹیکسٹائل کے مالک فیصل مختاراورسابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے فرنٹ مین عارف حبیب کا صادق آباد میں فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی کے نام سے پاکستان کا سب سے بڑا کھاد بنانے کا کارخانہ ہے۔ایک ہی چار دیواری میں چار مختلف قسم کی کھادیں بنانے اورایک بوریاں بنانیکی فیکٹری ہے۔کئی سو ایکڑ زمین پر پھیلی ہوئی اس صنعتی ایمپائیر میں کام کے مستقل ہونے کے باوجود دوتہائی مزدوروں کی تعداد ڈیلی ویجز یا کنٹریکٹ لیبرکی ہے۔بدقسمتی اور پاکستان کی مزدور تحریک کی زوال پذیری کی وجہ ایک ہی ادارے میں کئی کئی یونینز کے قائم کرنیکے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنے سے مزدوروں کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔اسی رجحان کے پس منظر میں فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی میں ایمپلائیز اور بیگنگ سیکشن کی پہلے سے علیحدہ علیحدہ سی بی اے یونین تھیں جبکہ اکثریتی محنت کش جو کہ دس پندرہ ٹھیکے داروں کے ذریعے کنٹریکٹ لیبر کے طور پر کام کرتا ہے اس کی نمائندگی کرنے والی کوئی یونین نہیں تھی۔چونکہ بارہ سو سے زیادہ مزدور ٹھیکے داری کے تحت کام کررہے ہیں اور ان کا شدید استحصال کیا جارہا ہے۔وفاقی حکومت کی آٹھ ہزار اورپنجاب حکومت کے کم ازکم تنخواہ 9000روپے کی بڑھک کے باوجود فاطمہ میں مزدوروں کو چھ ہزار روپے ماہانہ دئے جارہے ہیں۔فیکٹری کی تعمیر کے دوران بھی چھ کے قریب مزدور ناقص سیفٹی کی وجہ سے جان بحق ہوگئے اور فیکٹری چلنے کے بعد بھی تواتر سے خونی حادثات ہورہے ہیں۔مزدوروں کو نہ تو ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل ہے اور نہ ہی ان کو فیکٹری کی حدود کے اندر کسی حادثے کی صورت میں علاج معالجے کی سہولت ہے۔مزدوروں کے بے شمار مسائل کی وجہ سے ا آل کنٹریکٹررزورکرز یونین کے نام سے کنٹریکٹ ورکرز کی یونین رجسٹرڈ کرائی گئی۔اس رجسٹریشن سے فیکٹری انتظامیہ بوکھلاگئی اور انہوں نے ٹھیکیداروں کے ذریعے یونین کی رکنیت لینے والے چالیس مزدوروں اور یونین کے عہدے داروں کو یا تو برطرف کردیا یا انکے گیٹ بند کردئے۔زیادہ برطرفیاں 8اگست کو کی گئیں۔مزدوروں نے9 اگست کی صبح شفٹ بدلنے سے پہلے ہی فیکٹری کے گیٹ کے سامنے گاڑیاں کھڑی کرکے دھرنا دے دیا۔ چھ بجے سے سات بجے تک صرف سو کے قریب مزدور تھے پھر انکی تعدا د میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔تقریباََ پانچ سو کے قریب مزدوروں کے احتجاج کو روکنے کے لئے تین تھانوں کی پولیس نفری بلوائی گئی،جبکہ رینجرز کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔مظاہرے اور دھرنے کی قیادت پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے راہنما قمرالزماں خاں، مزدور یونین سی بی اے فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی بیگنگ اینڈ لوڈنگ کنٹریکٹرز کے چیئرمین نواب دین لاشاری،آل کنٹریکٹرزورکرز یونین کے صدر شعبان،جنرل سیکرٹری محمد اسلم،محمد اسلم ڈرائیورکررہے تھے۔سی دوران سرکل صادق آبادپولیس کی بھاری نفری نے دو دفعہ دھرنے کے خاتمے اور گیٹ کے سامنے رکاوٹ کے طورپر کھڑی بس کو نکالنے کے لئے حملہ کیا مگر مزدوروں نے پورا زور لگا کر اس حملے کو ناکام بنا دیا۔اس کے بعد رینجر کے مسلح نوجوان بس کی طرف لپکے مگر مزدوروں کی طاقت اور عزم کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور ہار مان کر کہنے لگے کہ آپ جو بھی کریں ہم اب رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔اس دوران انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور برطرف ملازمین کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔دو گھنٹے گزرنے کے بعد انتظامیہ اپنی ہٹ دھرمی ختم کرکے مذاکرات کے لئے آئی تو پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے قمرالزماں خاں اور فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی کے پروڈکشن منیجر،آئی آر اواور دیگر اعلی حکام کے مابین تین گھنٹے کے مذاکرات کے بعد انتظامیہ نے بالآخر گھٹنے ٹیک دئے اوربرطرف مزدوروں کو بحال کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کامیابی کے بعد دھرنا اور احتجاج ختم کیا گیا اور برطرف مزدوروں کو ڈیوٹی پر روانہ کیا گیا۔اس کامیابی سے علاقہ بھر کے مزدوروں اور تنظیموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔